قرآن کہانی ۔۔۔۔ دو باغ دو کہانیاں (حصہ دوم)


~!~ قرآن کہانی ~!~
دو باغ دو کہانیاں (حصہ دوم)
تحریر: علی منیر فاروقی
بشکریہ: الف کتاب ویب

اور جو دوسری بات اس واقعے میں پنہاں ہے اسے صحیح طرح سمجھنے کے لیے ہمیں دوسرا قصہ بھی پڑھنا پڑے گا کہ جو سورۃ الکہف میں درج ہے۔

یہ واقعہ بھی قرآن میں بغیر کسی تمہید و تعریف کے درج ہے مگر مختلف فقہا و مفسرین کی آراء سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس واقعے کے کردار بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک بادشاہ کے دو بیٹے تھے، ایک نے اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا اور دوسرے شخص نے کفر اختیار کیا اور وہ دنیا کی زینت میں مشغول ہوکرمال بڑھانے میں لگ گیا۔ عطا خراسانی کے بیان کے مطابق ان کا قصہ اس طرح تھا کہ والد کے ترکہ سے آٹھ ہزار دینار ان کے حصہ میں آئے تھے، چار چار ہزار دونوں نے تقسیم کر لئے۔ ان میں سے کافر بھائی نے ایک ہزار دینار کی زمین خریدی، جب مومن بھائی کو اس کا علم ہوا تو اس نے کہا یا اللہ میرے بھائی نے ہزار دینار کی زمین خریدی ہے اور میں تجھ سے ہزار دینار کے بدلے جنت میں زمین خریدتا ہوں اور یہ کہہ کر ایک ہزار دینار راہِ خدا میں صرف کر دئیے، پھر کافر بھائی نے شادی کی اور اس پر اس نے ہزار دینار خرچ کئے، جب اس مومن بھائی کو معلوم ہوا تو اس نے کہا یا اللہ میرے بھائی نے ہزار دینار صرف کر کے ایک عورت سے شادی کی ہے میں ایک ہزار دینار کے عوض جنت کی حور سے شادی کرتا ہوں اور یہ کہہ کر اس نے ہزار دینار راہِ خدا میں خرچ کر دئیے۔ پھر اس کے کافر بھائی نے ایک ہزار دینار کے عوض کچھ غلام اور گھریلو سامان خریدا جب اس مومن بھائی کو معلوم ہوا تو اس نے کہا یا اللہ میں بھی ایک ہزار دینار کے عوض تجھ سے جنت میں خدام اور سامانِ راحت خریدتا ہوں یہ کہہ کر اس نے مزید ایک ہزار دینار راہ خدا میں صدقہ کر دئیے اب اس کے پاس کچھ باقی نہ رہا اور شدید حاجت مند ہوگیا۔ 

اس نے سوچا اگر میں اپنے بھائی کے پاس جاؤں اور اس سے اپنی حاجت کا سوال کروں تو وہ ضرور میری مدد کرے گا، چناں چہ وہ ایک روز اس راستہ پر جا کر بیٹھ گیا جہاں سے اس کے بھائی کی آمدورفت تھی۔ جب اس کا بھائی بڑی شان وشوکت کے ساتھ وہاں سے گذرا تو اپنے اس غریب مومن بھائی کو دیکھ کر پہچان لیا اور کہا فلاں؟ اس نے کہا ہاں، اس نے حالت دیکھ کر کہا تیرا یہ کیا حال ہے ؟ تو مومن بھائی نے جواب دیا مجھے حاجت شدیدہ پیش آگئی ہے مدد کے لئے تیرے پاس آیا ہوں۔ کافر بھائی نے پوچھا وہ مال کیا ہوا، جو تیرے حصہ میں آیا تھا؟ تو اس مومن بھائی نے پوری صورت حال بیان کی۔ تفصیل سن کرکافر بھائی نے کہا میں کچھ نہ دوں گا تو تو بڑا سخی ہے۔ پھر کافر بھائی نے مومن بھائی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے باغوں میں گھمایا ۔

اس باغ کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں انگوروں کی سرسبز شاخیں نگاہوں کو تراوٹ بخشتی تھیں۔ انگور کی بیل کا گھنا سایہ تو ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے پتوں کی گہری ہریالی بجائے خود اپنے اندر غیرمعمولی حسن رکھتی ہے۔ باغ میں داخل ہونے والا اس کے اس حسن سے بیگانہ نہیں رہ سکتا تھا۔ اس باغ کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ اس کے اردگرد کھجور کے درختوں کی باڑ لگائی گئی تھی۔ اس کے دو فائدے تھے۔ ایک تو یہ کہ باغ باہر ہی سے انتہائی خوش نما معلوم ہوتا تھا کیوں کہ قطاروں میں لگے ہوئے کھجور کے درخت خوب صورتی میں اپنی مثال آپ تھے۔ جن لوگوں نے کھجور کے باغات دیکھے ہیں وہ اس بات کی شہادت دیں گے کہ کوئی درخت بھی اپنے قد و قامت، اپنے پتوں کے رنگ اور فضا میں لہراتی شاخوں اور پھلوں کی خوش رنگی میں کھجور کے درخت کی ہمسری نہیں کرسکتا اور دوسرا فائدہ اس کا یہ ہے کہ عرب کے موسمِ گرما میں چلنے والی بادِ صر صر نہ صرف انسانوں کے لیے بلکہ حیوانوں اور درختوں کے لیے بھی انتہائی مہلک اور اذیت ناک شے ہے۔ انسان تو لپٹ سمٹ کر کسی اوٹ کے پیچھے بیٹھ کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ یہ زہریلی ہوا نتھنوں کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر انہیں اندرونی طور پر زخمی نہ کردے، لیکن درختوں، پودوں اور بیلوں کو بچانے کے لیے وہ یہ انتظام کرتے تھے کہ ان کے گرد کھجوروں کے درختوں کی باڑ لگا دیتے تھے۔ یہ درخت بے حد مضبوط قوت مدافعت کا مالک ہوتا ہے کہ نہ صرف خود باد صر صر کا مقابلہ کرتا ہے بلکہ باغ کے اندرونی حصوں کو حتی الامکان محفوظ بھی رکھتا ہے۔ تیسری خصوصیت اس باغ کی یہ تھی کہ اس میں صرف انگوروں کی بیلیں ہی رونق افروز نہ تھیں بلکہ کچھ قطعات خالی بھی چھوڑے گئے تھے تاکہ حسب ضرورت اس میں دوسری اجناس کاشت کی جاسکیں۔

اب جس شخص کے باغ تھے اس نے بڑے غرور سے اپنے اس کم حیثیت ساتھی سے کہا کہ میں مال کے اعتبار سے تجھ سے زیادہ ہوں اور افراد کے اعتبار سے تجھ سے بڑھ کر ہوں کیوں کہ میری جماعت زبردست ہے یعنی میری آل اولاد بھی زیادہ ہے ، اول اس کا غرور اوپر سے طرہ یہ کہ وہ باغ میں اپنے نفس پر ظلم کرنے کی حالت میں یعنی کفر پر قائم ہوتے ہوئے داخل ہوا وہاں بھی اس نے وہی کفر کیا اور کفرانِ نعمت کی باتیں کیں۔ کہنے لگا کہ میں تو یہ نہیں سمجھتا کہ میرا یہ باغ کبھی بھی برباد ہوگا اور یہ جو قیامت قائم ہونے والی باتیں کرتے ہو یہ یوں ہی کہنے کی باتیں ہیں میرے خیال میں تو قیامت قائم ہونے والی نہیں۔ فرض کرو کہ اگر قیامت آہی گئی اور میں اپنے رب کی طرف لوٹا دیا گیا تو اس دنیا میں، جو میرا باغ ہے مجھے وہاں اس سے بڑھ کر اچھی جگہ ملے گی۔

یہ شیطان کی چالوں میں سے ایک چال ہے کہ وہ انسان کو حد درجہ دھوکے کا شکار کر دیتا ہے اور وہ انسان کافر اور نا شکرا ہوتے ہوئے بھی یوں سمجھتا ہے کہ میں اللہ کا مقبول بندہ ہوں۔ جب اس نے ہمیں یہاں دولت دی ہے تو وہاں بھی ہمیں خوب نعمت و دولت ملے گی، یہ لوگ قیامت کو مانتے تو ہیں نہیں لیکن اہل ایمان سے قیامت کی باتیں سن کر یوں کہہ دیتے ہیں کہ اگر بالفرض قیامت آ ہی گئی تو وہاں بھی ہماری نوازشات میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ چوں کہ ایسے لوگ انبیا کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم اور تبلیغ کی طرف دھیان نہیں دیتے۔اس لئے یہ نہیں جانتے کہ وہاں جو کچھ ملے گا ایمان اور اعمال صالح کی وجہ سے ملے گا۔ اس لیے روزِ جزا میں جو نعمتیں ملیں گی، ان نعمتوں کے ملنے کے قانون سے واقف نہیں ہوتے اور حقیقت جانتے ہوئے بھی اکثر اہلِ ایمان کے سامنے منہ زوری کرکے اپنے آپ کو دونوں جہانوں میں برتر اور بہتر بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود ہی سوچلیتے ہیں کہ ہم یہاں بھی بہتر ہیں وہاں بھی بہتر ہوں گے۔

اب جو اس کا بھائی تھا جس سے اس نے فخر اور تمکنت کی باتیں کی تھیں اور اسے اپنے سے گھٹیا بتایا تھا، اس نے اول تو اسے عار دلائی اور ایک اچھے انداز میں اس کی نادانی اور بے وقوفی پر متنبہ کیا اور کہا کہ جس ذات پاک نے تجھے مٹی سے پھر نطفہ سے پیدا فرمایا، پھر تجھے صحیح سالم آدمی بنا دیا۔ کیا تو نے اس ہی کے ساتھ کفر کیا ؟ نہایت حکیمانہ انداز میں اسے یہ بھی بتا دیا کہ دیکھو رحم مادر میں نطفہ پہنچتا اور پھر بچہ بن کر باہر آتا ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ ٹھیک ہو اور اس کے اعضا صحیح سالم ہوں تمہیں اللہ تعالی نے پیدا فرمایا اور مزید کرم یہ فرمایا کہ تیرے اعضا کو صحیح سالم بنایا۔ تم نے بہ جائے مومن بندہ بننے کے کفر کا ارتکاب کیا۔ تف ہے تمہاری ایسی سمجھ پر۔ پھر اس کے بعد اس مومن بندہ نے اپنا عقیدہ بتایا اور یوں کہا ترجمہ: 
’’کہ اللہ میرا رب ہے اور میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ ‘‘
اس کے بعد اس موحد نے اپنے بھائی سے کہا کہ اللہ تعالی نے جو تجھے باغ کی نعمت دی ہے تجھے اس نعمت پر شکر گزار ہونا چاہیے۔تجھے یوں کہنا چاہیے تھا کہ ماشا اللہ لا قوۃ الا باللہ (یعنی اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور اللہ کی مدد کے بغیر کوئی قوت نہیں) یہ باغ صرف اللہ تعالی کی مشیت سے وجود میں آیا ہے اسی نے تجھے اس پر قبضہ دیا ہے جب وہ چاہے گا اسے برباد کردے گا اور تو دیکھتا رہ جائے گا۔ رہی یہ بات کہ میں تجھ سے مال اور اولاد میں کم ہوں تو یہ بات میرے لیے کوئی غمگین اور متفکر ہونے کی نہیں، مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ عنقریب تیرے باغ سے بہتر باغ عطا فرما دے گا دنیا میں ہو، آخرت میں ہو یا دونوں میں، اور وہ وقت بھی دور نہیں معلوم ہوتا کہ جب اللہ تعالی تیرے باغ پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے اور تیرا باغ ایک صاف میدان ہو کر رہ جائے۔ یا اس کا پانی زمین میں اتر جائے پھر تو اس پانی کو حاصل کرنے کی کوشش بھی نہ کرسکے، مطلب یہ ہے کہ تو جو یہ کہتا ہے کہ میرا باغ ہمیشہ رہے گا یہ اس لیے کہتا ہے کہ اسبابِ ظاہرہ موجود ہیں۔ سیراب کرنے کے لیے پانی ہے باغ کی سینچائی کے لیے آدمی موجود ہیں۔ یہ تیری بھول ہے جس ذات پاک نے تجھے یہ باغ دیا ہے وہ اس پر قادر ہے کہ آسمان سے اس پر کوئی آفت بھیج دے۔ پھر نہ کوئی درخت رہے گا نہ ٹہنی۔ نہ برگ رہے گا نہ بار، اسے اس بات پر بھی قدرت ہے کہ جس پانی پر تجھے گھمنڈ ہے وہ اس پانی کو اندر، زمین سے دور پہنچا دے اور یہ پانی اتنی دور چلا جائے کہ تو اسے محنت اور کوشش کرکے دوبارہ اپنی کھیتی کی سطح تک لانے کی ہمت نہ کرسکے۔ مومن و موحد بندے نے اُس کافر و مشرک ناشکرے کو شرک چھوڑنے اور توحید اختیار کرنے اور اللہ تعالی کی قدرت ماننے اور اس کی گرفت سے بچنے کی تلقین کی تھی، اس پر اُس نے دھیان نہ دیا۔ عذاب آ ہی گیا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں دنیا میں کوئی پاس رکھنا پسند نہیں کرتا مگر اللہ کے پاس ان کا رتبہ یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ بھولے سے بھی کوئی قسم کھا بیٹھیں تو اللہ اس قسم کو اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے ۔
 اور کچھ یوں ہی ہوا، اس مال دارکے جو اسباب تھے ان سب کو ایک آفت نے گھیر لیا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ ایک آگ تھی جس نے اس کی مالیت کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اب تو یہ شخص حیران کھڑا رہ گیا اور اپنے باغ پر جو کچھ خرچ کیا تھا اس پر اپنے ہاتھ کو الٹتا پلٹتا رہ گیا۔ وہ شخص افسوس کر رہا تھااور کہتا جا رہا تھا کہ ہائے افسوس میں اس باغ پر مال خرچ نہ کرتا جیسا تھا ویسے ہی بڑھتا رہتا۔ اگر اس پر مال نہ خرچ کرتا تو باغ جل جاتا مگر مال تو رہ جاتا، باغ بھی خاک ہوا اور جو کچھ اس پر لگایا تھا وہ بھی گیا۔ اب اسے اپنے مومن ساتھی کی نصیحت یاد آئی اور کہنے لگا اے کاش میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا۔ 
دیکھا جائے تو اس سارے واقعے میں کسی ظاہری شرک کا ارتکاب نظر نہیں آتا۔ کسی لات منات، عزی یا کسی اور دیوی دیوتا کی پوجا پاٹ کا بھی کوئی حوالہ یہاں نہیں آیا۔ اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کا بھی ذکر نہیں ہوا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا اقدام تھا جس پر وہ شخص پچھتایا کہ کاش میں نے اپنے رب سے شرک نہ کیا ہوتا ! اس پہلو سے اگر اس سارے واقعے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہاں جس شرک کا ذکر ہوا ہے وہ مادہ پرستی کا شرک ہے۔
اس شخص نے اپنے مادی اسباب و وسائل کو ہی سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ جو بھروسا اور توکل اسے حقیقی مسبب الاسباب پر کرنا چاہیے تھا، وہ بھروسا اور توکل اس نے اپنے مادی وسائل پر کرلیا تھا اور اس طرح ان مادی وسائل کو معبود کا درجہ دے دیا تھا۔ یہی رویہ اور سوچ مادہ پرستی ہے اور یہی موجودہ دور کا سب سے بڑا شرک ہے۔ 
بقول اقبال :
؂ اس دور میں مہ اور ہے جام اور جم اور
ساقی نے بنا لی روش لطف ستم اور
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ موجودہ دوراگنی پوجا، ستارہ پرستی اور بت پرستی کا دور نہیں۔ آج کا انسان ستاروں کی اصل حقیقت جان لینے اور چاند پر قدم رکھ لینے کے بعد ان کی پوجا کیوں کر کرے گا ؟ چنانچہ آج کے دور میں اللہ کو چھوڑ کر انسان نے جو معبود بنائے ہیں ان میں مادہ پرستی سب سے اہم ہے۔ آج دولت کو معبود کا درجہ دے دیا گیا ہے اور مادی وسائل اور ذرائع کو مسبب الاسباب سمجھ لیا گیا ہے۔ شرک صرف دولت کی دیوی کے آگے سر ٹیکنا یا کسی پتھر کو ہی پوجنا نہیں ہے، بلکہ کسی بھی چیز کی اہمیت کو بڑھا کر خدا کے مقام پر لے جانے کا نام ہے۔کچھ لوگ وطن کو خدا بنا لیتے ہیں، کچھ نظریات کو اور کچھ دولت کو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہلاک ہو جائے درہم و دینار کا بندہ۔‘‘ یہ مادہ پرستی اور دولت کی ہوس موجودہ دور کا بہت خطرناک شرک ہے اور اللہ اس کے شر سے ہمیں محفوظ رکھے۔ 

یہی کمزوری ہمیں پہلے قصے میں بھی نظر آئی تھی۔ وہاں بھی انسان نے مادے پر توکل کیا، اور سوچا کہ فصل لدی پڑی ہے ہم جلدی اٹھ بھی گئے ہیں تو کون ہمیں ہماری فصل توڑنے سے روکے گا۔ انہوں اپنے آپ کو قادر سمجھا۔ اور یہاں بھی ہمیں عذاب کا یہی سبب نظر آتا ہے اس شخص نے بھی اپنے باغ پر نظر طائرانہ ڈال کر یہ گمان کر لیا کہ یہ باغ از خود ہمیشہ قائم رہ سکتا ہے ۔ اپنے حساب کتاب میں اس نے سب شامل کر لیا، نہیں کیا تو مسبب الاسباب اللہ عزوجل کی ذات کو۔ 
اس بات کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ انسان اسباب نہ کرے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں ترجمہ:
’’ اور زاد راہ لے لیا کرو اور بہترین زاد راہ تقویٰ ہے اور اللہ سے ڈرو اے عقل والو۔‘‘ 
تقوی کی بہترین تشریح ہمیں ایک روایت سے ملتی ہے جہاں حضرت عمرؓ نے اپنے ایک ساتھی سے تقوی کے معنی پوچھے تو انہوں نے کہا: ’’ پر خار رستے پر اپنا دامن بچا بچا کر نکل جانا تقویٰ ہے۔‘‘ دنیا کو چھوڑ کر جنگل و بیابان میں نکل جانا تقویٰ نہیں۔ رہنا تو ہم نے اسی مادہ پرست دنیا میں ہے مگر اس دنیا کے فریبوں سے ہوشیار رہنا ہے۔ اپنا پیٹ ضرور پالنا ہے ، اپنی اولاد کے لیے مشقت بھی کرنی ہے مگر ہمارا اصل ہدف آخرت ہونا چاہیے ۔اسی طرح اس دنیا میں رہنے کے لیے محنت ضرور کرنی ہے اسباب پورے کرنے ہیں مگر بھروسہ صرف اللہ کی ذات پر کرنا ہے۔ اس کے اوپر کامل توکل ہو گا تو اِن شااللہ یہ دنیا بھی آسان ہو گی اور آخرت بھی فرحاں ۔ اللہ ہم سب کو ایمان اور توکل کی دولت سے مالامال کرے۔
آمین۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں