دل کی بیماری (غفلت)
اقتباس " خطبہ جمعہ مسجد نبوی"
05 مئی 2017
ضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 09-شعبان
- 1438 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "غفلت سے تحفظ حاصل کریں"
ارشاد فرمایا ۔ جس کا اقتباس درج ذیل ہے:
دلوں کیلیے بہتری کا باعث بننے والی چیزوں سے دلوں کی اصلاح کرو اور دلوں
کو گدلا کرنے والی چیزوں سے اسے بچاؤ؛ کیونکہ دل دیگر تمام اعضا کا سلطان
ہے، جیسے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (خبردار! جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح
ہو تو مکمل جسم صحیح ہے اور جب وہی خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا
ہے، خبردار! وہ لوتھڑا دل ہے) بخاری و مسلم نے اسے نعمان بن بشیر رضی اللہ
عنہ سے روایت کیا ہے۔
کیا آپ کو دلوں کی سب سے بڑی بیماری کا علم ہے؟ یہ بیماری جسے لگ جائے تو
وہ خیر کے تمام مواقع سے محروم ہو جاتا ہے، یا بہت سے خیر کے مواقع سے ہاتھ
دھو بیٹھتا ہے! دلوں کی سب سے بڑی بیماری غفلت ہے، دلوں پر اچھی طرح چھائی
ہوئی غفلت وہ ہے جن کی وجہ سے کفار اور منافقین بد بختی میں مبتلا ہیں،
یہی غفلت ان کیلیے جہنم میں دائمی جلنے سڑنے کا باعث بنے گی، فرمانِ باری
تعالی ہے: { مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ
أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ
بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ
عَظِيمٌ (106) ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا
عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
(107) أُولَئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ
وَأَبْصَارِهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ}
جو شخص ایمان کے بعد اللہ
سے کفر کرے ما سوائے اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر
برقرار ہو ، مگر جو کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی
کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ [106] اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت
سے زیادہ محبوب بنایا، یقیناً اللہ تعالی کافر لوگوں کو راہ راست نہیں
دکھاتا [107] یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں ،کانوں اور جن کی آنکھوں پر مہر لگا
دی گئی ہے اور یہی لوگ غافل ہیں ۔[النحل: 106 - 108]
غفلت مسلمان سے بھی ہو سکتی ہے کہ خیر کے کچھ کاموں سے غافل ہو جائے یا
اپنے فائدے کے اسباب نہ اپنائے اور نقصانات سے بچاؤ کیلیے اقدامات نہ کرے،
تو ایسا کرنے پر غفلت کے برابر وہ ثواب سے محروم رہتا ہے، اور اتنی ہی
مقدار میں اسے تنگیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
{ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (39) وَأَنَّ سَعْيَهُ
سَوْفَ يُرَى(40) ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَى }
اور انسان کو
صرف وہی ملے گا جس کی اس نے کوشش کی [39] اور اس کی کوشش عنقریب ملاحظہ کر
لی جائے گی [40]پھر اسے مکمل بدلہ دیا جائے گا۔[النجم: 39- 41]
غفلت اسے کہتے ہیں کہ: اچھا کام کرنے کا ارادہ کیا جائے اور نہ ہی اچھے
کاموں سے لگاؤ ہو، مزید بر آں دل میں علم نافع اور عمل صالح بھی نہ ہو، یہ
ٖانتہا درجے کی غفلت ہے جو کہ تباہی کا سبب ہے، ایسی غفلت کفار اور منافقین
میں پائی جاتی ہے، جس سے بچاؤ اور خلاصی صرف توبہ کی صورت میں ہے۔ انسان
پر ایسی غفلت غالب آ جائے تو انسان صرف گمان اور ہوس کے پیچھے ہی چلتا ہے،
شیطان برائیاں مزین کر کے دکھاتا ہے اور من مانیاں اس کے دل میں ڈال دیتا
ہے، یہ ہے وہ غفلت جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے منافقوں اور کفار کو دنیا و
آخرت میں سزا دی۔
فرمانِ باری تعالی ہے: {وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ
ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا}
اور آپ اس کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور وہ ہوس پرستی میں مبتلا ہے اور اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔[الكهف: 28]
مفسرین اس آیت کے مفہوم کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: "آپ ایسے شخص کے پیچھے مت لگیں جس کے دل کو ہم نے قرآن اور اسلام سے غافل کر دیا ہے اور اس کا معاملہ اب تباہی اور بربادی ہے"
جبکہ مسلمان کی غفلت یہ ہوتی ہے کہ وہ چند ایسے نیک کاموں سے غافل ہو جاتا ہے جن کا ترک کرنا اسلام کے منافی نہیں ہوتا ، یا ایسے گناہوں میں وہ ملوث ہو جاتا ہے جو کفریہ نہیں ہوتے، اسی طرح مسلمان گناہوں کی سزاؤں سے غافل ہو جاتا ہے۔
مسلمان کے غافل ہونے کا نقصان اور خمیازہ بہت سنگین ہوتا ہے، اس کے خطرناک نتائج تباہی کا باعث بن سکتے ہیں، غفلت کی وجہ سے مسلمان کیلیے بھلائی کے دروازے بند ہو سکتے ہیں۔
اور آپ اس کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور وہ ہوس پرستی میں مبتلا ہے اور اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔[الكهف: 28]
مفسرین اس آیت کے مفہوم کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: "آپ ایسے شخص کے پیچھے مت لگیں جس کے دل کو ہم نے قرآن اور اسلام سے غافل کر دیا ہے اور اس کا معاملہ اب تباہی اور بربادی ہے"
جبکہ مسلمان کی غفلت یہ ہوتی ہے کہ وہ چند ایسے نیک کاموں سے غافل ہو جاتا ہے جن کا ترک کرنا اسلام کے منافی نہیں ہوتا ، یا ایسے گناہوں میں وہ ملوث ہو جاتا ہے جو کفریہ نہیں ہوتے، اسی طرح مسلمان گناہوں کی سزاؤں سے غافل ہو جاتا ہے۔
مسلمان کے غافل ہونے کا نقصان اور خمیازہ بہت سنگین ہوتا ہے، اس کے خطرناک نتائج تباہی کا باعث بن سکتے ہیں، غفلت کی وجہ سے مسلمان کیلیے بھلائی کے دروازے بند ہو سکتے ہیں۔
غفلت حقیقت میں تمام برائیوں کی جڑ ہے، غفلت کی وجہ سے مسلمان بہت سے اجرو
ثواب سے محروم رہ جاتا ہے، مسلمان کے اجر و ثواب میں کمی غفلت کی وجہ سے ہی
آتی ہے، لہذا غفلت سے نجات میں سعادت ہے، بندگی کے اعلی درجوں تک جانے
کیلیے غفلت سے دوری لازمی امر ہے، یہی وجہ ہے کہ غفلت سے بچاؤ کی صورت میں
دنیاوی سزاؤں سے تحفظ ملتا ہے اور مرنے کے بعد دائمی نعمتیں بھی حاصل ہوتی
ہیں۔
غفلت سے بچاؤ اسی وقت ممکن ہے جب غفلت کے اسباب سے ہم دور رہیں اور انسان کو دھوکے میں ڈالنے والی دنیا کی جانب مائل نہ ہوں۔
غفلت سے بچاؤ اسی وقت ممکن ہے جب غفلت کے اسباب سے ہم دور رہیں اور انسان کو دھوکے میں ڈالنے والی دنیا کی جانب مائل نہ ہوں۔
٭- غفلت سے بچاؤ کیلیے معاون چیز یہ بھی ہے کہ نماز با جماعت کا اہتمام خشوع اور حاضر قلبی کے ساتھ کیا جائے
٭- ہر حال میں اللہ کا ذکر بھی غفلت سے نجات دہندہ ہے
٭- قرآن کریم کی تلاوت بھی غفلت سے بچاتی ہے
٭- علمائے کرام اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے سے بھی انسان کو غفلت سے تحفظ ملتا ہے
٭- لہو و لعب ، فسق و فجور اور برے دوستوں کی محفل سے دوری بھی غفلت سے بچاؤ کا سبب ہے
٭- فانی دنیا سے آشنائی بھی غفلت سے نجات کیلیے معاون ثابت ہوتی ہے، اگر اس کی
رنگ رنگینیوں سے دھوکا نہ کھائیں اور آخرت کو مت بھولیں تو انسان غفلت سے
بچ جاتا ہے، دنیا کی محبت بہت سے لوگوں کو آخرت اور راہِ ہدایت پر چلنے سے
روکتی ہے۔
٭- مسلمان کو غفلت اور غفلت کے مضر اثرات سے محفوظ کرنے کا سب سے عظیم سبب:
موت اور اس کے بعد ہونے والے امور کی یاد دہانی ہے؛ کیونکہ موت بلیغ ترین
نصیحت ہے، موت دیکھی سنی چیز ہے، اسے یقینی طور پر چکھنا ہے، موت اچانک آتی
ہے، اور یقینی طور پر آ کر رہتی ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے
ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (لذتوں کو پاش پاش کر دینے والی یعنی موت کو
کثرت سے یاد کیا کرو) ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے۔
لہذا جو شخص موت کو جتنا یاد رکھے گا اس کا دل اتنا ہی صاف ہو گا، اس کے اعمال پاکیزہ ہوں گے، وہ غفلت سے سلامت رہے گا۔
لہذا جو شخص موت کو جتنا یاد رکھے گا اس کا دل اتنا ہی صاف ہو گا، اس کے اعمال پاکیزہ ہوں گے، وہ غفلت سے سلامت رہے گا۔
انسان کی اصل عمر تو وہی ہے جو اطاعت کے کاموں میں گزر جائے، لہذا گناہوں میں گزرے لمحات تو زندگی کا خسارہ ہیں!!
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل کا سوال
کرتے ہیں، یا اللہ! ہم جہنم اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل سے
تیری پناہ مانگتے ہیں۔
یا اللہ! تمام معاملات کا انجام ہمارے لیے بہتر فرما، اور ہمیں دنیاوی رسوائی اور اخروی عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! تمام معاملات کا انجام ہمارے لیے بہتر فرما، اور ہمیں دنیاوی رسوائی اور اخروی عذاب سے محفوظ فرما۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں