مغفرت کا مہینہ (استاد نعمان علی خان) حصہ پنجم


وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
وَإِذَا کا معنی ہے "جب". انگریزی اور عربی میں "جب" اور "اگر" میں بہت فرق ہے. اب ان دونوں میں فرق دیکھیں.
ایک ماں ہے جس کا بیٹا فوج میں ہے. اور اب وہ جنگ میں ہے. اس ماں کو اب اپنے بیٹے کی یاد آرہی ہے مگر کیونکہ وہ جنگ میں ہے اس لیے ماں اس سے رابطہ نہیں کرپارہی. اب اگر آپ اس سے اس کے بیٹے کے بارے میں بات کریں گے تو کیا وہ یی کہے گی "جب میرا بیٹا واپس آجائے گا تو میرے دل کو تسکین نصیب ہوگی"یا پھر کہے گی "اگر میرا بیٹا واپس آجائے گا تو میرے دل کو تسکین نصیب ہوگی"؟
وہ کہے گی " "جب میرا بیٹا واپس آجائے گا "
کیونکہ اگر وہ کہے گی کہ "اگر میرا بیٹا واپس آئے گا" تو اس کا مطلب ہوگا کہ اسے اپنے بیٹے کی واپسی کی امید نہیں ہے. اور اگر "جب" کہے گی تو مطلب ہوگا کہ وہ اس کی منتظر ہے، اور اسے لگتا ہے کہ وہ ضرور آئے گا.
جب آپ کسی کے منتظر ہوتے ہیں اور ان سے دور رہنے کا تصور نہیں کرسکتے تو آپ یہ نہیں کہتے کہ اگر وہ آئے گا، آپ کہتے ہیں جب وہ آئے گا، کیونکہ آپ ان سے دوری کا تصور نہیں کرسکتے، امید نہیں چھوڑسکتے. 

اللہ فرماتے ہیں: جب میرا بندہ میرے بارے میں دریافت کرتا ہے" اللہ نے یہ نہیں فرمایا " کہ اگر میرا بندہ میرے بارے میں دریافت کرے"

کیونکہ، وہ یہ نہیں کہہ رہا کہ ہوسکتا ہے کوئی اللہ کے بارے میں دریافت نہ کرے، اللہ تو آپ کے دریافت کرنے کا منتظر ہے. وہ تو اس انتظار میں ہے کہ آپ اس کے متعلق پوچھیں. سبحان اللہ!
اس لفظ میں، امید، طلب، محبت چھپی ہے. اگر اللہ کو لوگوں کی پرواہ نہ ہوتی تو یہاں "ان سالک" ہوتا.
سَأَلَكَ، لفظ اذا فعل ماضی اور فعل حال دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے. پر جب یہ فعل حال کے ساتھ آتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے "بار بار".یعنی اگر میرا بندہ میرے بارے میں بار بار دریافت کرتا ہے"تب یہاں "اذا اَسْاَلُکَ" استعمال ہوتا. مگر آیت میں اذا سَاَلَکَ ہے، یہ فعل ماضی ہے. یہ تب آتا ہے جب کوئی چیز "ایک دفعہ" ہوتی ہے. یعنی، اللہ اس انتظار میں ہے کہ اس کا بندہ اس کے متعلق دریافت کرے، چاہے پھر ایک ہی دفعہ، پر کرے تو صحیح.
اور دریافت کس سے کرتے تھے؟ "رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم سے"
پھر آگے اللہ نے فرمایا " عِبَادِي" میرے بندے!
اب اللہ نے یہ نہیں کہا "جب کوئی مومن میرا پوچھے، یا کوئی لوگوں میں سے،بلکہ کہا "میرے بندے"
عبادی کے آخر میں *ی* کا مطلب ہے _میرے_
قرآن میں جس جگہ پر بھی اللہ نے "میرے" استعمال کیا ہے، یا تو وہ بہت محبت کے جذبے سے فرمایا ہوتا ہے یا پھر بہت ہی خفگی سے.
اور یہ آیت اللہ کی محبت بیان کرتی ہے.
ایسا ہوتا ہے نا جب آپ کسی سے دور ہوتے ہیں تو آپ ان کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں *وہ میرا بھائی ہے*. اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ آپ کی ملکیت ہیں پر آپ کے ایسا کہنے میں ان کے لیے محبت چھپی ہوتی ہے.
اور ممکن ہے یہ *عباد* اللہ کی عبادت بھی نہ کرتے ہوں، مگر پھر بھی اللہ نے انہیں اپنے بندے فرمایا. .
یہ عباد، اللہ کے متعلق رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم سے دریافت کرتے تھے، اب اگر دیکھا جائے تو آیت کو کچھ یوں ہونا چاہیے تھا.
*جب وہ تم سے میرے متعلق دریافت کریں (اے رسول) تو ان سے کہہ دو میں قریب ہوں*
مگر آیت میں ایسا نہیں ہے. آیت میں اللہ فرماتے ہیں *جب وہ تم سے میرے متعلق دریافت کرتے ہیں (اے رسول)تو میں قریب ہوں*
_تو ان سے کہہ دو_ یہاں پر نہیں کہا گیا.
کیوں نہیں ہے؟
ایک مثال سے سمجھاتا ہوں:
*کوئی شخص رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس تشریف لاتا ہے اور دریافت کرتا ہے کہ کیا اللہ میرے دعا قبول کریں گے؟ مجھ سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں. تو کیا تب بھی اللہ میری سنیں گے؟
اب ہوتا ایسا ہے کہ اللہ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کو جواب دینے کا نہیں کہتے بلکہ *خود جواب دیتے ہیں*
اللہ خود آپ کو اور مجھے جواب دیتے ہیں. اس لیے یہاں کہا ہی نہیں گیا کہ اے رسول ان سے کہہ دو، بلکہ اللہ نے خود فرمایا *میں قریب ہوں*
اور یہاں فانی استعمال ہوا، انا/انی تب استعمال ہوتا ہے جب کوئی شک و شہبات میں ہو.
یہاں اللہ نے کہا ہے کہ تمہیں مجھ پر یقین نہیں، میں خود جواب دیتا ہوں، میں قریب ہوں. تم کبھی شک میں نہ پڑنا کہ میں قریب نہیں ہوں. میں تو کبھی دور گیا ہی نہیں، تم گئے تھے، میں نے کبھی محبت کرنا نہیں چھوڑی بلکہ تم نے چھوڑدی تھی.
اور قریب کا مطلب ہے "ہمیشہ نزدیک ہوں، قریب ہوں"
اللہ کے کتنے نام ہیں؟ کم از کم 99.
یہاں اللہ کی کونسی صفت استعمال ہوئی؟
رسول اللہ سے کیا کہا گیا کہ جب لوگ میرے متعلق دریافت کریں تو *میں قریب ہوں*.
اللہ کی یہ صفت یہاں بیان ہوئی کہ وہ قریب ہے.
کیونکہ جب وہ قریب ہے، تو آپ کا اس سے بات کرنا آسان ہوجاتا ہے. آپ اس کی صحیح سے عزت کرسکتے ہیں.
اسٹوڈنٹس اس بات کو اچھے سے سمجھ سکتے ہیں. جب ٹیچر قریب ہو تو آپ کا رویہ کچھ اور ہوتا ہے. جب ٹیچر کلاس سے باہر جاتے ہیں، تو کچھ اور ہوتا ہے. خاص طور پر امتحان کے دوران جب ٍٹیچر آکر دیکھتے ہیں کہ آپ پرچہ کیسے حل کر رہے ہیں تو آپ ڈر جاتے ہیں، کبھی ہاتھ سے چھپاتے ہیں تو کبھی آپ کو ملک الموت یاد آجاتا ہے.
پر جیسے ہی ٹیچر کہیں جاتا ہے، آپ کا رویہ بالکل مختلف ہوجاتا ہے.
اللہ فرمارہا ہے وہ قریب ہے، ہر وقت قریب ہے.. تو کیا آپ کا رویہ مختلف نہیں ہونا چاہیے؟
آگے اللہ نے فرمایا * أُجِيبُ* عربی میں اس کا معنی ہے *فوراً جواب دینا*
اللہ ہماری دعاوں کا فوراً سے جواب دیتا ہے.
اور یاد رکھیں، یہ رمضان کی آیات ہیں، آپ اس مہینے اللہ کے قریب ہوں، اس سے زیادہ سے زیادہ اس مہینے مانگیں، قرآن پڑھیں اور پھر اس سے مانگیں، بار بار پڑھ کر مانگیں. یہ اپنا ٹاسک رکھ لیں رمضان کے لیے.
رمضان کا مزہ ہی دعا میں چھپا ہے!
اگر کوئی شخص بہت زیادہ دعا کرتا ہے تو اس کے لیے لفظ *دعا* ہی استعمال ہوتا ہے.
پر اگر کوئی ایک ہی دفعہ دعا مانگتا ہے، یعنی بہت عرصے بعد ایک دفعہ اللہ کو پکارتا ہے، تو کہا جاتا ہے *دَعْوَة*َ. اللہ نے فرمایا *دَعْوَةَ الدَّاعِ* _میں اس کو بھی فوراً جواب دیتا ہوں جو عرصے بعد ایک ہی دفعہ مجھے پکارتا ہے_ سبحان اللہ!
اس لیے یہ مت سوچا کریں کہ میں فلاں کام نہیں کرتا ہوں اس لیے اللہ میری نہیں سنیں گے.
کبھی بھی امید کا دامن مت چھوڑیں..چاہے آپ ایک ہی دفعہ دعا مانگ رہے ہیں.
َ الدَّاعِ *جو اللہ کو پکارتا ہے*
اللہ نے یہ بھی نہیں کہا کہ میں اس کو جواب دونگا جو مومن ہے، یا صالح ہے، یا متقی ہے، بلکہ کہا *جو کوئی بھی مجھے پکارتا ہے* میں سب کے قریب ہوں. اللہ آپ کو تب بھی پہچانے گا جب آپ سالوں بعد اس سے مانگیں گے. وہ انسانوں طرح آپ کو بھول نہیں جاتا. 

جاری ہے ۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں