قرآن کہانی ۔۔۔ حضرت آدم علیہ السلام
مصنف:علی منیر فاروقی
بشکریہ: الف کتاب
الحمد للّٰہ و کفی والسلام علی محمد مصطفی ۖ۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ہم
انسانوں کو طرح طرح سے راہ ہدایت بخشی۔ کبھی ہمیں دلائل سے قائل کیا ہے، توکبھی
ہمارے جذبات کو جھنجھوڑا گیا ہے، کبھی چشمِ تصور میں بہشت و دوزخ کے مناظر لائے
جاتے ہیں تو کبھی افلاک پر غور کر کے "پا جا سراغِ زندگی" کی دعوت دی جاتی ہے۔
راہ ہدایت کا ایک رستہ قصص القرآن سے بھی ہو کر گزرتا ہے، جس میں مختلف انبیا کرام اور پیغمبروں کے حالاتِ زندگی بیان کر کے ہمارے لیے روشن مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان ہمارا ایمان اس بات پر ہونا چاہئے کہ قرآن کے اندر کوئی فضول لایعنی لاحاصل بات موجود نہیں۔ انہ لقول فصل وما ھو بالھزل۔ چناں چہ قصص القرآن میں موجود قصے بھی ہماری ہدایت کا موجب ہیں ۔
یہ قصص القرآن صرف وقت گزاری یا معلومات عامہ کے حصول کے لئے نہ پڑھے جائیں اور نہ ہی بچوں میں مذہب سے دل چسپی کی خاطر بلکہ ان میں ہدایت کے لیے بے پناہ راستے بھی پنہاں ہیں۔
تو آئیے اللہ کے بابرکت نام سے آج ہم ان قصص کو تدبر کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔یاد رہے کہ مسلمان ہونے کے ناطے یہ قصص ہمارے لیے نئے نہیں لیکن ہمارا مقصد صرف ان میں پوشیدہ حکمت ،دانائی اور ہدایت کے پہلو تلاش کرنے کی ایک ادنیٰ سی سعی ہے۔ قصص القرآن میں بیان کردہ پہلا قصہ نوع انسان کی پہلی کڑی ہے یعنی ہمارے جدِ امجد حضرت آدم علیہ السلام کے حالات زندگی۔
اللہ تعالی نے اس دنیا میں سب سے پہلے جنات کو آباد کیا مگر ان کی سرکشی اور فساد کے باعث فرشتوں کی افواج بھیج کر انہیں سمندر برد کر دیا اور اس طرح زمین کے اصل حق دار یعنی حضرت انسان کے آباد ہونے کی راہ ہموار ہوئی ۔ قرآن کریم میں اللہ عز وجل اس قصے کی ابتدا اپنے اور فرشتوں کے مابین ہونے والے ایک مکالمے سے کرتے ہیں، جب وہ اعلان کرتے ہیں: "میں زمین میں اپنا خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں"۔ فرشتے جواب میں فرماتے ہیں: "کیا تو زمین میں ایسا نائب بنانا چاہتا ہے جو فساد پھیلائے اور خون بہائے حالاںکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔" جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا: " میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔" پھر کھنکھناتی مٹی سے ایک پتلا بنایا جاتا ہے اور فرشتوں کو اس بات کا بھی حکم دیا جاتا ہے: "جب میں اسے مکمل کر لوں اور سنوار لوں اور اس میں روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا۔ "
اس مٹی کے بارے میں بھی ایک نہایت حسین روایت ملتی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروّی ہے کہ جب اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بنانے کا فیصلہ کیا تو فرشتوں کو حکم ہوا کہ زمین سے مٹی لاؤ۔ پہلے حضرت جبریل علیہ السلام پھر حضرت میکائیل علیہ السلام گئے مگر زمین ان سے کہتی ہے میں اللہ کی پناہ میں آتی ہوں کہ تو مجھ میں سے کچھ کم کرے یا مجھے نقصان پہنچائے۔ دونوں آکر اللہ پاک کو بتاتے ہیں۔ آخر میں حضرت عزرائیل جاتے ہیں اور زمین کی اسی بات کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ اس کا دیئے ہوئے حکم کی بجا آوری نہ کروں۔ پھر مختلف رنگوں کی مٹی لا کر حاضر کرتے ہیں۔ اس مختلف رنگ کی مٹی سے ہماری تخلیق در اصل ذات پات اور رنگ و قوم کے بنائے ہوئے اصولوں کی سخت نفی کرتی ہے اور اس بات کی کھلی گواہی دیتی ہے کہ ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقاکم (اللہ کے نزدیک تم میں سے بہترین تقوی والے ہیں)نہ کہ عجمی یا عربی۔
چند روایات میں آیا ہے کہ وہ پتلا کافی عرصے تک بے جان پڑا رہا ۔ ابلیس جب وہاں سے گزرتا تھا تو اس سے مخاطب ہو کر کہتا کہ تم ایک عظیم کام کے لئے پیدا کیے گئے ہو۔ پھر جب مصور کائنات انسان کا ہیولہ مکمل کر لیتے ہیں اور خاک کے پتلے میں روح ڈال دی جاتی ہے تو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق مکمل ہوتی ہے۔ چند روایات میں آتا ہے کہ جب آپ کے اندر روح پھونکی گئی تو آپ کو ہوش آتے ہی اک چھینک آئی۔ فرشتوں نے آپ سے کہا کہ کہو الحمدللہ اور آپ کے الحمدللہ کے جواب میں اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ تم پر اللہ کا رحم ہوا۔ پھر آپ کو حکم ہوا کہ جا کر فرشتوں سے ملو۔ فرشتوں نے آپ کو دیکھ کر السلام و علیکم کہا تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ اے آدم یہ آج سے تمہارے تسلیمات ہیں۔ یوں دو اہم سبق بنی نوع انسان کو آفرینش پر ہی سکھا دیے جاتے ہیں ایک یہ کہ جیسے ابتدا میں ہی ایک ناخوش گوار کیفیت کا سامنا کرنا پڑا چھینک کی صورت میں اسی طرح تمہاری زندگی میں ہر قسم کے مصائب آئیں گے جس کے جواب میں صبر کے ساتھ اللہ کی ثنا اور شکرگزاری کی روش اختیار کرنی ہے۔ اسی طرح یہ بھی سکھایا گیا کہ باقی نوع کے ساتھ کیسا تعلق رکھنا ہے، یہ شروع میں ہی بتا دیا گیا کہ اے بنی آدم تم امن و سلامتی پھیلانے کے لئے بھیجے گئے ہو اس لیے تمہارے ابتدائی کلمات ہمیشہ سلام پر مبنی ہونے چاہئیں۔
اس کے بعد اللہ تعالی حضرت آدم کو اشیا کے نام سکھاتے ہیں اور فرشتوں کے سامنے انہیں حاضر کر کے فرشتوں سے ان اشیا کا نام پوچھتے ہیں تو فرشتے کہتے ہیں کہ اے رب تو پاک ہے اس بارے میں ہمارا علم کچھ نہیں۔ ہمیں تو بس اتنا ہی معلوم ہے جتنا علم تو نے ہمیں عطا کیا ہے ۔ پھر حضرت آدم سے پوچھا جاتا ہے تو وہ جھٹ نام بتا دیتے ہیں اب باری تعالیٰ فرشتوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ پھر سب کو حکم ہوتا ہے کہ آدم کے سامنے سجدے میں گر پڑو اور تمام فرشتے سجدے میں گر پڑتے ہیں سوائے ابلیس کے۔ ابلیس کے بارے میں ہم واقف ہیں کہ یہ دراصل جنات میں سے تھا، جو اپنے زہد و عبادت کی بنیاد پر اعزازی طور پر فرشتوں والے کام پر فائز ہو گیا تھا ۔
اس باغی حرکت پر اللہ تعالیٰ جلال میں ابلیس سے دریافت کرتے ہیں کہ تمہیں یہ سجدہ نہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟ تو وہ ملعون کہنے لگا کہ میں اس انسان سے بہتر ہوں اے رب تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اس انسان کو مٹی سے۔لمحہ بھر کا تکبر وہ بھی خالق کائنات کے سامنے اس کے تمام کیے کرائے پر پانی پھیر گیا اور وہ رذیل اپنے منصب سے فارغ اور دربار سے نکال دیا گیا۔ باری تعالیٰ کا حکم ہوا: "توُ اتر یہاں سے تو اس لائق نہیں کہ تکبر کرے یہاں پس باہر نکل تو ذلیل ہے" تو وہ ملعون روز قیامت تک کی مہلت یعنی زندگی مانگتا ہے، جو اسے دے دی جاتی ہے پھر اپنی مہلت مانگنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "چوں کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں بھی لوگوں کے لئے تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔ پھر ان پر آؤں گا ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے، اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔"
یوں شیطان دربار سے نکالا جاتا ہے اور ادھر حق تعالی حضرت آدم کی نسل سے تمام آنے والی بنی نوع انسان کی ارواح کو جمع کر کے عہد لیتے ہیں کہ "کیا میں تمہارا رب نہیں" ہم سب نے اس سوال کا جواب یک زبان ہو کر دیا تھا: "کیوں نہیں اے رب ہم اس بات پر گواہ ہیں۔"اس وقت حضرت آدم تمام انسانوں کو دیکھتے ہیں، انہیں آنے والے انبیا کی ارواح الگ سے چمکتی ہوئی دکھائی دییتی ہیں مگر آپ کو اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ تمام انسان ایک جیسے نہیں اپنے رنگ روپ اور نسب میں سب الگ ہیں۔ وہ باری تعالیٰ سے دریافت کرتے ہیں کہ اے اللہ! تو نے ان سب کو یکساں کیوں نہیں بنایا؟ جواب آتا ہے کہ "کیوں کہ مجھے اپنے بندوں کی طرف سے شکر گزاری بہت عزیز ہے"۔
جنت میں کچھ عرصہ قیام کے بعد حضرت آدم کو ایک خلش محسوس ہونے لگتی ہے۔ فرشتے تو ہر دم رب کی ثنا میں مشغول ہوتے ہیں اب آپ کیا کریں۔ ایک علم الاسما آپ کو عطا ہو چکا مگر اس علم کے بابت تو فرشتے کچھ نہیں جانتے ۔ کس سے گفت گو کریں کہاں قرار پائیں۔ ایک دن جب سو کر اٹھتے ہیں تو اپنے سامنے ایک اپنی ہم نوع عورت کو پاتے ہیں جو ان کی پسلی سے پیدا شدہ تھی۔ پوچھتے ہیں تم کون ہو ، تو وہ کہنے لگیں: "عورت"۔ پھر پوچھا کہ تمہاری تخلیق کا کیا مقصد ہے؟ تو کہنے لگیں: "تاکہ تم میرے اندر قرار پاؤ" اب فرشتے حضرت آدم سے پوچھتے ہیں کہ اے آدم اس عورت کا نام کیا ہے تو آپ کہتے ہیں حوا (لغوی معنی جاںدار) پوچھا: "کیوں" تو کہنے لگے کیوںکہ یہ ایک جاںدار شے سے تخلیق ہوئی۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ مرد و عورت کے جوڑے کی تخلیق کا مقصد آپس میں امن و آشتی کے ساتھ ایک دوسرے کے اندر سکون اور قرار پانا ہے، یہ نہیں کہ ہر دم طاقت کے حصول کی کشمکش میں آپس میں لڑتے رہیں۔
پھر آپ دونوں کو حکم ہوتا ہے کہ جنت میں چین و امن کے ساتھ رہو مگر ہاں! یہ خیال رہے کہ "اس درخت"کے پاس کبھی مت جانا ،وہ کون سا درخت تھا؟ کوئی اسے خوشۂ گندم بتاتا ہے تو کوئی اسے سیب کا درخت کہتا ہے۔ تشبیہات بھی الگ الگ ہیں کسی کی رائے میں وہ درد و تکلیف کا درخت تھا تو کوئی اسے جاودانی حیات کا پھل بتاتا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم صرف گمان ہی کر سکتے ہیں ۔ قرآن میں واضح الفاظ میں درج ہے کہ وہ درخت بالکل اہم نہ تھا بلکہ رب کا حکم اہم تھا۔ قرآن کریم میں اس درخت کے بارے میں الفاظ اس قدر مبہم ہیں کہ لگتا ہے جیسے اللہ تعالی نے کسی بھی درخت کی طرف اشارہ کر کے حضرت آدم کو کہا کہ بس اس درخت کا پھل نہیں کھانا باقی جو چاہے کھاؤ پیو۔ مگر انسان کا فطری تجسس اور شیطان کا بار بار بہکاوا انہیں اس درخت کی طرف مائل کرتا ہے ۔
ابلیس بڑے ناصحانہ انداز میں ان دونوں کو سمجھاتا ہے کہ میں تمہارا دوست ہوں اور تم کو اس درخت سے اس لئے روکا جا رہا ہے کہ کہیں تم ہمیشہ یہاں رہنے والے نہ بن جا ؤ۔ آخر کار بشری تقاضوں کے آگے مجبور ہمارے یہ دونوں جد امجد اس درخت کا پھل کھا لیتے ہیں ۔حکم ہوتا ہے کہ اتر جا ؤتم سب کے سب یہاں سے ،جا ؤدنیا میں رہو وہاں تمہارا ٹھکانہ اور طعام و قیام ہو گا اور تم وہیں رہو گے ایک دوسرے کے دشمن بن کر (انسان اور شیطان)۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپ سے یہ خطا ہوئی تو اللہ فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ آدم سے اس کی خلعت اور آرائش واپس لے لو چناںچہ آپ کے سر سے تاج اور دیگر آرائشیں اتارلی جاتی ہیں تو آپ رو رو کر چلاتے جاتے ہیں "معافی" ،"معافی"۔ ندا آتی ہے کہ اے آدم! کیا مجھ سے بھاگ رہے ہو ؟ تو آپ فرماتے ہیں: " نہیں اے رب! مگر آپ سے شرم آ رہی ہے۔ "
دنیا میں آکر ایک عرصہ سخت ندامت کی حالت میں روتے ہوئے گزارتے ہیں پھر رحمان کی رحمانیت جوش میں آتی ہے اور آپ کو پہلے علم کی طرح ایک اور علم دیا جاتا ہے۔ پہلا علم دنیاوی علوم کے سرچشمے یعنی عقل و خرد کا ملا اور دوسرا پہلی وحی کی صورت میں آخروی نجات کا۔ اس اولین وحی سے آپ کو توبہ کا سلیقہ اور اس کے الفاظ سکھائے جاتے ہیں اور معاف کر دیا جاتا ہے اور پھر ایک شفیق استاد کی مانند بڑی محبت سے حضرت آدم کو سمجھایا جاتا ہے کہ تمہارا گھر فی الحال یہی ہے،یہیں تمہارا عارضی قیام ہے، مجھے یاد رکھنا اور جب جب میری جانب سے میرے رسول تمہارے پاس ہدایت لے کر آئیں تو ان کی اتباع کرنا ۔ تم ایسا کرو گے تو نہ تمہیں کوئی غم ہو گا نہ کوئی ملال تم واپس اپنے اصلی گھر اور مقام یعنی جنت کو حاصل کر لو گے۔
اب ہم حضرت آدم کے رویے کا تقابل ابلیس سے کریں تو عبد الرحمان اور شیطان کا فرق صاف واضح ہو جائے گا۔ ایک غلطی حضرت آدم و حوا سے ہوئی اور ایک ابلیس سے تو دونوں کے درمیان فرق کیا تھا؟ فرق یہ تھا کہ حضرت آدم نے فوری رجوع کیا ،رو رو کہ معافی مانگی اور اپنی حرکت پر سخت ندامت کا اظہار کیا جب کہ ابلیس ڈھٹائی کے ساتھ اپنی حرکت پرنہ صرف ڈٹا بلکہ اپنے تکبر کی توجیح بھی پیش کرنے لگا، اور جب اسے یقین ہو گیا کہ میں تا قیامت ملعون ہو گیا ہوں تو پھر بجائے معافی مانگنے کے الٹا اللہ کو اپنی گمراہی کا موجب ٹھہرانے لگا: "چوں کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں بھی لوگوں کے لئے تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔" تو یوں ہمیں معلوم ہوا کہ رحمان کے بندے گناہوں کے بعد ایک داغ ندامت اپنے سینے سجاتے ہیں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے دوبارہ اللہ کا قرب چاہتے ہیں اس کے برخلاف ابلیس کی سنت، انا پرستی، گھمنڈ اور میں نا مانوں کی تکرار ہے۔
اس قصے پر اگر غور کریں تو بہت سی الجھنیں سلجھتی چلی جاتی ہیں،یہ حضرت انسان جو اس بات پر قادر ہے کہ اللہ کی زمین پر کشت و خون کا بازار گرم کر دے ،بھوک اور بیماری کے سودے کرے ، حیوانیت پر آئے تو اس حد تک کہ اپنی بیٹی کو بازار میں بیچ آئے، اس انسان سے دنیا میں خلافت کا کام کس طرح لیا جائے گا؟ اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو فرشتوں کی جھجھک بلا وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ مگر اللہ کی حکمت دو چیزوں سے عیاں ہوتی ہے۔ پہلی حکمت اس سجدے میں پوشیدہ ہے جو فرشتوں سے کروایا گیا۔ ایک طرف تو اس خاکی پتلے کے اندر چھپی نورانی روح کے تقدس کی طرف نشان دہی کی جاتی ہے تو دوسرا یہ بتایا جاتا ہے کہ جہاں اس کے اندر شر کی پیروی کرنے اور فساد کی قوت ہے وہیں اس انسان میں لامتناہی محبت ،رحم و ایثار کا جذبہ بھی موجود ہے۔ فرشتے اور ان سے جڑی ہدایت اور پاک اعمال کرنے کی قوتیں اور اسی طرح ابلیس سے جڑی شیطانی اعمال کرنے کی قوتیں، دونوں انسان کے تابع کر دی گئی ہیں اور اسے یہ بتا دیا گیا ہے کہ یہ دو راستے ہیں اور تم بیچ میں کھڑے ہو اب ان دونوں میں سے جو راستہ چاہو اپنا لو، اما شاکر واما کفورا تمہارے اعمال تمہارا فیصلہ کریں گے۔ ابلیس کے رستے پر چلے تو ملعون ہو جاؤ گے اور میرے رستے پر چلے تو پھر اس سجدے کا حق ادا کر کے اشرف المخلوقات بن پا ؤگے۔
اور پھر اس بنی نوع انسان کو نام دینے کی طاقت دی گئی یعنی علم عطا ہوا وہ بھی ایک ایسا علم جو انسان کو باقی تمام مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے جس کے ذریعے انسان اپنی تحقیق ' تعلیم اور تجربہ نسل در نسل آگے بڑھاتا ہے ۔ میرا آج کی تاریخ میں ہزاروں سال پرانے اس قصے کو بیان کرنا اس علم اور اس کی طاقت کا واضح ثبوت ہے اور نہ صرف اسے نام دینے اور گویائی کی قوت ملی بلکہ ساتھ ساتھ اسے عقل سلیم اور ذہانت بھی عطا ہوئی جو حضرت حوا کے نام دینے والے واقعے سے واضح ہے۔ وہ اپنے بُرے اور بھلے کا نہ صرف فیصلہ کر سکتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ اس بات کا علم نسل در نسل بھی منتقل کر سکتا ہے۔
اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ اللہ رب العزت کو معلوم تھا کہ ہمارے جد امجد اس درخت کا پھل ضرور کھائیں گے۔ چوںکہ بارگاہ رب سے یہ اعلان تو پہلے ہی ہو چکا تھا کہ میں "زمین"میں اپنا نائب بنانے جا رہا ہوں ،یہ تھوڑی کہا گیا تھا کہ میں "جنت" میں اپنا نائب بنا رہا ہوں۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر درخت سے کیوں روکا؟ اور صرف ایک پھل کھانے پر جنت سے کیوں نکالا؟ یہ دراصل انسان کی تخلیق اور تکمیل کا آخری مرحلہ تھا، یہ وہ پہلا از خود فیصلہ تھا جو انسان نے کیا ۔ یہ اس بات کی نشان دہی تھی کہ اب یہ خاکی مخلوق تیار ہے کہ اپنی امتحان گاہ میں بھیج دی جائے اور ایک مقررہ وقت تک اپنے علم الاسما کو استعمال کرتے ہوئے اپنا ذہنی علمی اور عمرانی ارتقاء کرے اور ساتھ ساتھ علم وحی کی متلاشی رہے اور جب بھی رسول اور پیغمبر بارگاہ ربانی سے ہدایات لے کر آئیں یہ انسان ان کی تصدیق کر کے اپنے لیے نجات کی راہ ہموار کرے۔
یوں انسان کو علم کا ہتھیار دے کر بھیجا اور ساتھ ساتھ اس کی نجات سے جڑی تین باتیں اس کے اندر سختی سے بٹھا دی گئیں۔ اول یہ کہ جنت میں وقت گزارنے کا موقع دے کر اس کے دل میں لاشعوری طور پر اس کی محبت بھر دی گئی اور یہ بتا دیا گیا کہ یہی تمہارا اصل مقام ہے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم اور پھر یہ جو نکالے جانے کے باعث تم اسفل سافلین ہو گئے ہو تو اپنے اعمال اور اٹھان سے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ دوبارہ بحال کرو اور اپنا اصل مقام دوبارہ تلاش کرو ،یہی تمہارا امتحان ہے۔ پھر شیطان کی وجہ سے اس مقام کا چھننا اس کے اندر اس بات کو بٹھا گیا کہ شیطان میرا کھلا دشمن ہے جس کی چال سے مجھے ہر دم ہوشیار رہنا پڑے گا اور آخر میں یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ یہ سفر یقینا بہت لمبا اور مشکل ہو گا، تکلیف بھی ملے گی مشکلات بھی آئیں گی بشری کمزوری کے باعث گناہ بھی سرزد ہوں گے ایسے میں کیا کرنا ہے؟ ایسے میں سارا غرور و تکبر ایک طرف رکھ کر صدق دل سے اللہ سے معافی مانگنی ہے اور رجوع کرنا ہے ۔ اللہ ہم سب کو ان نصیحتوں پر عمل کرنے توفیق دے ۔ آمین
راہ ہدایت کا ایک رستہ قصص القرآن سے بھی ہو کر گزرتا ہے، جس میں مختلف انبیا کرام اور پیغمبروں کے حالاتِ زندگی بیان کر کے ہمارے لیے روشن مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان ہمارا ایمان اس بات پر ہونا چاہئے کہ قرآن کے اندر کوئی فضول لایعنی لاحاصل بات موجود نہیں۔ انہ لقول فصل وما ھو بالھزل۔ چناں چہ قصص القرآن میں موجود قصے بھی ہماری ہدایت کا موجب ہیں ۔
یہ قصص القرآن صرف وقت گزاری یا معلومات عامہ کے حصول کے لئے نہ پڑھے جائیں اور نہ ہی بچوں میں مذہب سے دل چسپی کی خاطر بلکہ ان میں ہدایت کے لیے بے پناہ راستے بھی پنہاں ہیں۔
تو آئیے اللہ کے بابرکت نام سے آج ہم ان قصص کو تدبر کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔یاد رہے کہ مسلمان ہونے کے ناطے یہ قصص ہمارے لیے نئے نہیں لیکن ہمارا مقصد صرف ان میں پوشیدہ حکمت ،دانائی اور ہدایت کے پہلو تلاش کرنے کی ایک ادنیٰ سی سعی ہے۔ قصص القرآن میں بیان کردہ پہلا قصہ نوع انسان کی پہلی کڑی ہے یعنی ہمارے جدِ امجد حضرت آدم علیہ السلام کے حالات زندگی۔
اللہ تعالی نے اس دنیا میں سب سے پہلے جنات کو آباد کیا مگر ان کی سرکشی اور فساد کے باعث فرشتوں کی افواج بھیج کر انہیں سمندر برد کر دیا اور اس طرح زمین کے اصل حق دار یعنی حضرت انسان کے آباد ہونے کی راہ ہموار ہوئی ۔ قرآن کریم میں اللہ عز وجل اس قصے کی ابتدا اپنے اور فرشتوں کے مابین ہونے والے ایک مکالمے سے کرتے ہیں، جب وہ اعلان کرتے ہیں: "میں زمین میں اپنا خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں"۔ فرشتے جواب میں فرماتے ہیں: "کیا تو زمین میں ایسا نائب بنانا چاہتا ہے جو فساد پھیلائے اور خون بہائے حالاںکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔" جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا: " میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔" پھر کھنکھناتی مٹی سے ایک پتلا بنایا جاتا ہے اور فرشتوں کو اس بات کا بھی حکم دیا جاتا ہے: "جب میں اسے مکمل کر لوں اور سنوار لوں اور اس میں روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا۔ "
اس مٹی کے بارے میں بھی ایک نہایت حسین روایت ملتی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروّی ہے کہ جب اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بنانے کا فیصلہ کیا تو فرشتوں کو حکم ہوا کہ زمین سے مٹی لاؤ۔ پہلے حضرت جبریل علیہ السلام پھر حضرت میکائیل علیہ السلام گئے مگر زمین ان سے کہتی ہے میں اللہ کی پناہ میں آتی ہوں کہ تو مجھ میں سے کچھ کم کرے یا مجھے نقصان پہنچائے۔ دونوں آکر اللہ پاک کو بتاتے ہیں۔ آخر میں حضرت عزرائیل جاتے ہیں اور زمین کی اسی بات کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ اس کا دیئے ہوئے حکم کی بجا آوری نہ کروں۔ پھر مختلف رنگوں کی مٹی لا کر حاضر کرتے ہیں۔ اس مختلف رنگ کی مٹی سے ہماری تخلیق در اصل ذات پات اور رنگ و قوم کے بنائے ہوئے اصولوں کی سخت نفی کرتی ہے اور اس بات کی کھلی گواہی دیتی ہے کہ ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقاکم (اللہ کے نزدیک تم میں سے بہترین تقوی والے ہیں)نہ کہ عجمی یا عربی۔
چند روایات میں آیا ہے کہ وہ پتلا کافی عرصے تک بے جان پڑا رہا ۔ ابلیس جب وہاں سے گزرتا تھا تو اس سے مخاطب ہو کر کہتا کہ تم ایک عظیم کام کے لئے پیدا کیے گئے ہو۔ پھر جب مصور کائنات انسان کا ہیولہ مکمل کر لیتے ہیں اور خاک کے پتلے میں روح ڈال دی جاتی ہے تو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق مکمل ہوتی ہے۔ چند روایات میں آتا ہے کہ جب آپ کے اندر روح پھونکی گئی تو آپ کو ہوش آتے ہی اک چھینک آئی۔ فرشتوں نے آپ سے کہا کہ کہو الحمدللہ اور آپ کے الحمدللہ کے جواب میں اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ تم پر اللہ کا رحم ہوا۔ پھر آپ کو حکم ہوا کہ جا کر فرشتوں سے ملو۔ فرشتوں نے آپ کو دیکھ کر السلام و علیکم کہا تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ اے آدم یہ آج سے تمہارے تسلیمات ہیں۔ یوں دو اہم سبق بنی نوع انسان کو آفرینش پر ہی سکھا دیے جاتے ہیں ایک یہ کہ جیسے ابتدا میں ہی ایک ناخوش گوار کیفیت کا سامنا کرنا پڑا چھینک کی صورت میں اسی طرح تمہاری زندگی میں ہر قسم کے مصائب آئیں گے جس کے جواب میں صبر کے ساتھ اللہ کی ثنا اور شکرگزاری کی روش اختیار کرنی ہے۔ اسی طرح یہ بھی سکھایا گیا کہ باقی نوع کے ساتھ کیسا تعلق رکھنا ہے، یہ شروع میں ہی بتا دیا گیا کہ اے بنی آدم تم امن و سلامتی پھیلانے کے لئے بھیجے گئے ہو اس لیے تمہارے ابتدائی کلمات ہمیشہ سلام پر مبنی ہونے چاہئیں۔
اس کے بعد اللہ تعالی حضرت آدم کو اشیا کے نام سکھاتے ہیں اور فرشتوں کے سامنے انہیں حاضر کر کے فرشتوں سے ان اشیا کا نام پوچھتے ہیں تو فرشتے کہتے ہیں کہ اے رب تو پاک ہے اس بارے میں ہمارا علم کچھ نہیں۔ ہمیں تو بس اتنا ہی معلوم ہے جتنا علم تو نے ہمیں عطا کیا ہے ۔ پھر حضرت آدم سے پوچھا جاتا ہے تو وہ جھٹ نام بتا دیتے ہیں اب باری تعالیٰ فرشتوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ پھر سب کو حکم ہوتا ہے کہ آدم کے سامنے سجدے میں گر پڑو اور تمام فرشتے سجدے میں گر پڑتے ہیں سوائے ابلیس کے۔ ابلیس کے بارے میں ہم واقف ہیں کہ یہ دراصل جنات میں سے تھا، جو اپنے زہد و عبادت کی بنیاد پر اعزازی طور پر فرشتوں والے کام پر فائز ہو گیا تھا ۔
اس باغی حرکت پر اللہ تعالیٰ جلال میں ابلیس سے دریافت کرتے ہیں کہ تمہیں یہ سجدہ نہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟ تو وہ ملعون کہنے لگا کہ میں اس انسان سے بہتر ہوں اے رب تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اس انسان کو مٹی سے۔لمحہ بھر کا تکبر وہ بھی خالق کائنات کے سامنے اس کے تمام کیے کرائے پر پانی پھیر گیا اور وہ رذیل اپنے منصب سے فارغ اور دربار سے نکال دیا گیا۔ باری تعالیٰ کا حکم ہوا: "توُ اتر یہاں سے تو اس لائق نہیں کہ تکبر کرے یہاں پس باہر نکل تو ذلیل ہے" تو وہ ملعون روز قیامت تک کی مہلت یعنی زندگی مانگتا ہے، جو اسے دے دی جاتی ہے پھر اپنی مہلت مانگنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "چوں کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں بھی لوگوں کے لئے تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔ پھر ان پر آؤں گا ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے، اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔"
یوں شیطان دربار سے نکالا جاتا ہے اور ادھر حق تعالی حضرت آدم کی نسل سے تمام آنے والی بنی نوع انسان کی ارواح کو جمع کر کے عہد لیتے ہیں کہ "کیا میں تمہارا رب نہیں" ہم سب نے اس سوال کا جواب یک زبان ہو کر دیا تھا: "کیوں نہیں اے رب ہم اس بات پر گواہ ہیں۔"اس وقت حضرت آدم تمام انسانوں کو دیکھتے ہیں، انہیں آنے والے انبیا کی ارواح الگ سے چمکتی ہوئی دکھائی دییتی ہیں مگر آپ کو اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ تمام انسان ایک جیسے نہیں اپنے رنگ روپ اور نسب میں سب الگ ہیں۔ وہ باری تعالیٰ سے دریافت کرتے ہیں کہ اے اللہ! تو نے ان سب کو یکساں کیوں نہیں بنایا؟ جواب آتا ہے کہ "کیوں کہ مجھے اپنے بندوں کی طرف سے شکر گزاری بہت عزیز ہے"۔
جنت میں کچھ عرصہ قیام کے بعد حضرت آدم کو ایک خلش محسوس ہونے لگتی ہے۔ فرشتے تو ہر دم رب کی ثنا میں مشغول ہوتے ہیں اب آپ کیا کریں۔ ایک علم الاسما آپ کو عطا ہو چکا مگر اس علم کے بابت تو فرشتے کچھ نہیں جانتے ۔ کس سے گفت گو کریں کہاں قرار پائیں۔ ایک دن جب سو کر اٹھتے ہیں تو اپنے سامنے ایک اپنی ہم نوع عورت کو پاتے ہیں جو ان کی پسلی سے پیدا شدہ تھی۔ پوچھتے ہیں تم کون ہو ، تو وہ کہنے لگیں: "عورت"۔ پھر پوچھا کہ تمہاری تخلیق کا کیا مقصد ہے؟ تو کہنے لگیں: "تاکہ تم میرے اندر قرار پاؤ" اب فرشتے حضرت آدم سے پوچھتے ہیں کہ اے آدم اس عورت کا نام کیا ہے تو آپ کہتے ہیں حوا (لغوی معنی جاںدار) پوچھا: "کیوں" تو کہنے لگے کیوںکہ یہ ایک جاںدار شے سے تخلیق ہوئی۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ مرد و عورت کے جوڑے کی تخلیق کا مقصد آپس میں امن و آشتی کے ساتھ ایک دوسرے کے اندر سکون اور قرار پانا ہے، یہ نہیں کہ ہر دم طاقت کے حصول کی کشمکش میں آپس میں لڑتے رہیں۔
پھر آپ دونوں کو حکم ہوتا ہے کہ جنت میں چین و امن کے ساتھ رہو مگر ہاں! یہ خیال رہے کہ "اس درخت"کے پاس کبھی مت جانا ،وہ کون سا درخت تھا؟ کوئی اسے خوشۂ گندم بتاتا ہے تو کوئی اسے سیب کا درخت کہتا ہے۔ تشبیہات بھی الگ الگ ہیں کسی کی رائے میں وہ درد و تکلیف کا درخت تھا تو کوئی اسے جاودانی حیات کا پھل بتاتا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم صرف گمان ہی کر سکتے ہیں ۔ قرآن میں واضح الفاظ میں درج ہے کہ وہ درخت بالکل اہم نہ تھا بلکہ رب کا حکم اہم تھا۔ قرآن کریم میں اس درخت کے بارے میں الفاظ اس قدر مبہم ہیں کہ لگتا ہے جیسے اللہ تعالی نے کسی بھی درخت کی طرف اشارہ کر کے حضرت آدم کو کہا کہ بس اس درخت کا پھل نہیں کھانا باقی جو چاہے کھاؤ پیو۔ مگر انسان کا فطری تجسس اور شیطان کا بار بار بہکاوا انہیں اس درخت کی طرف مائل کرتا ہے ۔
ابلیس بڑے ناصحانہ انداز میں ان دونوں کو سمجھاتا ہے کہ میں تمہارا دوست ہوں اور تم کو اس درخت سے اس لئے روکا جا رہا ہے کہ کہیں تم ہمیشہ یہاں رہنے والے نہ بن جا ؤ۔ آخر کار بشری تقاضوں کے آگے مجبور ہمارے یہ دونوں جد امجد اس درخت کا پھل کھا لیتے ہیں ۔حکم ہوتا ہے کہ اتر جا ؤتم سب کے سب یہاں سے ،جا ؤدنیا میں رہو وہاں تمہارا ٹھکانہ اور طعام و قیام ہو گا اور تم وہیں رہو گے ایک دوسرے کے دشمن بن کر (انسان اور شیطان)۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپ سے یہ خطا ہوئی تو اللہ فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ آدم سے اس کی خلعت اور آرائش واپس لے لو چناںچہ آپ کے سر سے تاج اور دیگر آرائشیں اتارلی جاتی ہیں تو آپ رو رو کر چلاتے جاتے ہیں "معافی" ،"معافی"۔ ندا آتی ہے کہ اے آدم! کیا مجھ سے بھاگ رہے ہو ؟ تو آپ فرماتے ہیں: " نہیں اے رب! مگر آپ سے شرم آ رہی ہے۔ "
دنیا میں آکر ایک عرصہ سخت ندامت کی حالت میں روتے ہوئے گزارتے ہیں پھر رحمان کی رحمانیت جوش میں آتی ہے اور آپ کو پہلے علم کی طرح ایک اور علم دیا جاتا ہے۔ پہلا علم دنیاوی علوم کے سرچشمے یعنی عقل و خرد کا ملا اور دوسرا پہلی وحی کی صورت میں آخروی نجات کا۔ اس اولین وحی سے آپ کو توبہ کا سلیقہ اور اس کے الفاظ سکھائے جاتے ہیں اور معاف کر دیا جاتا ہے اور پھر ایک شفیق استاد کی مانند بڑی محبت سے حضرت آدم کو سمجھایا جاتا ہے کہ تمہارا گھر فی الحال یہی ہے،یہیں تمہارا عارضی قیام ہے، مجھے یاد رکھنا اور جب جب میری جانب سے میرے رسول تمہارے پاس ہدایت لے کر آئیں تو ان کی اتباع کرنا ۔ تم ایسا کرو گے تو نہ تمہیں کوئی غم ہو گا نہ کوئی ملال تم واپس اپنے اصلی گھر اور مقام یعنی جنت کو حاصل کر لو گے۔
اب ہم حضرت آدم کے رویے کا تقابل ابلیس سے کریں تو عبد الرحمان اور شیطان کا فرق صاف واضح ہو جائے گا۔ ایک غلطی حضرت آدم و حوا سے ہوئی اور ایک ابلیس سے تو دونوں کے درمیان فرق کیا تھا؟ فرق یہ تھا کہ حضرت آدم نے فوری رجوع کیا ،رو رو کہ معافی مانگی اور اپنی حرکت پر سخت ندامت کا اظہار کیا جب کہ ابلیس ڈھٹائی کے ساتھ اپنی حرکت پرنہ صرف ڈٹا بلکہ اپنے تکبر کی توجیح بھی پیش کرنے لگا، اور جب اسے یقین ہو گیا کہ میں تا قیامت ملعون ہو گیا ہوں تو پھر بجائے معافی مانگنے کے الٹا اللہ کو اپنی گمراہی کا موجب ٹھہرانے لگا: "چوں کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں بھی لوگوں کے لئے تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔" تو یوں ہمیں معلوم ہوا کہ رحمان کے بندے گناہوں کے بعد ایک داغ ندامت اپنے سینے سجاتے ہیں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے دوبارہ اللہ کا قرب چاہتے ہیں اس کے برخلاف ابلیس کی سنت، انا پرستی، گھمنڈ اور میں نا مانوں کی تکرار ہے۔
اس قصے پر اگر غور کریں تو بہت سی الجھنیں سلجھتی چلی جاتی ہیں،یہ حضرت انسان جو اس بات پر قادر ہے کہ اللہ کی زمین پر کشت و خون کا بازار گرم کر دے ،بھوک اور بیماری کے سودے کرے ، حیوانیت پر آئے تو اس حد تک کہ اپنی بیٹی کو بازار میں بیچ آئے، اس انسان سے دنیا میں خلافت کا کام کس طرح لیا جائے گا؟ اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو فرشتوں کی جھجھک بلا وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ مگر اللہ کی حکمت دو چیزوں سے عیاں ہوتی ہے۔ پہلی حکمت اس سجدے میں پوشیدہ ہے جو فرشتوں سے کروایا گیا۔ ایک طرف تو اس خاکی پتلے کے اندر چھپی نورانی روح کے تقدس کی طرف نشان دہی کی جاتی ہے تو دوسرا یہ بتایا جاتا ہے کہ جہاں اس کے اندر شر کی پیروی کرنے اور فساد کی قوت ہے وہیں اس انسان میں لامتناہی محبت ،رحم و ایثار کا جذبہ بھی موجود ہے۔ فرشتے اور ان سے جڑی ہدایت اور پاک اعمال کرنے کی قوتیں اور اسی طرح ابلیس سے جڑی شیطانی اعمال کرنے کی قوتیں، دونوں انسان کے تابع کر دی گئی ہیں اور اسے یہ بتا دیا گیا ہے کہ یہ دو راستے ہیں اور تم بیچ میں کھڑے ہو اب ان دونوں میں سے جو راستہ چاہو اپنا لو، اما شاکر واما کفورا تمہارے اعمال تمہارا فیصلہ کریں گے۔ ابلیس کے رستے پر چلے تو ملعون ہو جاؤ گے اور میرے رستے پر چلے تو پھر اس سجدے کا حق ادا کر کے اشرف المخلوقات بن پا ؤگے۔
اور پھر اس بنی نوع انسان کو نام دینے کی طاقت دی گئی یعنی علم عطا ہوا وہ بھی ایک ایسا علم جو انسان کو باقی تمام مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے جس کے ذریعے انسان اپنی تحقیق ' تعلیم اور تجربہ نسل در نسل آگے بڑھاتا ہے ۔ میرا آج کی تاریخ میں ہزاروں سال پرانے اس قصے کو بیان کرنا اس علم اور اس کی طاقت کا واضح ثبوت ہے اور نہ صرف اسے نام دینے اور گویائی کی قوت ملی بلکہ ساتھ ساتھ اسے عقل سلیم اور ذہانت بھی عطا ہوئی جو حضرت حوا کے نام دینے والے واقعے سے واضح ہے۔ وہ اپنے بُرے اور بھلے کا نہ صرف فیصلہ کر سکتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ اس بات کا علم نسل در نسل بھی منتقل کر سکتا ہے۔
اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ اللہ رب العزت کو معلوم تھا کہ ہمارے جد امجد اس درخت کا پھل ضرور کھائیں گے۔ چوںکہ بارگاہ رب سے یہ اعلان تو پہلے ہی ہو چکا تھا کہ میں "زمین"میں اپنا نائب بنانے جا رہا ہوں ،یہ تھوڑی کہا گیا تھا کہ میں "جنت" میں اپنا نائب بنا رہا ہوں۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر درخت سے کیوں روکا؟ اور صرف ایک پھل کھانے پر جنت سے کیوں نکالا؟ یہ دراصل انسان کی تخلیق اور تکمیل کا آخری مرحلہ تھا، یہ وہ پہلا از خود فیصلہ تھا جو انسان نے کیا ۔ یہ اس بات کی نشان دہی تھی کہ اب یہ خاکی مخلوق تیار ہے کہ اپنی امتحان گاہ میں بھیج دی جائے اور ایک مقررہ وقت تک اپنے علم الاسما کو استعمال کرتے ہوئے اپنا ذہنی علمی اور عمرانی ارتقاء کرے اور ساتھ ساتھ علم وحی کی متلاشی رہے اور جب بھی رسول اور پیغمبر بارگاہ ربانی سے ہدایات لے کر آئیں یہ انسان ان کی تصدیق کر کے اپنے لیے نجات کی راہ ہموار کرے۔
یوں انسان کو علم کا ہتھیار دے کر بھیجا اور ساتھ ساتھ اس کی نجات سے جڑی تین باتیں اس کے اندر سختی سے بٹھا دی گئیں۔ اول یہ کہ جنت میں وقت گزارنے کا موقع دے کر اس کے دل میں لاشعوری طور پر اس کی محبت بھر دی گئی اور یہ بتا دیا گیا کہ یہی تمہارا اصل مقام ہے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم اور پھر یہ جو نکالے جانے کے باعث تم اسفل سافلین ہو گئے ہو تو اپنے اعمال اور اٹھان سے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ دوبارہ بحال کرو اور اپنا اصل مقام دوبارہ تلاش کرو ،یہی تمہارا امتحان ہے۔ پھر شیطان کی وجہ سے اس مقام کا چھننا اس کے اندر اس بات کو بٹھا گیا کہ شیطان میرا کھلا دشمن ہے جس کی چال سے مجھے ہر دم ہوشیار رہنا پڑے گا اور آخر میں یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ یہ سفر یقینا بہت لمبا اور مشکل ہو گا، تکلیف بھی ملے گی مشکلات بھی آئیں گی بشری کمزوری کے باعث گناہ بھی سرزد ہوں گے ایسے میں کیا کرنا ہے؟ ایسے میں سارا غرور و تکبر ایک طرف رکھ کر صدق دل سے اللہ سے معافی مانگنی ہے اور رجوع کرنا ہے ۔ اللہ ہم سب کو ان نصیحتوں پر عمل کرنے توفیق دے ۔ آمین
Now, You can also Comment by your Facebook account Below.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں