فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان حفظہ اللہ نے 23-شعبان- 1438 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان “ماہ رمضان نیکیوں کی بہار” ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ ماہ رمضان کو اللہ تعالی نے نیکیوں کا بہار بنایا ہے اور ایک بار پھر زندگی میں اسے پانے کی سعادت نصیب کی، لہذا اس ماہ میں عبادات کے لیے کمر کس لیں اور اپنے آپ کو بخشے ہوئے لوگوں میں شامل کروا لیں۔ مکمل خطبے سے منتخب اقتباس درج ذیل ہے:
تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں اس نے رمضان میں قرآن نازل فرمایا جو : تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے نیز اس میں ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے واضح دلائل بھی ہیں [البقرة: 185] اللہ تعالی نے ماہ رمضان کو تمام مہینوں اور اوقات پر فضیلت والا بنایا، میں حق سچ اور ایمان پر مبنی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں،
اللہ کے بندو میں آپ سب کو خلوت و جلوت میں تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں، اللہ تعالی نے پہلے گزر جانے اور بعد میں آنے والے سب لوگوں کو اسی کی نصیحت فرمائی ہے: اور یقیناً ہم نے تم سے پہلے کتاب دیئے جانے والے لوگوں کو اور تمہیں یہی نصیحت کی ہے کہ تقوی الہی اختیار کرو۔[النساء: 131]
اللہ کے بندو!
اللہ تعالی نے اپنی عنایتوں ،مہربانیوں اور بندگی کے لیے خصوصی بہاریں بنائی ہیں، ان میں رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور سب کو برکتیں ملتی ہیں، ان پاکیزہ بہاروں اور اوقات میں ایک ایسا مہینہ بھی ہے جس میں جہنم کے دروازے اچھی طرح بند کر دیے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے چوپٹ کھول دیے جاتے ہیں، یہ مہینہ انتہائی قریب آ گیا ہے اس کے شروع ہونے میں چند دن ہی باقی ہیں۔
اس لیے اب کمر کس لو! سستی اور کاہلی سے اپنے آپ کو بچاؤ، یہ گنتی کے دن ہیں، یہ کوئی لمبا چوڑا وقت نہیں ہے، اس معمولی وقت میں لہو و لعب میں پڑنے کی گنجائش نہیں ، اس میں سستی اور کاہلی کا کوئی موقع نہیں، یہ ماہ گناہوں اور برائیوں کے لیے نہیں ؛ کیونکہ اس میں کسی بھی عمل کا بدلہ بڑھا کر دیا جاتا ہے۔
اس ماہ کیلیے تیاری انتہائی ضروری ہے اور تیاری کیلیے سچی توبہ کے ساتھ تقوی مل جائے تو یہ بہترین زادِ راہ ہے: اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم متقی بن جاؤ۔[البقرة: 183]
اس لیے اب کمر کس لو! سستی اور کاہلی سے اپنے آپ کو بچاؤ، یہ گنتی کے دن ہیں، یہ کوئی لمبا چوڑا وقت نہیں ہے، اس معمولی وقت میں لہو و لعب میں پڑنے کی گنجائش نہیں ، اس میں سستی اور کاہلی کا کوئی موقع نہیں، یہ ماہ گناہوں اور برائیوں کے لیے نہیں ؛ کیونکہ اس میں کسی بھی عمل کا بدلہ بڑھا کر دیا جاتا ہے۔
اس ماہ کیلیے تیاری انتہائی ضروری ہے اور تیاری کیلیے سچی توبہ کے ساتھ تقوی مل جائے تو یہ بہترین زادِ راہ ہے: اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم متقی بن جاؤ۔[البقرة: 183]
اللہ تعالی نے تم پر روزے اس لیے فرض نہیں کیے کہ تم بھوکے ، پیاسے اور نقاہت سے چور ہو جاؤ، فرضیت کا مقصد تقوی ہے، لہذا روزوں کے فرض کرنے کا ہدف متقی بنانا ہے، تو بہت سے روزے دار ایسے بھی ہیں جنہیں روزے سے بھوک پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا!! اور کتنے ہی قیام کرنے والے ہیں جنہیں قیام کی وجہ سے تھکاوٹ اور بے خوابی ہی میسر آتی ہے!!
لہذا روزے کی حالت میں محض [کھانے پینے جیسے]جائز امور چھوڑ کر مکمل قربِ الہی حاصل نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لیے ان تمام گناہوں کو چھوڑنا بھی ضروری ہے جو ہر حال میں حرام ہیں جیسے کہ جھوٹ بولنا، ظلم کرنا، لوگوں پر زیادتی کرنا، چاہے ان کا تعلق خون، مال اور عزت آبرو کسی بھی چیز سے ہو۔
روزہ افضل ترین عبادت اور اطاعت ہے، اس کا ثواب بھی سب سے عظیم ہے۔
روزہ صبر کرنے والوں کی عبادت، متقی لوگوں کا زادِ راہ، کامیاب لوگوں کیلیے ذخیرۂ آخرت ہے۔
روزے کا ثواب بہت بڑا ہے، اس سے ملنے والی بھلائی بہت زیادہ ہے، ثواب میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔
روزہ بیماریوں سے شفا کا باعث ہے، روح اور جسم کی صحت، طاقت اور علاج کا ذریعہ ہے، نیز جسمانی تربیت بھی ہے، پھر ان سب سے بڑھ کر پروردگار کی اطاعت اور گناہوں کی مغفرت کا باعث بھی ہے۔
روزے کی فضیلت میں اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے ابن آدم کے اعمال دو قسموں میں تقسیم کئے ہیں، اور روزوں کو مستقل الگ قسم قرار دے کر اسے اپنی طرف منسوب فرمایا ، جبکہ ابن آدم کے دیگر تمام اعمال کو دوسری قسم میں شامل فرمایا، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (ابن آدم کی تمام نیکیاں دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہیں، لیکن اللہ تعالی کا فرمان ہے: سوائے روزے کے؛ کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا، روزے دار میری وجہ سے اپنی خواہشات اور کھانا پینا چھوڑتا ہے، روزے دار کیلیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی روزہ افطار کرتے ہوئے اور دوسری خوشی اپنے پروردگار سے ملاقات کے وقت)
جنت میں اللہ تعالی نے روزے داروں کیلیے ایک دروازہ مختص کر دیا ہے، وہاں سے کوئی اور داخل نہیں ہو گا، اسی طرح روزے داروں کے لیے خصوصی مہمان نوازی بھی تیار کی ہوئی ہے جس میں کوئی اور شریک نہیں ہوگا، چنانچہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (بیشک جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے، یہاں سے قیامت کے دن روزے دار داخل ہوں گے، ان کے ساتھ کوئی اور داخل نہیں ہو گا، کہا جائے گا: روزے دار کہاں ہیں؟ تو روزے دار اس میں سے داخل ہو جائیں گے ، جب آخری روزے دار داخل ہو جائے گا تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اور روزے داروں کے علاوہ کوئی بھی وہاں سے داخل نہیں ہو سکے گا، اس دروازے سے داخل ہونے والا پانی پیے گا اور جو پانی پی لے گا اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی).
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “نبی ﷺ منبر پر چڑھے اور فرمایا: (آمین) پھر دوسری سیڑھی چڑھے اور فرمایا: (آمین) پھر تیسری سیڑھی چڑھے اور فرمایا: (آمین)، پھر آپ منبر پر بیٹھ گئے، تو صحابہ کرام نے پوچھا: آپ نے کس چیز پر آمین کہا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: (میرے پاس جبریل نے آ کر کہا:
اس شخص کا ستیاناس ہو جس کے پاس آپ کا ذکر کیا جائے اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے تو میں نے کہا: آمین۔
پھر جبریل نے کہا: اس شخص کا ستیاناس ہو جو اپنے والدین کو پا کر بھی جنت میں نہ جا سکے، تو میں نے کہا: آمین
پھر جبریل نے کہا: اس شخص کا ستیاناس ہو جو رمضان تو پائے لیکن اس کی مغفرت نہ ہو سکے، تو میں نے کہا: آمین) “
اس محرومی ،رسوائی ، برے فیصلے اور ناکامی سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
گزشتہ رمضان میں کوتاہی برتنے والے! اب سابقہ رمضان تو گزر چکا ، لیکن اللہ تعالی نے ایک بار پھر زندگی میں رمضان کا موقع دیا ہے، اللہ کی اس نعمت پر شکرانہ ادا کرو، اچانک موت آنے سے پہلے اپنے رب سے ناتا جوڑ لو، مبادا عمر ضائع ہو جائے، تو اس وقت واویلا کرتے ہوئے ہائے افسوس! ہائے بربادی! ہائے مر گئے! ہائے تباہ ہو گئے! کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
نیکی کی تھکاوٹ ، مشقت، اور تکان ختم ہو ہی جاتی ہے لیکن اس کی لذت اور اجر اخروی زندگی کیلیے ذخیرہ اور خزانہ بن جاتی ہے۔
جبکہ گناہ کی لذت وقتی ہوتی ہے لیکن اس کے بد اثرات ہمیشہ اور پوری زندگی رہتے ہیں، نیز آخرت میں عذاب اور عقاب کا باعث بھی بنتے ہیں۔
عبادت میں اطمینان، سکون اور امن کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ اگر دلوں میں دہشت ، رعب، خوف و ہراس گھر کر جائے تو عبادت میں خشوع و خضوع پیدا نہیں ہوتا، بلکہ رکوع و سجود میں لذت ہی نہیں رہتی۔
اللہ تعالی نے ہم پر ڈھیروں نعمتیں برسائیں، ہمیں امن و امان کی دولت سے نوازا، اس وقت جن فتنوں سے دیگر لوگ نبرد آزما ہیں ہمیں ان سے محفوظ رکھا ، ان فتنوں کی وجہ سے ان کے مال و جان، املاک اور اتفاق و اتحاد سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا ہے۔
امن و امان بہت بڑی اور انمول نعمت ہے اس کی قدر اسی کو معلوم ہے جن کا امن و امان چھن گیا؛ اس لیے ہم پر ہر وقت اور ہر لمحے اللہ کا شکر ادا کرنا واجب ہے، امن و امان اور نعمتِ ایمان پر یا اللہ ! تیری ہی شکر کرتے ہیں، اللہ! تو نے ہمیں رمضان ایک بار پھر نصیب فرمایا ، اس پر بھی ہم تیرا شکر کرتے ہیں۔
اللہ تعالی میرے اور آپ کے لیے قرآن مجید کو بابرکت بنائے،
ہمیں اپنے نبی کریم کی سنت اور آپ کی رہنمائی کے مطابق چلنے کی توفیق دے،
میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور عظمت و جلال والے اللہ سے اپنے اور سب مسلمانوں کے لیے تمام گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں،
اس لیے آپ بھی اسی سے بخشش طلب کرو، بیشک وہ بخشنے والا ہے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
یا اللہ! ہمیں ماہ رمضان نصیب فرما،
یا اللہ! ہمیں ماہ رمضان نصیب فرما،
یا اللہ! ہمیں ماہ رمضان نصیب فرما،
یا اللہ! ہمیں ماہ رمضان میں قیام و صیام کی طاقت عطا فرما،
یا اللہ! ہمیں ماہ رمضان میں قیام و صیام کی طاقت عطا فرما،
یا اللہ! پھر ہماری عبادات قبول بھی فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ چاہتے ہیں،
تیری سزاؤں سے تیری معافی کی پناہ چاہتے ہیں،
اور تیری ذات سے تیری ہی پناہ مانگتے ہیں،
ہم تیری ایسے حمد بیان نہیں کر سکتے جیسے تو نے خود بیان کی ہے۔
اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اَللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں