دجال اور سورۂ کہف
تحریر: ابو یحییٰ
ہمارے ہاں بعض روایات میں آنے والے فضائل کی بنا پر ہر جمعہ کے روز سورۂ کہف پڑھنا بہت سے لوگوں کا معمول ہے۔ متعدد روایات میں اس سورت کی یہ فضیلت بیان ہوئی ہے کہ جمعے کے دن اس سورت کی تلاوت اگلے جمعے تک ایک نور کا سبب بن جاتی ہے۔ امام البانی نے صحیح الترغیب و الترھیب (736) میں ان روایات کو صحیح قرار دیا ہے۔ جبکہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ روایت کیا ہے کہ اس سورت کی ابتدائی (بعض روایتوں کے مطابق آخری) دس آیات حفظ کرنے والا فتنۂ دجال سے بچالیا جاتا ہے۔
فتنۂ دجال کیا ہے یہ اپنی جگہ خود ایک تفصیلی بحث ہے۔ اس بارے میں اہل علم کی تین آرا ہیں۔ ایک وہ جو سب سے زیادہ مقبول ہے کہ قیامت سے قبل ایک غیر معمولی قوتوں کے حامل شخص کا ظہور ہوگا جو ایک آنکھ سے کانا ہوگا۔ دوسری رائے جو بہت کم قبول کی گئی ہے کہ دجال کے بارے میں قرآن مجید کچھ نہیں کہتا اور جو کچھ آیا ہے وہ ناقابل یقین روایات پر مبنی ہے، اس لیے غلط ہے۔ جبکہ تیسری رائے یہ ہے کہ دجال کے حوالے سے جو کچھ تفصیلات احادیث میں آئی ہیں، ان کی بنا پر یہ خبر ہے تو صحیح مگر اس میں تمثیل کے اصول پر ایک فرد کے بجائے ایک فتنہ کی خبر ہے جو دجل و فریب پر مبنی ایک تہذیب، نظام اور فکر و فلسفہ کی شکل میں ظہور کرے گا۔ اور کل انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس سے ہر نماز کے بعد رسول اللہ نے اللہ کی پناہ مانگی ہے اور متعدد طریقوں سے نہ صرف اس فتنے پر متنبہ کیا ہے بلکہ اس سے بچنے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک دجال دھوکہ اور دجل و فریب پر مبنی وہ مادی تہذیب ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی نفی کرکے زندگی کے حقائق کو سمجھا جاتا ہے۔ اس تہذیب کی صرف ایک آنکھ ہے جو مادیت کو دیکھتی ہے، مگر روحانی اور غیبی حقائق کی منکر ہے۔ یہ اسباب تک محدود ہے اور مسبب الاسباب کی منکر ہے۔ یہ عقلیت کی اسیر ہے اور رسالت کی منکر ہے۔ اس نے موجودہ مادی دنیا کے اسرار و رموز سے تو خوب پردے اٹھائے مگر آنے والی آخرت کی دنیا کو دیکھنے سے قطعاً عاجز ہے۔ مادیت اور اسباب میں اس نے غیر معمولی ترقی کی اور انسانی قوت کو اتنا بڑھادیا کہ انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس نے دنیا کو اتنا حسین بنادیا ہے کہ لوگ خدا کی کسی جنت کے طلبگار نہیں رہے۔ یہ دنیا ہی ان کی جنت اور یہی ان کی جہنم ہے۔ شاعر کے الفاظ مستعار لیں تو آج کی دنیا کے متعلق کہا جاسکتا ہے:
تیرا ملنا ترا نہیں ملنا
اور جنت کیااور جہنم کیا
اس کے ساتھ تباہ کن ہتھیاروں، سود پر مبنی عالمی مالیاتی نظام، فحاشی پر مبنی گلوبل میڈیا وغیرہ کے ساتھ اس نے پچھلے چار ہزار برس سے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اور نبیوں کی قائم کردہ تہذیب کی بنیادیں ہلاکر رکھدی ہیں۔ انسانی جان کی حرمت سے لے کر عفت و عصمت جیسے بنیادی تصورات اس کی نذر ہوچکے ہیں۔ ایمان اور آخرت کے بجائے ہوس زر اور دنیا پرستی آج سب سے بڑی قدر بن چکے ہیں۔ لوگ جنت کو بھول کر دنیا کی جنت کے خواہشمند اور جہنم کو بھول کر دنیا کی محرومی سے لرزاں رہتے ہیں۔ اور اس مقصد کے لیے ہر حد کو عبور کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہی اس دجالیت کی سب سے بڑی دین ہے۔
یہ وہ تیسری رائے ہے جسے اب سب سے زیادہ قبول حاصل ہورہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ دوسری رائے کے حامل ہیں کہ دجال ایک فرد کا نام ہے، ان کی اکثریت بھی اس بات کی قائل ہوچکی ہے کہ دجال کی قوت اصل میں یہی مادی تہذیب اور نظام ہے نہ کہ اسے کوئی مافوق الفطری قوتیں حاصل ہوں گی۔ اس پس منظر میں جب سورۂ کہف کے بیان کردہ فضائل اور اس سورت کے مضامین کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت ہر اعتبار سے فتنۂ دجال سے تحفظ اور اس کی پھیلائی ہوئی گمراہی سے بچنے کا ایک نور ہے۔
سورۂ کہف کی ابتدائی اور آخری آیات
سورۂ کہف کے مضامین کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے عمومی طریقے کے مطابق اس سورت کی ایک تمہید ہے اور آخر میں خاتمۂ سورت کی آیات ہیں۔ اس تمہید اور خاتمے میں دین کی بنیادی دعوت یعنی توحید، آخرت کی سزا و جزا اور رسالت کا اثبات کیا گیا ہے۔ ساتھ میں دونوں جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کی زندگی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتنی بے وقعت ہے۔ تمہید میں ارشاد ہوا:
’’جو کچھ اس زمین میں ہے اسے ہم نے دھرتی کی رونق بنایا ہے تاکہ تمھیں آزمائیں کہ تم میں سے کون (اس رونق کو مقصد زیست بنانے کے بجائے) اچھے کام کرتا ہے۔ اور (رہی یہ رونق تو عنقریب) جو کچھ اس پر ہے ہم اسے ایک صاف میدان بنادیں گے۔‘‘، (آیت 7-8)
خاتمے میں ارشاد ہوا:
’’اے نبی ان سے کہو کہ کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں کون لوگ رہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری کاوش دنیا کی زندگی میں کھوکر رہ گئی اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ وہ کوئی بہت اچھا کام کررہے ہیں۔‘‘
یہ آیات پڑھیے اور بار بار پڑھیے۔ کس لب و لہجے میں دنیا پرستی پر شدید تنقید ہورہی ہے اور اس کی بے وقعتی واضح کی جارہی ہے۔ ابتدا اور آخر کی یہی وہ آیات ہیں جن کے یاد کرنے پر صحیح مسلم کی روایت میں فتنۂ دجال سے بچائے جانے کی بشارت دی گئی ہے۔ یہ روایت اگر ٹھیک ہے تو بلاشبہ ان آیات کو حفظ جاں بنانے والا فتنۂ دجال سے محفوظ رہے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ دجال کا وہ دوسرا مفہوم ٹھیک مانا جائے جس کے تحت فتنۂ دجالیت مادی تہذیب کا وہ غلبہ ہے جو ہر خاص و عام کو جنت و جہنم سے بے نیاز کرکے دنیا کے پانے اور کھونے میں مگن کردے گا۔
سورۂ کہف کے مضامین کا ایک جائزہ
تمہید و خاتمہ کے علاوہ اس سورت میں مجموعی طور پر چار واقعات بیان ہوئے ہیں اور ساتھ ہی قرآن مجید کے طریقے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے تبصرے بھی کیے گئے ہیں۔
پہلا واقعہ اصحابِ کہف کا ہے۔
دوسرا واقعہ دو آدمیوں کی ایک تمثیل ہے۔
تیسرا واقعۂ موسیٰ و خضر ہے اور
چوتھا ذوالقرنین بادشاہ کا قصہ ہے۔
ظاہر ہے میں اس مختصر مضمون میں آیات و واقعات کی تفصیل نہیں کرسکتا۔ میں صرف یہ بتاؤں گا کہ کس طرح ان چاروں واقعات میں اللہ تعالیٰ نے بڑے نمایاں طریقے پر یہ واضح کیا ہے کہ گرچہ یہ دنیا عالم اسباب ہے جس میں اللہ تعالیٰ پردۂ غیب میں رہتے ہیں، لیکن یہ کارخانۂ اسباب اسی کی مرضی و منشا کے مطابق چلتا ہے۔ جس میں خدا کو بھول کر جینے کا انجام بدترین تباہی ہے اور اسے یاد رکھنے کا نتیجہ ابدی کامیابی ہے۔ جو لوگ دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں وہ شدید غلطی پر ہیں اور اس سورت میں اسی غلطی سے لوگوں کو نکلنے کا درس دیا گیا ہے۔ اب آیئے ایک ایک کرکے ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اصحابِ کہف کا واقعہ
سب سے پہلے اس سورت میں کچھ نوجوانوں کا واقعہ بیان ہوا ہے جو روم کی بت پرست حکومت کے شہری تھے۔ مگر حضرت عیسیٰ کے مخلص پیروکاروں کی دعوت توحید پر ایمان لاکر شرک سے تائب ہوگئے تھے۔ انھیں یہ اندیشہ تھا کہ بت پرست حکومت کو جب یہ پتہ چلے گا تو وہ انھیں سنگسار کردیں گے یا بالجبر دوبارہ بت پرست بنادیں گے۔ رومی سلطنت اتنی بڑی اور اتنی طاقتور تھی کہ اس سے بچ کر بھاگنا بظاہر ناممکن تھا۔ مگر وہ اللہ پر بھروسہ کرکے ایک غار میں جاچھپے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ کرم کیا کہ انھیں ایک مدت کے لیے سلادیا۔ ایک صدی سے زیادہ کے اس عرصے میں دنیا بدل کر کچھ سے کچھ ہوگئی۔ قسطنطین نامی مشہور رومی حکمران نے عیسائیت قبول کرلی اور یوں ہر طرف مسیحیت کا غلبہ ہوگیا۔ مگر اس زمانے میں حضرت عیسیٰ کی اصل تعلیمات میں طرح طرح کی تحریفات اور بدعات کا آغاز ہوچکا تھا۔ چنانچہ ایک بحث یہ چھڑگئی تھی کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی کس طرح ممکن ہے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے یہ خصوصی اہتمام کیا کہ سوئے ہوئے ان اصحاب کہف کو جگادیا۔ وہ یہ سمجھے کہ وہ ایک دن سوئے ہیں چنانچہ وہ ڈرتے ڈرتے کھانے کی تلاش میں شہر گئے۔ مگر جب کھانا لینے والے نے دکاندار کو پیسے دینا چاہے تو دکاندار نے اسے پکڑلیا۔ کیونکہ جو سکہ اس نے دیا تھا وہ بہت پرانا تھا۔ تحقیق ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ تو پرانے زمانے کے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے عرصے تک سوتے رہے اور ان کو کچھ بھی نہیں ہوا۔ ان کا دوبارہ اٹھنا گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حیات بعد از ممات کی بحث میں ایک فیصلہ کن رہنمائی تھی۔ یہ واقعہ دو بڑے اہم اسباق اپنے اندر رکھتا ہے۔ ایک یہ کہ اگر خارج میں بدترین ماحول ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کرتے ہیں اور اس میں وہ اسباب کے پابند نہیں ہوتے۔ وہ ماورائے اسباب بھی اپنے بندوں کی مدد کرسکتے ہیں کیونکہ انھوں نے یہ دنیا اسباب کے اصول پر بنائی تو ضرور ہے مگر وہ اس کے پابند نہیں۔ اس سے زیادہ بڑا اور اہم سبق یہ ہے کہ یہ دنیا کی زندگی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل زندگی نہیں بلکہ وہ زندگی موت کے بعد شروع ہوگی جب سارے مردے دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ اصحاب کہف کا واقعہ اس بات پر یقین کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ چنانچہ تہذیب جدید کے اسباب اور دنیا کی رنگینیوں میں کھوکر خدا اور آخرت کوبھول جانے کا رویہ قطعاً درست نہیں۔ بلکہ ہر مشکل کو جھیل کر خدا پر بھروسہ کرکے اس کی پسند کی زندگی گزارنا ہی اصل مقصود ہے۔ تیسرا یہ کہ اسباب کی وجہ سے خدا کو مائنس نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہ تو اسباب سے بلند تر ہے اور بار بار مداخلت کرکے یہ بتاتا رہتا ہے کہ یہاں اسباب سے بلند تر ایک ہستی موجود ہے۔
باغ والے کا واقعہ
یہ واقعہ، جیسا کہ پیچھے بیان ہوا ایک تمثیل ہے۔ یہ تمثیل دراصل ان دو گروہوں کی ہے جن کا ذکر اصحاب کہف کے واقعے کے فوراً بعد آیت نمبر 27 تا 31 میں ہوا ہے۔ پہلا گروہ ان غریب، کمزور اور زیادہ تر اصحاب کہف کی طرح نوجوان صحابۂ کرام کا تھا جن کا کل سرمایہ یاد الٰہی تھی۔ دوسری طرف دنیا کی زیب و زینت پر مرمٹنے والے وہ کفار مکہ تھے جو اللہ کو بھول کر، خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے بے اعتدالی کی زندگی گزاررہے تھے۔
آیت 32 سے یہ تمثیل شروع ہوتی ہے۔ اس میں دو گروہوں کی نمائندگی دو افراد کرتے ہیں۔ پہلا فرد سرسبز و شاداب انگور کے دو باغوں کا مالک ہے۔ باغ بھی ایسے کہ ان کے تمام اطراف کھجور کے درخت لگے ہوئے ہیں اور دونوں باغوں کے بیچ میں کھیتی جسے سیراب کرنے کے لیے ان کے درمیان نہر رواں پانی کی نہر موجود تھی۔ ایک ایسے موقع پر جب اس کے باغ خوب پھل پھول رہے اور پیداوار سے لدے ہوئے تھے اس کی ملاقات اپنے ایک غریب ہم نشین سے ہوئی۔ قرآن نے یہ بیان تو نہیں کیا مگر قرائن سے لگتا ہے کہ اس غریب نے اسے آخرت کی زندگی پر ایمان کی دعوت دی۔ جواب میں اس نے کبر و نخوت کے ساتھ اس ہم نشین پر اپنے مال و دولت، مقام و مرتبے اور اس پر اپنی برتری کا اظہار کیا۔ پھر وہ اسے لے کر اپنے باغ میں گیا اور بڑے فخر و اعتماد سے بولا کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی ویران بھی ہوگا یا کبھی قیامت آئے گی۔ اگر کبھی ایسا ہوا بھی تو اسے اپنے رب کی طرف سے وہاں بھی بہتر مقام ہی ملے گا۔ ہم نشین نے اسے اس کے کفر و غرور پر کچھ تنبیہ کی اور کچھ سمجھایا۔ اسے بتایا کہ صحیح رویہ یہ ہے کہ انسان نعمت و انعام کی حالت کو عطیہ الٰہی سمجھ کر اس کا شکر گزار بنے، نہ کہ اسے اپنی قوت و صلاحیت کا نتیجہ سمجھ کر تکبر میں مبتلا ہوجائے۔ مگر اس نے نہ سنا نہ سمجھا۔ آخر ایک روز اس کا باغ کسی آندھی اور بگولے کی نذر ہوگیا۔ یوں اس کے حصے میں پچھتاووں کے سوا کچھ نہیں آیا۔
ایک دفعہ پھر اس تمثیل میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ دنیا کی کامیابی کوئی کامیابی نہیں۔ یہ کسی لمحے بھی خاک میں مل سکتی ہے۔ وگرنہ آخرکار موت نے خود انسان کو خاک میں ملادینا ہے۔ اس کے دھوکے میں آکر خدا کی یاد اور اس کی ملاقات کو فراموش کردینا اور دنیا کی حقیر پونجی پر تکبر کرنا سرتاسر نادانی ہے۔ اسی حقیقت کو اس تمثیل کے فوراً بعد ان الفاظ میں کھول کر بیان کیا گیا ہے:
’’ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو (وہ ایسی ہے) جیسے پانی جسے ہم نے آسمان سے برسایا تو اس کے ساتھ زمین کی روئیدگی مل گئی پھر وہ چورا چورا ہوگئی کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں۔ اور اللہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ مال اور بیٹے ت دنیا کی زندگی کی (رونق و) زینت ہیں۔ اور نیکیاں جو باقی رہنے والی ہیں وہ ثواب کے لحاظ سے تمہارے پرودگار کے ہاں بہت اچھی اور امید کے لحاظ سے بہت بہتر ہیں۔‘‘، (سورۂ کہف، آیت 44-46)
قصۂ موسیٰ و خضر
کفار مکہ کو کچھ تنبیہات کے بعد اگلا واقعہ حضرت موسیٰ کا بیان ہوا ہے۔ یہ غالباً اُس زمانے کا ذکر ہے جب ان کی قوم فرعون کی غلامی میں بدترین مظالم کا شکار تھی۔ ایمان لانے والے ستائے جارہے تھے اور فرعون اور اس کے ظالم ساتھی ہر طرح کی دنیوی فراخی اور کامیابی حاصل کیے ہوئے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو ایک سفر پر بھیجا۔ ان کے ساتھ ان کے ایک نائب یوشع بن نون بھی تھے جو ان کے بعد ان کے خلیفہ اور پیغمبر بنے۔ ان کی ملاقات اللہ کے ایک خصوصی بندے جن کا نام خضر بیان کیا جاتا ہے سے ہوئی۔ ان کے ساتھ حضرت موسیٰ کا سفر شروع ہوا تو تین واقعات پے در پے ایسے پیش آئے جن کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں تھی۔ پہلا یہ کہ حضرت خضر انھیں لے کر ایک کشتی پر سوار ہوئے اور اس کشتی میں بلا وجہ سوراخ کردیا۔ کسی کو یوں مالی نقصان پہنچانا ایک بڑی معیوب حرکت تھی۔ اس سے زیادہ معیوب حرکت انھوں نے آگے چل کر یوں کی کہ ایک لڑکے کو بلا وجہ مار ڈالا۔ اچھوں کے ساتھ برا کرنے کے بعد انھوں نے تیسرا کام یہ کیا کہ بروں کے ساتھ بڑی بھلائی کردی۔ وہ اس طرح کہ ایک بستی والوں نے انھیں کھانا کھلانے سے انکار کردیا جو کہ انہتائی معیوب بات تھی، مگر انھوں نے ان لوگوں کے ایک مکان کی گرتی ہوئی دیوار کو بغیر کسی معاوضے کے ٹھیک کردیا۔
بعد میں حضرت خضر نے حضرت موسیٰ کو بتایا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوا۔ حقیقت یہ تھی کہ کشتی دو یتیموں کی تھی۔ آگے ایک بادشاہ تمام لوگوں کی کشتیاں چھین رہا تھا۔ مگر ان کی کشتی میں ایک عیب دیکھ کر اس نے ان بچوں کو چھوڑ دیا۔ یوں یہ چھوٹی تکلیف بہت بڑی محرومی سے بچنے کا سبب بن گئی۔ وہ بچہ جو قتل کیا گیااس کے آثار یہ تھے کہ اس نے خود بھی کفر و سرکشی میں مبتلا ہونا تھا اور اپنے والدین کو بھی مبتلا کردینا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس برے بچے کے بدلے میں انھیں ایک بہتر، نیک و صالح بیٹا دینے کا فیصلہ کیا۔ تقدیر الٰہی میں چونکہ ان کے لیے ایک ہی بیٹا تھا اس لیے پہلے کو لے کر دوسرا بیٹا دیا گیا۔ رہی وہ بستی تو احسان اس بستی والوں پر نہیں بلکہ اس نیک شخص کے یتیم بچوں پر کیا گیا جو اپنا تحفظ خود نہیں کرسکتے تھے۔ ان کے گھر میں ایک خزانہ تھا جو دیوار گرنے کی شکل میں ظاہر ہوجاتا اور دوسرے لوگ اسے لے جاتے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام کیا کہ ان کی جوانی تک یہ خزانہ محفوظ کردیا گیا۔
اس قصے میں بنیادی پیغام یہ ہے کہ یہ دنیا بناکر اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہیں۔ اسباب کی ڈور ہی سے سہی مگر اسے کنٹرول وہی کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر کسی اچھے شخص کے ساتھ کوئی برائی کا معاملہ کسی ناگہانی کی شکل میں پیش آئے تو اسے یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بہتری ہوگی۔ اور اسی طرح اگر وہ کسی برے کے ساتھ اچھا ہوتا ہوا دیکھے تب بھی یہ اعتماد رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ بھلائی اصل میں کسی نیک بندے کے لیے ہی ہے۔
آج کے اس دور میں جب ہر شخص اسباب کو اپنا خدا اور دنیا کو اپنا مقصد حیات بنا بیٹھا ہے، ایسے بندۂ مومن کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ ظاہری حالات سے مایوس اور دلبرداشتہ ہوجائے۔ مومن کا توکل ہمیشہ اللہ پر ہی رہتا ہے۔ وہ اسباب سے اوپر اٹھ کر مسبب الاسباب میں جیتا ہے۔ چنانچہ وہ ہر چیز کے پیچھے خیر ہی دیکھتا ہے چاہے بظاہر اسے اس میں کوئی چیز بری نظر آرہی ہو۔ چنانچہ خدا پر توکل، بھروسہ، اس سے حسن ظن اور ہر حال میں خدا کی بندگی و عبادت بندۂ مومن کاہمہ وقتی کام ہونا چاہیے۔ کیونکہ خدا غیب میں رہتے ہوئے بھی اپنے بندوں کا ساتھ دیتا ہے۔ چاہے بظاہر معاملات کتنے ہی برے ہوں، خدا صالحین کو کبھی نہیں چھوڑتا۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ پہلے واقعہ میں ہم نے دیکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ صالحین کی مدد کرنے کے لیے اسباب کے خلاف بھی معاملات کرتے ہیں۔ مگر چونکہ یہ دنیا عالم آزمائش ہے اس لیے ایسا بہت کم ہی کیا جاتا ہے۔ اس واقعے میں یہ بتایا جارہا ہے کہ وہ زیادہ تر بندوں کی مدد اسباب میں رہتے ہوئے ہی کرتے ہیں، گو بظاہر یہ اسباب عارضی طور پر ان کے خلاف ہوں، لیکن اپنے نتائج کے اعتبار سے معاملات کا فیصلہ آخرکار نیک بندوں کے حق میں ہوتا ہے۔
قصۂ ذوالقرنین
اس سورت کے دوسرے واقعے میں ہم نے ان کفار کا معاملہ دیکھا تھا جو مال و اسباب پاکر تکبر اور غفلت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اپنے مقام و مرتبے کو اپنے عمل کا نتیجہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اس سورت میں بیان کردہ چوتھا واقعہ وہ ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ زمانۂ قدیم کا ایک بادشاہ جو اپنے زمانے کی تمام متمدن دنیا کا حکمران تھا کس طرح اسباب پاکر مغرور نہیں ہوا بلکہ اس نے توکل، رحم، ایمان اور انسانی ہمدردی کے ان جذبات کا قدم قدم پر ثبوت دیا جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہیں۔ یہ واقعہ قدیم فارس کے حکمران سائرس اعظم کا ہے جسے قرآن مجید میں ذوالقرنین کہا گیا ہے۔ قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نہ صرف بادشاہی دی تھی بلکہ عالم اسباب میں اس کے زمانے میں جو کچھ بھی قوت و طاقت کے اسباب موجود تھے، سب اسے عطا کیے گئے تھے۔ اس واقعے میں اس کی تین عظیم فوجی مہموں کا ذکر کیا گیا ہے جن میں وہ مشرق، مغرب اور شمال میں متمدن دنیا کی آخری سمت تک فتوحات کرتا چلا گیا تھا۔ ہر مہم کے آغاز پر بطور خاص اس چیز کا ذکر ہے کہ اس نے اس مہم کے اسباب مہیا کیے۔ یہ اس چیز کا بیان ہے کہ اسباب کا اہتمام کرنا برا ہے، نہ بادشاہی اور ملک و دولت بری چیز ہیں۔ قرآن مجید واضح کرتا ہے کہ اس نے اس اسباب وقوت کا وہ استعمال کیا جو اللہ تعالیٰ کو عین مطلوب تھا۔ پھر خاص طور پر اس کی تیسری مہم کے بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یاجوج و ماجوج کے ستائے ہوئے لوگوں نے جب اس سے درخواست کی کہ ہم سے کچھ ٹیکس لے لو اور ہمارے اور یاجوج ماجوج کے درمیان ایک رکاوٹ تعمیر کردو تو اس نے ایک فاتح ہونے کے باوجود کسی قسم کا ٹیکس نہیں لیا بلکہ اپنے خزانے سے خرچ کرکے ان کے لیے ایک زبردست دیوار بنادی۔ یہ ایک پہاڑی درہ تھا جس کو اس نے لوہے کے تختوں سے پہاڑ کی بلندی تک بند کردیا۔ پھر اسے مضبوط کرنے کے لیے لوہے کو آگ میں دہکاکر پگھلا ہوا تانبا اس پر انڈیل دیا گیا۔ تاکہ نہ یاجوج ماجوج اسے چڑھ کر عبور کرسکیں نہ اس میں نقب لگاسکیں۔ مگر اس کے ایمان کا عالم یہ تھا کہ یہ اہتمام کرکے بھی اس نے کہا کہ یہ میرے رب کی رحمت سے ہوا ہے۔ گویا اس نے کام کا کوئی کریڈٹ خود نہیں لیا۔
اس واقعے میں یہ اسباق ہیں کہ مال و اسباب اگر کسی کو ملے ہیں تو اسے انھیں عطیہ الٰہی سمجھ کر رب کی رضا اور خلق کی بھلائی کے کاموں میں لگانا چاہیے۔ نہ کہ اپنی بڑائی اور فخر کے اظہار میں اس کو خرچ کرے۔ بلکہ جتنا زیادہ انعام عطا ہوا ہو اتنی ہی عاجزی سے کام لینا چاہیے۔ کیونکہ مال ایک حدیث کے مطابق اس امت کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔ چنانچہ دنیا پرستی کے اس دور میں درحقیقت مال ایک عظیم فتنہ بن گیا ہے۔ مگر سورۂ کہف ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب انسان ذوالقرنین کی روش پر چلتا ہے تو وہ بڑے سے بڑا بادشاہ بن کر بھی وہ رویہ اختیار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہوتا ہے اور جس کے نتیجے میں انسان اس عزت کا مستحق بن جاتا ہے کہ آخری وحی میں قیامت تک کے لیے اس کا ذکر محفوظ کردیا جائے۔
جہاں رہیے اللہ کے بندوں کے لیے باعثِ آزار نہیں، باعثِ رحمت بن کر رہیے۔
Now, You can also Comment by your Facebook account Below.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں