رمضان ایک عبادت، ایک پیغام... حصہ پنجم
مصنف: حامد کمال الدین
اے اللہ ہمارے روزے قبول کرلے!!!
دوستو! انسان کا مقصود لامحدود ہے مگر اس کی ہمت بہت ہی محدود، جو جلد ہی جواب دے جاتی ہے ۔سو قبل اس کے کہ اس کی ہمت جواب دے جائے اسے امتحان سے نکال لیا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی امتحان دینا بھی چاہے تو قبول نہیں(اس کی اجازت صرف اللہ کے رسول کو تھی آپ سے بعض صحابہ نے غروب آفتاب کے بعد بھی روزہ جاری رکھنے کی اجازت چاہی تو آپ نے اجازت نہ دی)۔۔۔۔ روزہ دار کو بتا دیا جاتا ہے کہ سورج جب مغربی افق پر روپوش ہوجانے کا حکم پائے تو دنیا میں یہ اس کی بازیابی کا وقت ہے۔ اب وہ ایک لمحہ بھی تاخیر نہ کرے اور اپنے مالک کا رزق کھائے۔ بھوک اور فاقے سے جو بات وہ اپنے مالک کو بتانا چاہتا تھا اس کے مالک نے بس وہ بات سن لی۔اور اسے وہ بہت پسند آئی۔ اب یہ خاطر جمع رکھے اور مالک کی اجازت سے بلکہ اس کی فرمائش پر کچھ نہ کچھ ضرور کھائے! ویسے تو اپنی مرضی سے انسان کیا کچھ نہیں کھاتا۔ پر یہ انسان ہے جسے مالک نے خو د کہا ہے کہ کچھ اٹھا کرکھالو، اپنی خوشی سے کہا ہے، زور دے کرکہا ہے، بھئی نہ کھانے کی اجازت ہی نہیں! ہاں اب اس کھانے کی تو بات ہی اورہے! افطار کی یہ شان نرالی ہے! کھانا بھی اور ثواب بھی! دنیا بھی اور آخرت بھی!! یہ افطار کی خوشی دراصل روٹی پر ٹوٹ پڑنے کی خوشی نہیں۔ یہ تو منزل پر جا لگنے کی خوشی ہے۔ یہ مقصود کوپالینے کی خوشی ہے! یہ پار لگنے کی امید ہے! یہ خوشی کی آس لگ جانے کی خوشی ہے!!!
ذہب الظماءوابتلت العروق وثبت الاجر ان شا ءاللہ
”پیاس تھی سو گئی، رگوں میں جان آئی اور اللہ نے چاہا تو اجر پکا“!! زہے نصیب رزق بھی ملا اور معبود بھی!!! فسبحان اللہ رب العالمین!!
قارئین وقاریات!
آپ جب بندگی کی راہ پالیتے ہیں تو آپ کے قلب و ذہن میں اس سے ایک کیفیت جنم لیتی ہے اور آپ کے رویہ اور سلوک میں ایک تبدیلی رو پذیر ہوتی ہے۔ ایک اعلی اور پاکیزہ زندگی کا ایک تصور ابھرتا ہے۔ اس تبدیلی اور اس کیفیت کا نام تقویٰ ہے۔ اس اعلٰی اور پاکیزہ زندگی کا نام پرہیز گاری ہے۔ تقوی بندگی بھی ہے اور بندگی کا ثمر بھی۔
اسلام جس عبادت کاحکم دیتا ہے وہ رہبانیت کی طرح بانجھ نہیں جوانسان کی ذات میں اور اس کے گرد پھیلے معاشرے میں کوئی تبدیلی نہ لے آئے۔ عبادت تو ہے ہی شعور اور کردار میں تبدیلی لانے کے لئے۔ گو اس عبادت کا اپنالطف اور اس کا بجائے خود مطلوب ہونا اپنی جگہ برقرار ہے۔
چنانچہ ہدایت سے انسان میں بندگی آتی ہے اور بندگی سے تقویٰ ۔بھائیو رمضان کا بھی بس یہی پیغام سمجھو!
سورہ البقرہ میں جہاں روزے کے متعلق آیات ہیں اس سے کچھ پہلے ایک لمبی سی آیت بھی آتی ہے جو آیت البر کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں نیکی اور تقویٰ کی بہت خوبصورت وضاحت ہے ۔
تقوی کے اعمال جتنی بھی وضاحت سے بیان کردیئے جائیں پھر بھی یہ تقویٰ کے بس مظاہر ہیں،مظاہر میں حقیقت کا رنگ بھرنا اور ظاہرمیں باطن کا شعور پیدا کرنا پھر بھی باقی ہے اور مو ت تک موقوف نہیں ہوتا۔
گناہوں سے بچنا ،اللہ کے ناراض ہوجانے سے ڈرنا ، جہنم سے خوف کھانا، گھٹیا حرکت سے پرہیز کرنا، برائی سے اجتناب کرنا، بلکہ برائی کو مٹانے کے درپے ہونا، دنیامیں فساد کو ختم کرنا، بے حیائی سے گھن کھانا، شرک سے نفرت کرنا، کفر کی راہ روکنا، طاغوت سے لڑنا، باطل سے دشمنی کرنا، پھر دوسری جانب نیکیوں کی حرص، جنت کی طلب ، اچھائیوں کی تلاش ، حق کی دریافت، علم کا حصول، اعلی ظرفی اور بلند خیالی ، حیا کاپاس، اللہ کی محبت کے راستوں کی تلاش ، اللہ کے دین کا تحفظ اور اشاعت ، اس کی راہ میں جہاد، شہادت کی آرزو، حق کاقیام، ایفائے عہد ،دیانت داری، خدا ترسی ، انسانوں سے بھلائی، مخلوق کی خیر خواہی ،پڑوسی سے احسان، مومنوں سے پیار، صلہ رحمی، بھوکوں کوکھلانا، پیاسوں کو پلانا، یتیموں اور بیواؤں کاسہارا بننا، مظلوم کی داد رسی اور ظالم کا ہاتھ توڑنا ،لڑنے والوں میں صلح کرانا، بیماروں کی خبر گیری ، راہگیروں سے نیکی، مسلمانوں کوسلام کرنا، مسکرا کرملنا، گرمجوشی سے مصافحہ کرنا، امت محمد کےلئے سوچنا اورپریشان ہونا، امت کی خدمت و اصلاح، اس کی بہتری اور بہبود کےلئے دوڑ دھوپ اور اس کو گمراہی سے بچانا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ یہ سب نیکی اور تقویٰ کے مظاہر ہیں۔ تقوی ہوگا تو دل میں__جیسا کہ اللہ کے رسول نے فرمایا ہے __ کیونکہ یہ بنیادی طور پر قلب و شعور کی ایک کیفیت کا نام ہے، پر اس کا اظہار یونہی عمل اور کردار سے ہوگا،جہاد سے ہوگا اوراللہ کے راستے میں اپنا مال، اپنا وقت اور اپناآپ لٹانے سے ہوگا۔
روزہ اگر عادت نہیں بلکہ عبادت ہے تو اس سے اور نیکیاں ضروری پھوٹنی چاہئیں ۔ برائی ختم ہونی چاہیے۔ انسان کی اپنی ذات میں بھی اور معاشرے میں بھی۔ روزہ اگر روزہ ہے تو اس سے تقویٰ برآمد ہونا چاہیے ورنہ یہ روزہ بانجھ ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں