تدبر القرآن۔۔۔۔ سورۃ البقرہ۔۔۔۔۔۔ نعمان علی خان ۔۔۔۔۔۔ حصہ- 41

تدبر القرآن
 سورۃ البقرہ
نعمان علی خان 
 حصہ- 41

فإذا قرأۃ القرآن فاستعذ باللہ من اشیطان الرجیم 

*إِنَّ اللَّـهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِهَـٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ ﴿٢٦﴾ الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّـهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿٢٧﴾ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿٢٨﴾*

الله تعالی پچھلی آیات میں جنت کے بیان کے بعد ان آیات میں قرآن کی حقیقت کی طرف واپس آتے ہیں. جیسے کہ پچھلی آیات میں الله تعالی نے فرمایا تھا 

*وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِه وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٢٣﴾*
ہم نے جو اپنے بندے پر نازل کیا اگر اپ اس بارے میں کسی بھی قسم کے شبہ میں ہیں تو اس سے ملتی جلتی ہی کوئی چیز لے آئیں.

ایک طرف تو الله سبحان و تعالی یہ چیلنج دیتے ہیں کہ اول تو آپ لوگ قرآن جیسا کچھ لا نہیں سکتے کیونکہ یہ تو جانی مانی بات ہے کہ وہ ایسا اگرچہ کچھ پیدا نہیں کر سکتے مگر پھر بھی وہ قرآن پر حملہ کرنے سے تو باز نہیں آئیں گے. اور لوگوں کی یہ بھی ایک پالیسی ہے کہ اگر وہ کسی بات کا جواب نہیں دے سکتے تو الٹا اسی پر حملہ کر دیتے ہیں، اسی پر تنقید شروع کر دیتے ہیں. اور یہ دوسرا طریقہ آج بھی رائج ہے جو جانتے ہیں کہ وہ قرآن جیسا تو کچھ لا نہیں سکتے مگر ہاں جو قرآن میں موجود ہے اس پر تنقید ضرور کر سکتے ہیں، اس کا مذاق ضرور اڑا سکتے ہیں اور وہ یہ سب آج بھی کر رہے ہیں. 

میں آپ سے اپنا ایک تجربہ شئیر کرنا چاہوں گا یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں نے عربی زبان سیکھنا ابھی شروع ہی کی تھی تب انٹرنیٹ کا استعمال عام نہیں ہوا تھا. 
جارج ٹاؤن یونیورسٹی، جہاں عربی زبان میں بیچلرز اور ماسٹر کروائے جاتے تھے، کے ایک طالبعلم نے انٹرنیٹ پر ایک اشتہار دیا کہ "ہم نے اپنے کلاس پراجیکٹ میں ایک قرآن جیسے سورہ لکھ ڈالی ہے." دیکھنے میں یہ آسمانی الفاظ ہی لگتے تھے اور پڑھنے میں بھی ایسے لگتا تھا جیسے قرآن کا کوئی حصہ ہو. ایسا پہلے بھی بہت بار ہو چکا ہے کہ لوگ قرآن کے چیلنج میں کچھ لکھ لاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ کامیاب ہو گئے. ایسے لوگوں کے پاس گواہ بھی ہوتے ہیں جیسے ان یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھی طلباء و اساتذہ وغیرہ. تو بنیادی طور پر ایسے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن کے چیلنج کے جواب میں سورہ لکھ ڈالی اور ہمارے پاس گواہ بھی ہیں. یہ تو کوئی مشکل کام نہ تھا.

بنیادی مسئلہ تو یہ ہے کہ قرآن پاک نے صرف یہ ایک چیلنج تونہیں دیا کہ عربی میں کچھ لکھ لاؤ یا قرآن کے طریقے پر کچھ لکھ لاؤ. اصل میں تو قرآن ایک ساتھ اتنے پہلوؤں کو لے کر چلتا ہے کہ ایسا کرنا کسی انسان کے بس کی بات ہی نہیں. میں آپ کو اس کی کچھ مثالیں دیتا ہوں تاکہ آپ کو سمجھنے میں آسانی ہو کہ لوگ تنقید پر کیوں اتر آتے ہیں. آپ کو کسی بھی چیز پر تنقید کے لیے پہلے اس چیز کا اچھے سے مطالعہ کرنا پڑتا ہے اپنی توانائی خرچ کرنی پڑتی ہے۔ پرانے کام ہر وقت لگانے سے کچھ نیا ایجاد کرنا کہیں زیادہ آسان کام ہے. اور لوگ تنقید پر جاتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ اس جیسا کچھ لا تو سکتے نہیں. 

میں آپ کو کچھ ایسی باتیں بتاتا ہوں جن پر پہلے زیادہ بات نہیں کی گئی. رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر 40 سال کی عمر میں وحی نازل ہوئی اور قرآن کے مکمل نزول کا وقت تئیس سال کا ہے جو ایک ایسے انجان جزیرہ پر نازل ہوا جہاں کسی تہذیب کا کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں تھا نہ ہی کوئی ریاست تھی. خیموں میں، کچے گھروں میں رہنے والے دیہاتی لوگ بستے تھے جن کی زندگیوں میں کوئی خاص ہلچل بھی نہیں تھی. اب اصولاً ایسی جگہ پر قرآن کا ایک عام انسان کے ذریعے نزول کے باعث اس میں وہ عالمگیریت کا عنصر نہیں ہونا چاہیے تھا جو کہ ہے اور نہ ہی ایسا اثر ہونا چاہیے تھا کہ پورا براعظم ہل جائے جو کہ ہوا.

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم مکہ میں صحابہ کرام کے ساتھ بیٹھ کر انہیں الله تعالی کے وعدوں کے بارے میں بتاتے تھے جیسے کہ رومیوں اور فارسیوں کی حکومتوں کا گرنا اور مسلمانوں کا فاتح ہونا اور اسلام کا ہر جگہ پھیلنا واقع ہو گا تو وہ کیا منظر ہو گا. ان اٹھارہ، انیس سالہ نوجوانوں کی کیا سوچ ہو گی جو کعبہ میں نماز پڑھنے پر مار بھی کھا لیتے ہیں پر کبھی اف نہیں کرتے. جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم سخت دھوپ میں بیٹھے ان صحابہ کرام کو فرماتے ہیں کہ خواہ آپ لوگوں کے گھر بار نہیں رہے اور آپ لوگوں کو اسلام کی خاطر جسمانی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں مگر آپ گھبرائیں نہیں کیونکہ ایک دن ہم رومیوں کو، فارسیوں کو شکست دیں گے. اور جواب میں سب اس بات پر یقین کرتے ہیں. کمال لوگ تھے نا وہ.

میں چاہتا ہوں کہ آپ تاریخی اعتبار سے نزولِ قرآن کے تئیس سالوں کا جائزہ لیں. کئی روایات ہزاروں سالوں سے آج تک جاری ہیں جیسے کہ ہماری مذہبی رسومات، اخلاقی روایات، ثقافتی رسومات وغیرہ جو راتوں رات تبدیل نہیں ہوتے. اگر کوئی معاشرہ سالہاسال سے عورت کے ساتھ کسی مخصوص برتاؤ کا عادی ہے تو اس عادت کی تبدیلی کے لیے بھی ایک لمبا عرصہ درکار ہوگا. اکثر ایسی تبدیلیاں غیر ملکی اثر و رسوخ سے ہی وقوع پذیر ہوتی ہیں. جیسے کہ آجکل دنیا بہت تبدیل.ہو رہی ہے، جدید ہو رہی ہے. ہمارے دادا پردادا کے جو رکھ رکھاؤ تھے وہ ہم میں نہیں پائے جاتے. آج کل پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سوڈان، جورڈن اور مصر وغیرہ میں مرد و عورت کے آپس میں معاملات کے جو طریقے آجکل رائج ہیں یہ آج سے اسی سال پہلے تک نہیں تھے. ایسا بدلاؤ اسی صورت آتا ہے جب مختلف عوامل میں باہری دنیا کا بہت زیادہ اثر و رسوخ شامل ہوتا ہے. 

رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس زمانے میں اہم تبدیلی لانے والے تھے. کیا اس تبدیلی میں کوئی باہری دنیا کا اثر شامل تھا؟ نہیں. بلکہ وہ تو صرف قرآن کے ذریعے ہی یہ کام کرنے والے تھے. اب دیکھیں کہ ان تئیس سالوں میں کیا تبدیلیاں آئیں. لوگوں کے نہ صرف کھانے پینے کے انداز و اطوار تبدیل ہوتے ہیں بلکہ ان کے سونے، جاگنے، طہارت، شادی کی رسومات، طلاق کے طریقے، ان کی محبت، نفرت، دیکھنے، بولنے تک کے انداز، دوست، دشمن تک بھی بدل جاتے ہیں. یعنی تئیس سالوں میں ہر چیز تبدیل ہو کر رہ گئی. جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لائے ان کی زندگی کا کوئی بھی ایسا پہلو خواہ ثقافتی ہو یا سماجی، مذہبی ہو یا مالی یا سیاسی جو پورے کا پورا تبدیل نہ ہو گیا ہو. ان تئیس سالوں میں معاشرہ میں ہر ممکن تبدیلی وقوع پذیر ہوئی جس نے سب کچھ بدل دیا سوائے ان کی زبان کے.

صدیوں سے عربوں کو اپنی زبان میں کی جانے والی شاعری پر فخر تھا پر اس تبدیلی کے بعد تقریبا ایک صدی تک کسی کو شاعری لکھنے کا خیال بھی نہ آیا. بس جو نسلوں تک منتقل ہوتا گیا وہ قرآن اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت تھی. ایک زمانے میں آ کر عربوں کو خیال آیا کہ اگر عربی شاعری نہ کی گئی تو ان کی زبان اپنا درجہ نہ کھو بیٹھے. کسی بھی زبان میں شاعری کا ایک تاریخی مقام ہوتا ہے جو اس زبان کی ترقی و ترویج جاننے میں مدد کرتا ہے. اسلام کی اشاعت زور وشور سے جاری تھی مختلف دنیا سے لوگ اسلام میں داخل ہوتے جا رہے تھے اور عرب میں خوب آنا جانا لگا ہوا تھا اور ایسی صورت حال میں مختلف زبانوں کے آ جانے سے علاقائی زبان دبنے لگتی ہے. عربی زبان نتیجے میں ویسی خالص نہ رہی تھی جیسی تھی. تو اس زبان کی بقاء کے لیے الگ سے کوششیں کی گئیں. علماء، تابع تابعین کو عرب کی ایسی جگہوں پر جانا پڑا جہاں ابھی تک باہری دنیا کا کوئی رسوخ نہ تھا تاکہ قدیم عربی زبان کی شاعری کو سیکھ سکیں اور اسے لکھ سکیں. یہ سب اس لیے کرنا پڑا کیونکہ عربی زبان ہی تو عربوں کی پہچان تھی. 

اب اس انقلاب کا دنیا میں آنے والے کسی بھی انقلاب سے تقابلی جائزہ لیں اگرچہ قرآن کی لائی تبدیلی کو انقلاب کہنا مناسب نہیں لگتا. دنیا میں کئی انقلاب آئے جیسے ٹیکنالوجی کا انقلاب، عورتوں کے حقوق کا انقلاب، سیاسی انقلابات، روس میں پچھلی صدی میں انقلاب آیا، کچھ صدیوں پہلے فرانس، امریکہ میں انقلاب آئے غرض کہ دنیا میں کئی طرح کے انقلابات وقوع پذیر ہوئے. کچھ باتیں نوٹ کریں. اکثر جب انقلاب رونما ہو جاتا ہے تو دیکھیں کہ کتنا خون بہا؟ اس کے بعد بھی کیا لوگ اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں پرانی عادتوں سے ہی لگاؤ رکھتے ہیں؟ اب یا تو ماحولی تبدیلی نظر آتی ہے یا پھر سیاسی. اکثر مذہبی، سماجی اخلاقیات وہیں کی وہیں ہوتی ہیں. مگر جب اسلام آتا ہے تو آپ یہ نہیں دیکھتے کہ کیا تبدیلی آئی بلکہ آپ دیکھتے ہیں کہ کہاں تبدیلی رہ گئی ہے. 

آپ کوئی ایک عدد ایسا مسودہ دکھا دیں جو معاشرے میں اس قدر تبدیلی لایا ہو جو قرآن مجید تئیس سال کے مختصر عرصے میں لایا ہے. جدید مغربی معاشرے میں جو سب سے بڑی انقلابی تبدیلی دیکھی گئی وہ تھی فرانسیسی انقلاب جس نے مذہبی رسومات پر کاربند معاشرے کو ایک لادین معاشرے میں بدل کر رکھ دیا. شاید ہم آج بھی اسی دور میں جی رہے ہیں، لادینیت کو سراہا جاتا ہے. اب وہ انقلابی تبدیلی بھی کچھ فلاسفی لکھاریوں کی تحاریر سے وجود میں آئی. وہ لکھاری جو کھلے عام اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتے تھے اس لیے کتابوں، کہانیوں،فلسفے کی آڑ لیتے تھے. یہ لوگ فقط فلاسفرز تھے کسی مقصد کے داعی نہیں. انہیں کسی مقصد کے لیے جان دینے کا شوق نہ تھا ان کا دائرہ وسعت بس لکھنے لکھانے تک ہی تھا. ان کا المیہ تو یہ بھی تھا کہ ان کے خیالات کو اکثر کے مرنے کے بعد جامع عمل میں لایا گیا. جیسے مارکس کے پیروکاروں نے مارکس کو دیکھا بھی نہ تھا بس اس کی کتابوں سے واقف تھے.

جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی، انہوں نے معاشرے میں تبدیلی کا مطالبہ کیا اور انہوں نے اپنی یہ جنگ خود لڑی. اس سے پہلے آج تک ایسا نہیں ہوا تھا کہ ایک نظریے کو عملی جامہ پہنانے تک ایک ہی دانشور کی مکمل جدوجہد ہو. اگر آپ رسول اللە صلی الله علیہ وسلم کو فلاسفر کہنا چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ تبدیلی حالات کا نظریہ ان کا اپنا ذاتی نہیں تھا بلکہ انہیں یہ مقصد دیا گیا تھا. عمومی طور پر یہی ہوا ہے کہ نظریہ کی بنیاد رکھنے والے لوگ کہیں پیچھے ہی رہ جاتے ہیں اور آگے بڑھ کر اسے عمل میں لانے والے جوان اور ہی ہوتے ہیں. عرب میں تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نہ صرف خود ہی اس نظریے کو سب کے سامنے پیش کرنے والے تھے بلکہ اس تحریک کے سیاسی، سماجی، ثقافتی، روحانی ہر صلاحیت میں خود ہی لیڈر تھے. ایسا تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا.

میں نے اپنے تاریخ کے اطالوی پروفیسر سے مطالبہ کیا تھا کہ مجھے ایسی کوئی مثال تاریخ میں سے بتا دیں. میں ان کی کلاس میں جاتا ہی اس لیے تھا کہ مجھے ان کی حرکتیں بے وقوفانہ لگتی تھیں جن کا مزہ آتا تھا. ان کا پہناوا، ان کا چلنا اور ان کی باتیں بہت عجیب ہوتی تھیں. میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا آپ تین دیہائیوں یا اس سے مختصر وقت میں رونما ہونے والا کوئی تاریخی واقعہ بتا سکتے ہیں جس نے لوگوں کی ذاتیات سے لے کر معاشرے کے ہر معاملہ کو بدل ڈالا ہو؟ تبدیلی کبھی سماجی لیول پر آتی ہی کبھی ذاتی. جیسے کہ موبائل آلات نے انسانی کے اندر ذاتی حد تک بہت تبدیلی لائی ہے یہ ذاتی لیول تک کا انقلاب ہے. مگر کسی اقتصادی پالیسی کے تحت آنے والی تبدیلی سماجی حد تک بھی ہو سکتی ہے. 

قرآن اور اسلام نے انسانیت کو ڈرامائی حد تک تبدیل کر کے رکھ دیا. ذاتی طور پر بھی اور سماجی طور پر بھی. ذاتیات پر آئیں تو اس قدر چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی فوکس کرنے کو کہا گیا کہ جب انسان بیت الخلا میں داخل ہو تو پہلا قدم کونسا رکھے، کھانا کھاتا ہوئے آپ کو کس ہاتھ کو استعمال کرنا چاہیے، نکاح میں داخل ہوتے وقت آپ کو کیا کہنا چاہیے، کسی سواری پر سوار ہوتے ہوئے آپ کو کیا کرنا چاہیے. مختصراً انسانی زندگی کا کوئی ایسا چھوٹے سے چھوٹا پہلو بھی نہیں بچا تھا جسے اسلام نے تبدیل نہ کیا ہو. 

ان سب باتوں کے بادجود جب قرآن کہتا ہے کہ آپ اس جیسے ایک سورہ ہی بنا لاؤ اور آپ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آپ کو بہت مبارک ہو پھر. مگر ایک بات بتائیں کہ اس کا انسانیت پر کیا اثر و رسوخ ہو گا؟ قرآن صرف ایک مسودہ ہے جو کہ بائبل کے جتنا موٹا بھی نہیں مگر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لائبریریوں کا حال دیکھیں. قانون، ادب، فلاسفی، تاریخ وغیرہ پر ڈھیروں ڈھیر مواد، ادب جو بھی موجود ہے وہ سب دراصل قرآن کی ہی ضمنی پیداوار ہیں. سبحان الله۔

جاری ہے ۔۔۔۔ 


تبصرے میں اپنی رائے کا اظہار کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں