شرعی احکامات کی فوری تعمیل۔۔۔ اقتباس از خطبہ جمعہ مسجد نبوی

28 اپریل 2017

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 02-شعبان- 1438 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان ”شرعی احکامات کی فوری تعمیل، ضرورت اور فوائد“ ارشاد فرمایا، جس سے منتخب اقتباس درج زیل ہے

مسلمانو! میں تمہیں اور اپنے آپ کو تقوی الہی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں، یہی اللہ تعالی کی گزشتہ اور پیوستہ سب لوگوں کے لیے تاکیدی نصیحت ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ہونے والی حیرت انگیز ترقی کے سائے تلے منہجی غلطیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں، لوگوں میں دین اور اعلی اخلاقی اقدار کے خلاف خطر ناک امور سامنے آ رہے ہیں، اور حقیقت یہی ہے کہ جب بھی وحی سے ہٹ کر اظہار رائے اور فکر پیش کرنے کا موقع انسان کو دیا جائے تو ایسے ہی ہوتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کو آج کل صحیح معیار کی ضرورت ہے جس کی بنا پر وہ اچھی اور بری چیز میں فرق کر سکیں تو اس کیلیے ان کے پاس -الحمد للہ-اللہ تعالی کے مقرر کردہ ٹھوس قوانین اور ضابطے ہیں ، ان کی بدولت مسلمان ہمہ قسم کی زہریلی سوچ اور گمراہ منہج سے محفوظ رہ سکتے ہیں، چنانچہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ نے ایسے ٹھوس ضابطے مقرر کئے ہیں کہ جن سے محفوظ ترین راستہ اور مضبوط ترین منہج روشن ہو گیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: لوگو ! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل آ چکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف نور مبین نازل کیا ہے، اب جو لوگ اللہ پر ایمان لے آئے اور اس کو مضبوطی سے تھامے رہے انہیں اللہ اپنی رحمت اور فضل میں شامل کرے گا اور اپنی طرف آنے کی سیدھی راہ دکھا دے گا۔ [النساء: 174، 175]

اس لیے زندگی میں بد بختی کا خاتمہ اور دنیا و آخرت میں مشکلات سے چھٹکارا اسی وقت حاصل ہو گا جب مسلمان اپنے پروردگار کی کتاب اور اپنے نبی ﷺ کی سیرت کے تابع ہو جائیں گے۔

اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی اور تعظیم مسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے۔ مسلمانوں کے لیے خلوت و جلوت، تنگی و آسانی، چار و ناچار، خوشی غمی، فراوانی اور بے سروسامانی ہر حالت میں اللہ تعالی کو اپنا نگران اور نگہبان سمجھنا ضروری ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے: کسی مؤمن مرد اور مؤمن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ کر دے تو ان کے لئے اپنے معاملہ میں کچھ اختیار باقی رہ جائے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ یقیناً صریح گمراہی میں جا پڑا۔ [الاحزاب: 36] یہ آیت ہم سنتے اور پڑھتے تو ہیں لیکن اس آیت کی معنی خیزی اور نکات سے بہرہ ور نہیں ہوتے،

اس آیت کریمہ میں ہمارے پروردگار کی جانب سے ذکر کیا گیا ہے کہ ایمانی تقاضوں، ایمانی صفات اور ارکان کا یہ بھی تقاضا ہے کہ: حصولِ رضائے الہی کے لیے فوری عمل کریں، رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے رہنمائی لیں، ہر وقت اور لمحے میں اللہ تعالی کے احکامات اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین کی تابع داری اور فرماں برداری کریں، یہاں تک کہ بندے کیلیے حکمِ الہی اور امرِ رسول ﷺ نافذ کئے بغیر کوئی گنجائش ہی نہ رہے، چاہے حکم عدولی کی صورت میں کتنے ہی پر کشش اور من پسند نتائج موجود ہوں؛

احکاماتِ الہیہ اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین کی تعمیل، فوری بجا آوری اور تعظیم کے سلسلے میں صحابہ کرام اور تابعین عظام سے بہت واقعات منقول ہیں، ان میں ہمارے لیے شریعت پر پابندی اور شریعت کی مخالفت سے خبردار رہنے کے لیے کافی نصیحت ہے۔

جہاں اللہ تعالی نے کھڑے ہونے کا حکم دیا اس امت کے سلف صالحین وہیں کھڑے ہوگئے، انہوں نے اپنے لیے اسی چیز کا انتخاب کیا جو اللہ تعالی اور شریعتِ الہیہ کے مطابق تھی؛ چنانچہ اس بنا پر انہوں نے دنیاوی خیر و بھلائی سمیٹی اور آخرت میں رضائے الہی کے مستحق ٹھہرے، اب اگر کوئی شخص یہی نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ بھی انہی کے راستے پر چلے، انہی کا طریقہ اپنائے۔

ہر مسلمان پر یہی سلیقہ اور طریقہ اپنانا ضروری ہے، ایسے نہ کرے کہ وحی سے منہ موڑتے ہوئے ادھر اُدھر سے ضابطے اور دستور لے، اور اپنے اس عمل کو بوسیدہ دلائل سے مضبوط کرنے کی کوشش کرے، جو لوگ اس فاسد منہج پر عمل پیرا ہیں ان کی پیش کردہ دلیلیں انتہائی کمزور ہوتی ہے اور انسان کو بہت جلد ہی ان کے بودے پن کا احساس ہو جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے معاشروں پر کتنے منفی اثرات مرتب ہو تے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام نے جو منہج اپنایا، اس کی وجہ سے پوری دنیا منور ہوگئی؛ کیونکہ صحابہ کرام کا منہج یہی تھا کہ وحی میں ذکر ہونے والی تعلیمات پر مکمل عمل ہو، چنانچہ جس وقت شراب کی کلّی حرمت کا حکم آیا اور اس کے آخر میں تھا کہ: تو کیا تم باز آنے والے نہیں؟[المائدۃ: 91] چنانچہ جب یہ آیات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پڑھی گئیں تو انہوں نے کہا: ہم باز آ گئے، ہم باز آ گئے. اور صحابہ کرام نے شراب راستوں میں انڈیل دی بلکہ شراب کے برتن بھی توڑ دیے اور شراب نوشی سے یکسر باز آ گئے، اس طرح انھیں دونوں جہانوں میں کامیابیاں میسر آئیں۔

وحی پر ہوس اور عقل کو ترجیح دینے سے بندوں کے لیے اللہ تعالی کے انتخاب سے روگردانی جنم لیتی ہے؛ حالانکہ اللہ تعالی کو اپنے بندوں کے بارے میں زیادہ علم ہے؛ یہی وجہ ہے کہ جب لوگ وحی پر عقل کو ترجیح دینے لگیں اور اس گھٹیا پن کو اختیار کریں تو وہ دین میں مذموم بدعات پیدا کرنے لگ جاتے ہیں، یا دین میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، یا پھر انتہا پسندی اور غلو میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک چیز رب العالمین کی شریعت میں مذموم اور قبیح ترین فعل ہے؛ اس لیے یہ امر از بس ضروری ہے کہ مسلمانوں کی عبادات اور نظریات ہر چیز شریعت اور مقاصدِ شریعت کے عین مطابق ہو۔

یا اللہ! ہم تجھ سے تیرے اسمائے حسنی اور اعلی صفات کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں کہ: مسلمانوں پر اپنی طرف سے اتنی رحمت نازل فرما کہ انہیں تیرے سوا کسی کی ضرورت نہ رہے، آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں