"مکمل حق"
اقتباس " تفسیر سورۃ العصر"
کسی بھی جھگڑا یا لڑائی کے دوران ایک مہذب اور عقل مند انسان (مومن یا کافر) کا رویہ کیا ہوتا ہے؟ وہ کیا کرتا ہے؟
1: سب سے پہلے وہ کوشش کرتا ہے معاملے کے حقائق جاننے کی۔ وہ سچ کی کھوج لگاتا ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔
2: پھر جب اس کو سچ کا پتا چل جاتا ہے تو عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ اب وہ عمل بھی اس سچ کے مطابق کرے۔ یعنی اب اس کا پتا چل گیا ہے سچ کیا ہے، تو وہ اسی کے مطابق فیصلہ کرے گا نا۔
3: ایک عقل مند انسان جب جان جاتا ہے کہ سچ کیا ہے اور پھر اس پر عمل کرتا ہے، اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور اس کے مطابق اپنی سوچ بدلتا ہے، تو پھر وہ دوسروں کو بھی بتاتا ہے کہ یہ سچ ہے۔ آجکل ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں "M.Y.O.B" فارمولہ چلتا ہے، یعنی مائنڈ یور اون بزنس۔ لیکن یہ کوئی بہت اخلاقی طریقہ نہیں ہے۔ تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیں، (کیونکہ یہاں ہم ساری انسانیت کی بات کررہے ہیں تو ایک نان مسلم کی مثال لیتے ہیں)۔ گاندھی کی مثال لیں۔ اسکو جب اندازہ ہوا کہ اسے انگریزوں کی غلامی سے آزادی چاہئے، تو کیا بس وہ اس بات کو مان کر بیٹھ گیا؟؟ نہیں۔ اس نے ساری ہندوستان کے ہندوؤں تک اپنی بات پہنچائی اور ان کو منانے کی کوشش کی۔ اسی طرح جب ایک انسان نے سوچا کہ جانوروں کا گوشت کھانا ان کے ساتھ ناانصافی ہے تو کیا اس نے اسی سوچ پر بس کیا؟ یا خود عمل کرکے خاموش ہوکر بیٹھ گیا؟؟ نہیں۔۔۔ اس نے اپنی سوچ دوسروں تک پہنچائی۔ ان کو قائل کرنے کی کوشش کی اور یوں آج کتنے ہی لوگ ویجیٹیرئینز ہیں۔ اسی طرز عمل سے دنیا میں بڑے بڑے انقلاب آئے ہیں۔
4: اب آپ دیکھیں، کیا ان لوگوں نے جنہوں نے دوسروں کی سوچ کو بدلا، انہوں نے ایک بار کہا اور سب مان گئے؟ نہیں۔ انہوں نے یقینا بہت صبر سے کام لیا ہوگا۔ ان کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ لیکن انہوں نے صبر کیا ہوگا۔
اور پھر تاریخ نے انہی لوگوں کو "ہیرو" لکھ کر آنے والی نسلوں کو بتایا۔
اب آپ دیکھیں، سورہ العصر ہمیں کیا بتاتی ہے۔
تمام انسان خسارے میں ہیں، سوائے ان کے
1: جو ایمان لائے (حق کو جانا)،
2:نیک عمل کرتے رہے(حق کے مطابق فیصلے کئے)
3: حق کی تلقین کرتے رہے (حق کا پیغام دوسروں کو بھی دیا)
4: صبر کرتے رہے (حق کا پیغام دینے پر ملنے والے ری ایکشن پر صبر کرنا)
یہی وجہ ہے کہ اسلام کو فطرت کا دین کہا جاتا ہے۔ اسلام ہمیں کچھ انوکھا کرنے کو نہیں کہتا۔
اب آپ یہ دیکھیں جن لوگوں کی اوپر بات کی گئی، ان لوگوں نے "حق" کو جانا۔ وہ کسی بھی طرح کی بات تھی، لیکن ان کے مطابق وہی "حق" تھا۔ اور اگر فرض کریں کسی ایک کی بات حق تھی بھی، تو وہ پورا اور مکمل "حق" نہیں تھا۔
اسلام ہمیں پورا حق، پوری سچائی بتاتا ہے۔ اس دنیا و آخرت کی۔
تو جب وہ آدھا ادھورا سچ مان کر اس پر عمل کرنے والے ہیرو بنے، تو آپ جب "مکمل حق" پر ایمان لا کر اس کے مطابق عمل کریں گے، اس کی تلقین کریں گے اور صبر کریں گے تو ہی آپ خسارے سے باہر آئیں گے۔
ورنہ اللہ نے صاف بتا دیا کہ جو یہ چار کام (اور چاروں کے چاروں) نہیں کرتے وہ خسارے میں ہیں۔ اور اللہ کی بات سے زیادہ سچی بات کس کی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں