جب وقت نزع آ جائے گا-۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خطبہ جمعہ بیت اللہ۔۔۔ 22 فروری 2019

Image

جب وقت نزع آ جائے گا-۔۔۔۔۔۔ خطبہ جمعہ بیت اللہ (اقتباس)
امام وخطیب: ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید ﷾
جمعۃ المبارک 17 جمادیٰ الآخرۃ 1440ھ بمطابق 22 فروری 2019ء
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: عمر وزیر

ہر طرح کی حمد وثنا اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ وہی عظیم وجلیل ہے۔ میں اللہ پاک کی حمد وثنا بیان کرتا ہوں، اسی کا شکر ادا کرتا ہوں۔ وہی ہمارے لیے کافی اور وہی بہترین كارساز ہے۔ بہت زیادہ نوازتا اور بے انتہا عطائیں کرتا ہے۔ میں پوری سچائی اور اخلاص کے ساتھ یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ گواہی اس دنیا سے جدائی کے دن کام آئے گی۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ قرآن کریم کی معجز آیات کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کی گئی۔ اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور سلامتیاں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اہل بیت اور صحابہ کرام پر، جو اہل فضل ومرتبت ہیں۔ تابعین پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں، حق پر ثابت قدم رہنے والوں اور راہ راست پر قائم رہنے والوں پر۔

بعدازاں!
لوگو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اللہ سے ڈرتے رہو۔ سچائی کی راہ اپناؤ۔ کیونکہ انسان سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی پر قائم رہنے کی کوشش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اللہ کے یہاں سچے لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ جھوٹ سے بری چیز کوئی نہیں ہے، کیونکہ انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ پر قائم رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کے یہاں اسے جھوٹے لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔

دل کی سلامتی تو ایسی نعمت ہے جسے جنت کی عظیم نعمتوں میں شمار کیا گیا ہے۔

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ
’’اُن کے دلوں میں جو تھوڑی بہت رنجش ہوگی اسے ہم نکال دیں گے، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔‘‘(الحجر: 47)

یہ بھی ایک مصیبت ہے کہ انسان ایسی لڑائیوں اور جھگڑوں میں لگا رہے۔ اللہ تیری نگہبانی فرمائے! لوگوں کو معاف کرتے رہنا، ان کی غلطیوں سے درگزر کرتے رہنا، بھلا گمان رکھنا۔ جس کی کسی غلطی کا عذرنہ بھی مل سکے، اس کے متعلق بھی یہی کہہ دیا کرو کہ ہو سکتا ہے اس کی کوئی مجبوری ہو۔

اے مسلمانو!
اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم ترین نعمت بھی ہے کہ وہ انسان کو زندہ دل عطا فرما دے، جس کی بدولت وہ بیدار ہو جائے، متنبہ ہو جائے اور اِس زندگے کے احوال، بدلتے حالات اور اس کے اتار چڑھاؤ کو خوب سمجھ لے۔ انسان کی زندگی ایسے مواقع سے بھری پڑی ہے جن سے عبرت پکڑی جا سکتی ہے اور سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن میں سے ہر ایک دوسری سے بڑی ہوتی ہے۔ جب بڑی مصیبت آتی ہے تو ہلکی مصیبت بھول جاتی ہیں۔ مگر ایک موقع ایسا بھی ہے جس کے متعلق انسان بہت کم غور وفکر کرتا ہے، اور اگر غور وفکر کرتا بھی ہے تو ویسے نہیں جیسے غور وفکر کرنے کا حق ہے۔ اس موقع کی تصویر کشی علامہ ابن الجوزی علیہ رحمۃ اللہ یوں کرتے ہیں:

دلچسپ بات یہ ہے کہ موت کے فورًا بعد انسان کو ہوش آجاتی ہے۔ موت کے فورًا بعد انسان کو ہوش آجاتی ہے۔ جب انسان اللہ کے رحم کے مرہون منت ہو جاتا ہے تو وہ ہوش میں آتا ہے، ایسی ہوش میں آتا ہے، جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے، اتنا بےچین ہوتا ہے جس کا وصف نہیں کیا جا سکتا۔ گزرے وقت کو پھر سے پانے کی تمنا کرتا ہے، تمنا کرتا ہے کہ اسے تھوڑی مہلت مل جائے، تاکہ وہ کوتاہیوں کا تدارک کر لے اور موت پر یقین رکھتے ہوئے پوری سچائی کے ساتھ توبہ کر لے۔

پھر ابن الجوزی ﷫ فرماتے ہیں: عقلمند وہ ہے، جو اس وقت کو یاد رکھتا ہے اور اس کی تیاری کرتا ہے۔

اللہ کے بندو!
موت کو یاد رکھنے سے خواہشات کا زور کم ہو جاتا ہے، اس کا تصور کرنے سے انسان میں سنجیدگی آ جاتی ہے، وقت کی حفاظت ہوتی ہے اور اعمال نیک ہو جاتے ہیں۔ مکمل عافیت اور طویل زندگی کے دنوں میں موت کو یاد کرتے رہنا چاہیے تاکہ ذکر، شکر اور بہترین عبادت کے ذریعے موت کی تیاری ممکن ہو سکے۔

اللہ کے بندو! نزع کا لمحہ، وہ لمحہ ہوتا ہے، جس میں انسان موت اور زندگی کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے، جب آ جاتا ہے تو انسان کو یقینی طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اب مر جائے گا۔ اس لمحے میں کوئی جھوٹ نہیں ہوتا، نہ اس سے بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ ہوتا ہے۔ انسان کے سامنے سے پردے ہٹا دیے جاتے ہیں اور وہ یقینی طور پر جان لیتا ہے کہ اس کی آخرت آ گئی ہے۔ دنیا کا پردہ اس کی آنکھوں کے آگے سے ہٹا دیا جاتا ہے، پھر اسے ایسی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں، جو پہلے کبھی نہیں آئی ہوتیں۔

ے مسلمانو!
اس دنیا میں انسان صحت اور تندرستی کے وقت غفلت میں پڑ جاتا ہے۔ وہ مالدار بھی ہوتا ہے، صاحب منصب بھی ہوتا ہے اور معاشرے میں اعلیٰ مقام ومرتبہ رکھنے والا بھی ہوتا ہے۔ اس وقت ایسا ہوتا ہے کہ آنکھیں رشک کریں! اس کے ارد گرد بہت سے نوکر چاکر اور ماتحت لوگوں کا جھمگھٹا لگا ہوتا ہے۔ بڑی بڑی امیدوں میں جیتا ہے اور لمبی لمبی منصوبہ بندیاں کرتا ہے۔ پھر جب اس کی موت کا وقت آ جاتا ہے، نزع کا لمحہ آ پہنچتا ہے، یا کوئی مایوس کن بیماری آ جاتی ہے یا کسی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے، تو اس کا کیا حال ہوتا ہے، اس وقت اس کے احساسات کیا ہوتے ہیں، اس کے امیدیں کیا ہوتی ہیں، کس چیز پر نادم ہوتا ہے اور کن چیزوں کی امیدیں لگاتا ہے؟ ارد گرد سے سب ہٹ چکے ہوتے ہیں، مصلحت پرست لوگ دور جا چکے ہوتے ہیں۔ وہ ایسی حالت تک پہنچ چکا ہوتا ہے، جس میں اسے یقین ہو جاتا ہے دل کی سلامتی اور نیک اعمال، بہترین عبادت، اچھا اخلاق، پاکیزہ دل، نیک سیرتی، ایثار اور لوگوں کا فائدہ کرنے کا جذبہ ہی قابل رشک ہے۔

وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ ٨٧ يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ ٨٨ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
’’مجھے اس دن رسوا نہ کر جبکہ سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے (87) جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد (88) سوائے اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔‘‘(الشعراء: 87)

جب نزع کا وقت آ جاتا ہے، یا بے بسی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے تو انسان غور کرنے لگتا ہے اور اس وقت سوچتا ہے کہ کیا دنیا کی زندگی ان ساری قربانیوں کی مستحق بھی تھی؟ کیا وہ اس لائق تھی کہ اس کے لیے دشمنیاں کی جائیں، ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے کیے جائیں، اس کی وجہ سے فلاں کو آگے کیا جائے، فلاں کو پیچھے کیا جائے، فلاں کو نظر انداز کیا جائے، فلاں کو قریب کر لیا جائے، فلاں سے منہ موڑ لیا جائے اور فلاں کے معاملے سے غفلت برتی جائے۔ گھروالوں اور بچوں کے حقوق سے اور ان کی تربیت اور اصلاح سے غفلت کی جائے، بلکہ اپنے نفس کی تندرستی، آرام، سکون، عبادت اور احسان میں کوتاہی کی جائے۔

اس حال میں انسان کی تمام امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں اور آرزؤوں کا طوفان تھم جاتا ہے۔

جب انسان کو یہ یاد آتا ہے اور جب وہ اپنا محاسبہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے، اگرچہ اس وقت کچھ کہنے کا فائدہ نہیں ہوتا۔ کہتا ہے: اگر میں تھوڑی دیر کے لیے دنیا اور آخرت کے حال پر غور کر لیتا تو مجھے معلوم ہو جاتا کہ نیکی، اچھے اعمال اور لوگوں کے لیے بھلائی پسندیدہ اور سلامتی کا راستہ ہے، محفوظ ترین شاہراہ ہے۔ معاشرتی مقام کا شور کہاں گیا؟! مددگاروں کا شور شرابا کہاں گیا؟! رابطے اور تعلقات کس کام آئے؟! اس وقت اسے خوب معلوم ہو چکا ہوتا ہے کہ بلند درجے اور ترقی کے زینے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جان لیتا ہے بلند مقام اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے میں، بہترین انداز میں اس کی عبادت کرنے میں اور اس کے لیے اخلاص اپنانے میں ہے، نا کہ دنیا والوں کے مرتبوں، ان کے عہدوں، ان کی عزتوں اور ان کے مال میں۔
اس حال میں امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں اور آرزؤوں کا طوفان تھم جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ:

رَبِّ ارْجِعُونِ ٩٩ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ
’’اے میرے رب، مجھے اُسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔‘‘(المؤمنون: 99)
اور کوئی کہتا ہے:
رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ
’’اے میرے رب، کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا۔‘‘
(المنافقون: 10)
اور کوئی کہتا ہے:
يَا حَسْرَتَىٰ عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللَّـهِ
’’افسوس میری اُس کوتاہی پر جو میں اللہ کے حق میں کرتا رہا۔‘‘(الزمر: 56)
مگر سب کو یہی جواب ملے گا:
أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ
’’کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق حاصل کر سکتا تھا؟ اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آ چکا تھا۔‘‘(فاطر: 37)

اس کے لیے بڑی ہلاکت ہے اور اس شخص کی سعادت کے کیا کہنے، جس پر فرشتے نازل ہوں گے اور کہیں گے:
أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿٣٠﴾نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ﴿٣١﴾ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ
’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے (30) ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی (31) یہ ہے سامان ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔‘‘(فصلت: 30-32)

ان لوگوں کی کامیابی کے بھی کیا کہنے جنہیں:
لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَـٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ
’’وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت اُن کو ذرا پریشان نہ کرے گا، اور ملائکہ بڑھ کر اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ “یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘(الانبیاء: 103)

پیارے بھائیو!
یہ ہیں سلف صالحین کے احوال اور حالت نزع میں ان سے روایت کردہ واقعات۔

یہ ہیں حضرت سلمان فارسی ان کے بارے میں امام احمد، امام حاکم اور امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے کہ جب وہ بیمار ہوئے تو حضرت سعد بن ابی وقاص کوفہ سے ان کے پاس عیادت کے لیے آئے۔ جب وہ ان کے پاس پہنچے تو وہ نزع کی حالت میں تھے اور رو رہے تھے۔ انہوں نے سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ پھر پوچھا: کیوں رو رہے ہو؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت یاد نہیں ہے؟ کیا نیک اور روح پرور منظر یاد نہیں ہیں؟ سلمان فارسی نے فرمایا: میں ان دونوں چیزوں کی وجہ سے نہیں رو رہا۔ میں دنیا کی محبت میں یا اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتے ہوئے نہیں رو رہا۔ حضرت سعد نے فرمایا: تو پھر دنیا میں 80 سال گزار لینے کے بعد کس وجہ سے رو رہے ہو؟ کہتے: مجھے اس وجہ سے رونا آ رہا ہے کہ میرے خلیل نے مجھے وصیت کی تھی کہ دنیا میں اتنا ہی سامان اکٹھا کروں جتنا کوئی مسافر سوار اکٹھا کرتا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ میں نے اس سے زیادہ سامان اکٹھا کر لیا ہے۔

یہ ہیں حضرت سلمان جو ڈرتے تھے کہ انہوں نے زیادہ مال ومتاع اکٹھا کر لیا ہو۔ تو بھلا وہ کیا کہے گا، جس نے یقینی طور پر بہت زیادہ مال ومتاع اکٹھا کر رکھا ہے؟ پھر وہ کیا کہے گا، جس نے دوسروں کے مال سے بھی ہاتھ پیچھے نہیں رکھا، بلکہ انہیں بھی لوٹ لیا؟ اللہ کی حدوں کا خیال بھی نہیں کیا، بلکہ ان سے بھی آگے بڑھ گیا؟ لوگوں کی عزتوں اور ان کے گوشت کا بھی خیال نہیں کیا، بلکہ انہیں بھی ہضم کر گیا۔ لوگوں کے عقائد اور اخلاق کو محفوظ نہیں رکھا، بلکہ ان پر حملہ کر کے انہیں بھی بگاڑ دیا؟!

یہ ہے محاسبۂ نفس۔ کہ انسان یہ سوچے کہ کیا وہ اپنی حدود سے باہر نکلا ہے؟ کیا اس نے کوتاہی کی ہے؟ کیا اس نے کوئی تبدیلی کی ہے؟ کیا اس نے کسی چیز کی حالت بگاڑی ہے؟

بعدازاں! اللہ کے بندو!
اے زندہ لوگو! اے تندرستو! تم ان چیزوں پر قادر ہو، جس پر قبروں والے قادر نہیں ہیں۔ تو صحت، تندرستی اور فراغت کو غنیمت جانو۔ اس سے پہلے کہ روح نکلنے کا وقت آ جائے یا یوم جزا آ جائے۔ ہر وہ دن جو انسان جی لیتا ہے، بلکہ ہر گھڑی جو انسان گزار لیتا ہے، وہ ایک شاندار موقع ہوتا ہے۔ جو بقیہ زندگی میں اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے گزشتہ اور آئندہ گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ جو اپنی تندرستی اور فراغت کو فرمانبرداری میں لگا دیتا ہے، وہی قابل رشک ہوتا ہے۔ جو انہیں نافرمانی میں استعمال کرتا ہے، وہی گھاٹے میں ہے۔

فراغت کے بعد مصروفیت آ جاتی ہے۔ تندرستی کے بعد بیماری آ جاتی ہے۔

میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے۔
كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ ﴿٢٦﴾ وَقِيلَ مَنْ ۜ رَاقٍ ﴿٢٧﴾ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ ﴿٢٨﴾ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ﴿٢٩﴾ إِلَىٰ رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ
’’ہرگز نہیں، جب جان حلق تک پہنچ جائے گی (26) اور کہا جائے گا کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا (27) اور آدمی سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے جدائی کا وقت ہے (28) اور پنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے گی (29) وہ دن ہوگا تیرے رب کی طرف روانگی کا۔‘‘(القیامۃ: 26-30)

وعظ ونصیحت سے فائدہ اٹھانے میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ یہ بھی جان لو کہ اعمال کا دار ومدار ان کے خاتمے پر ہوتا ہے۔ خوش بخت وہ ہے جو دوسروں سے عبرت پکڑ لے۔ ہر وہ مزا، جس کے بعد موت آنی، اس کی حیثیت راکھ سے زیادہ نہیں ہے۔

أَفَرَأَيْتَ إِن مَّتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ ﴿٢٠٥﴾ ثُمَّ جَاءَهُم مَّا كَانُوا يُوعَدُونَ ﴿٢٠٦﴾ مَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يُمَتَّعُونَ
’’تم نے کچھ غور کیا، اگر ہم انہیں برسوں تک عیش کرنے کی مُہلت بھی دے دیں (205) اور پھر وہی چیز ان پر آ جائے جس سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے (206) تو وہ سامانِ زیست جو ان کو ملا ہوا ہے اِن کے کس کام آئے گا؟‘‘(الشعراء: 207)

اسی طرح وعظ نصیحت سے فائدہ حاصل کرنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسان یہ جان لے کہ دن ایک خزانہ ہیں، جو دن گزر جاتا ہے، وہ کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔ رجوع نہ ہو تو یاد دہانی کا کوئی فائدہ نہیں۔ عمل نہ ہو تو بات سننے کا کوئی فائدہ نہیں۔

غور کرو! امام حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کے اس اشارے پر غور کیجیے۔ فرماتے ہیں: جو اپنی زندکی اللہ تعالیٰ کے ساتھ، اس کے ذکر، اس سے محبت اور اس کی فرمان برداری میں مصروف رہتا ہے، وہ دیکھے کہ اسے موت کے وقت انہی چیزوں کی ضرورت تھی۔ جبکہ جو اپنی زندگی میں ان کے علاہ کسی دوسری چیز میں مصروف رہتا ہے اور غیر اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط کر لیتا ہے تو اس کے لیے موت کے وقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ دل لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ فرمان برداری پر سچے اور صبر کرنے والے فرمان بردار ہی ثابت قدم رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل نزع کے وقت نہیں پھرتے اور شیطان ان کا کوئی نقصان نہیں کر پاتے۔

سنو! پرہیز گاری اختیار کرو۔ سنو! پرہیز گاری اختیار کرو۔

درود وسلام بھیجو! اللہ کی عطا کردہ نعمت اور سراپائے رحمت، اپنے نبی محمد رسول اللہ ﷺ پر۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی واضح کتاب میں یہی حکم دیا ہے۔ سچ اور حق بات کرنے والے نے اپنی کتاب میں عظیم فرمان جاری کیا ہے۔ فرمایا:

إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
’’اللہ اور اس کے ملائکہ نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔‘‘(الاحزاب: 56)
اے اللہ! رحمتیں، برکتیں اور سلامتی نازل فرما اپنے بندے اور رسول، حبیبِ مصطفیٰ، نبیِّ مجتبیٰ، نبینا محمد ﷺ پر، پاکیزہ اہل بیت پر، امہات المؤمنین، ازواج مطہرات پر۔


اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! شرک اور مشرکوں کو رسوا فرما! سرکشوں اور بے دینوں اور تمام دین وملت کے دشمنوں کو تباہ وبرباد فرما!

اے اللہ! ہمارے ملکوں میں امن نصیب فرما! اے اللہ! ہمارے ملکوں میں امن نصیب فرما! ہمارے اماموں اور حکمرانوں کی اصلاح فرما! ہماری حکمرانی ان لوگوں کے ہاتھوں میں تھما جو تجھ سے ڈرنے والے، پرہیز گار اور تیری خوشنودی کے طالب ہوں۔

اے اللہ! مسلمانوں کے احوال درست فرما! اے اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کے احوال درست فرما! اے اللہ! ان کی جانوں کی حفاظت اور انہیں حق، ہدایت اور سنت پر اکٹھا فرما! ان کے نیک لوگ ان کے حکمران بنا۔ انہیں برے لوگوں سے چھٹکارہ نصیب فرما! ان کے ملکوں میں امن، عدل اور سلامتی عام فرما! انہیں تمام ظاہر وپوشیدہ برائیوں اور فتنوں سے محفوظ فرما!

اے اللہ! ہمارے فوجی جوانوں کی مدد فرما! اے اللہ! ہمارے فوجی جوانوں کی مدد فرما جو ہمارے ملک کی سرحدوں کی پہرہ داری کر رہے ہیں۔ ان کے فیصلے درست فرما اور ان کے نشانی ٹھیک جگہ پر لگا۔ ان کی مدد فرما! ان کی ہمتیں بلند فرما! انہیں سربلندی نصیب فرما! ان کے دلوں کو مضبوط فرما! ظلم وزیادتی کرنے والوں پر ان کی مدد فرما!

اے اللہ! ان کی تائید فرما! انی کی نصرت فرما! اے اللہ! سامنے سے، پیچھے سے، دائیں جانب سے، بائیں جانب سے اور اوپر سے ان کی حفاظت فرما! نیچے سے ہلاکت کی آمد سے ہم تیری پناہ میں آتے ہیں۔

اے اللہ! ہمارے گناہ معاف فرما! ہمارے عیب چھپا! ہماری مصیبتیں آسان فرما! آزمائیش میں پڑنے والے ہمارے بھائیوں کی مدد فرما! ہمارے بیماروں کو شفا عطا فرما اور ہمارے فوت شدگان پر رحم فرما!

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
’’اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔‘‘(الاعراف: 23)

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔‘‘(الاعراف: 23)

سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿١٨٠﴾ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ﴿١٨١﴾ وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
’’پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں (180) اور سلام ہے مرسلین پر (181) اور ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے۔‘‘(الصافات: 180-182)


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں