مصنف: حامد کمال الدین
رمضان ہدایت کا مہینہ ہے اور قرآن ہدایت کی کتاب ، دن کے روزے اور رات کے قیام میں بہت گہرا تعلق ہے۔ کھانا اور سولینا دنیا کا بےکارمشغلہ ہے۔ یہ دنیا اگر کھانااور سونا کبھی چھوڑ بھی دیتی ہے تو اس کے پیچھے کوئی اعلی مقصد نہیں ہوتا۔ یہاں کھانے کی قربانی تقریبا کھانے کےلئے ہی ہوتی ہے جو کہ حیوانیت کا بدتر درجہ ہے۔ ہدایت دراصل یہ ہے کہ آدمی جینے کی غرض جانے اور اعلی زندگی کا راز پائے۔” تقویٰ“ اس اعلی اور ارفع زندگی کا ہی دوسرا نام ہے۔ یو ں سمجھو کہ روزے اور قیام کی ایک ماہ کی محنت بس اس مقصد کے لئے ہے۔ اس عمل سے اگر ہدایت کا یہ احساس برآمد نہ ہوا ، بلند مقصد کےلئے جینے اور مرنے کاحوصلہ پیدا نہ ہوا، اس ایک ماہ میں اگر بندگی کاعہد پختہ نہ ہوا، اپنے روزوں کی شکل میں اللہ کو ہم اگر اپنا آپ پیش نہ کرسکے تو بھائیو! اللہ کو غلے اوراناج کی کمی تو درپیش نہیں! اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ عبادت جو ہے ہی ایک مقصد کا نام، وہ ہمارے ہاتھوں بے مقصد ہو کررہ جائے ! تب اسے عبادت کہا ہی نہیں جاسکتا ۔ اسی لیے اما م ابن تیمیہؒ ایسے عمل کے لیے عادت کا لفظ بہتر قرار دیتے ہیں! عبادت تو وہ ہے جو آپ کو بندگی کے احساس کے ساتھ اللہ کے سامنے بے حس وحرکت کھڑا کردے اور اس(عبادت) کے باربار کرنے پر بندگی کے اصل رشتے کی خود بخود تجدید ہوتی رہے بندگی کے اس رشتے کی تجدید، جوکہ اصل ایمان ہے ۔
یہ ”بندگی کااصل رشتہ“ اور ”ایمان کی اصل“ کیا ہے جس کی تجدید آدمی کے روزے سے مطلوب ہے؟ یہ لاالہ الا اللہ کا فہم اور ادراک ہے۔ اس فہم و ادراک کے ساتھ پھر لا الہ الااللہ کا اقرار واعلان ہے۔ یہ بندگی کا اصل رشتہ توحید کی شہادت ہے۔ یہ اللہ کی بڑائی کااعتراف ہے اور اس کے سوا ہرایک کی خدائی کا انکار۔ صاحبو! اعمال میں جان بس اسی توحید کے دم سے آتی ہے۔ روزہ ہو یا نماز، صدقہ ہو یا قیام، ذکر ہو یا جہاد جو بھی عمل ہو بس اسی توحید کی شہادت ہے۔ نیکی کا ہر عمل اس لاالہ الااللہ کا عملی اظہار ہو تو ثمربار ہوتا ہے،دنیا میں بھی اس کا نتیجہ تبھی نکلتا ہے اور آخرت میں بھی۔ کامیاب ہے وہ شخص جس کا روزہ اورقیام، جس کی نماز اورقربانی ، جس کا مرنااور جینا اس لاالہ الااللہ کاعملی اور شعوری اعلان ہو۔
سورۂ محمد ہمیں بار بار اسی حقیقت پر لا کھڑ ا کرتی ہے۔
وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْواهُمْ ۔ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً فَقَدْ جَاء أَشْرَاطُهَا فَأَنَّى لَهُمْ إِذَا جَاءتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ ۔فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ (محمد: 19-17)
وہ جو ہدایت پا جاتے ہیں اللہ انہیں پھر اور سے اور بھی ہدایت سے نوازتا ہے اور ان کو بچ نکلنے (تقویٰ) کا سلیقہ عطا فرماتا ہے۔ اب کیا یہ لوگ بس قیامت کے ہی منتظر ہیں کہ وہ اچانک ان پر آجائے؟ اس کی علامات تو رونما ہو چکیں! جب وہ خود آجائے گی تو نصیحت پھر وہ کہاں پائیں گے؟سو (اے نبی!) آپ یقین کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی، اللہ تم لوگوں کی آمد ورفت کی اور رہنے سہنے کی جگہ کو خوب جانتا ہے.
قارئین! آپ نے غور فرمایا! یعنی آدمی اصل ہدایت پالے تو پھر زندگی بھر اسے اور سے اور ہدایت ملتی رہتی ہے اور اسی ہدایت کے بقدر اسے تقوی نصیب ہوتا رہتا ہے۔ اصل ہدایت اور دین کا اصل فہم ملا ہو تو نماز،روزہ، زکوٰۃ، حج غرض ہر عمل میں اس کے لیے اورسے اورہدایت اور تقوی کا پھر سامان ہوتا ہے۔ بھائیو! یہ ”پہلی ہدایت“ یا ”اصل ہدایت“ کیا ہے جو پھر اور سے اور ہدایت کاسبب بنتی ہے؟ جو ہرعبادت ، ہر عمل میں ہدایت کا لطف اور تقوی کی تاثیر پیدا کرتی ہے؟ یہ اصل ہدایت یہ ہے کہ آدمی اپنی اوقات اورخالق کا مرتبہ پہچان لے ،اس کی روشنی میں آدمی اپنی زندگی کا ایک واضح رخ متعین کرلے اور دنیا کے حقائق کو قرآن کی نظر سے دیکھنا سیکھ لے۔ آیت کے آخری حصے نے خود ہی یہ بات کھول دی کہ یہ اصل اور پہلی ہدایت اور علم کا یہ سرچشمہ لاالہ الااللہ کی سمجھ ہے۔ سو بھائیو اور بہنو! صیام اور قیام کا لطف اٹھانا ہو، رمضان اور قرآن کے مقصد کو پانا ہو۔۔۔۔ تو کچھ محنت اس لاالہ الااللہ کا مطلب سیکھنے اور دہرانے پرضرور کیجئے گا!! لا الہ الااللہ کی مراد پا لینے کی دعائیں اس پرمستزاد اپنے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی!
جاری ہے ۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں