تدبر القرآن
سورۃ البقرہ
نعمان علی خان
حصہ- 40
فإذا قرأۃ القرآن فاستعذ باللہ من اشیطان الرجیم
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو باقاعدگی سے مسجد میں آتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، اچھے کام کرتے ہیں۔ وہ نیکیوں میں سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔
اور پھر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بمشکل اسلام پر قائم ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کو لمبی لمبی لسٹ کی ضرورت نہیں۔ وہ کہتے ہیں مجھے بس کوئی ایک نیک کام بتادیں میں وہ کرلوں گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسے شخص کو انکار نہیں کیا تھا۔ کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ تم صرف "ایک" نیک عمل کا کیوں پوچھ رہے ہو؟ زیادہ کا کیوں نہیں پوچھ رہے؟
لیکن آج جب لوگ ہمارے پاس کچھ پوچھنے آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مجھے کوئی ایک اچھا عمل بتائیں؟
اور ہم کہتے ہیں۔۔۔ آپ؟؟ اوہ۔۔ آپ کو تو نیک اعمال کی ایک لمبی لسٹ کی ضرورت ہے۔ دین کو آسان رہنے دیں لوگوں کے لیے
وَبَشِّرِ الَّذِين آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقاً قَالُواْ هَـذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَأُتُواْ بِهِ مُتَشَابِهاً وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
*وبشر الذین امنو و عملو الصالحات *
ایمان لانے والوں کو خوشخبری دی جارہی ہے۔ کہ انکو ایک نہیں، بلکہ کئی جنتیں ملیں گی۔
اور یہ اللہ کی جنتیں ہوں گی۔ جس کا ہر ایک پھل دوسرے سے مختلف ہوگا۔ اگر آپکو ایک انگور ملا ہے، تو اگلا انگور اس سے مختلف ہوگا۔
اس سے اندازہ لگالیں کتنی زیادہ جنتیں ہوں گی۔
وہ جنتیں ایسی ہوں گی جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا نا ہوگا، کسی کان نے سنا نا ہوگا۔
تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ
ان جنتوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔
کچھ مفسرین نے اسکی تفسیر یوں کی ہے کہ جنت میں نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ لیکن کچھ نے اس کو بیان کیا ہے کہ جنت بلند ہوگی۔ جیسے پہاڑ کی چوٹی پر ہو۔ اور اس پہاڑ کے کنارے پر نیچے کی طرف نہریں بہہ رہی ہوں۔
کچھ نے کہا شاید یہ سلیمان علیہ السلام کی سلطنت جیسا ہو۔ یعنی زمین ہی پانی ہو۔ اور آپ پانی پر چل رہے ہوں۔
*كُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقاً قَالُواْ هَـذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَأُتُواْ بِهِ مُتَشَابِهاً
رزقوا کا مطلب ہے کہ آپکو اٹھنا بھی نہیں پڑے گا وہ پھل لینے کے لئے۔ یہ آپ کو پیش کیا جائے گا۔
اور جب انسان کو وہ پھل دیا جائیگا تو وہ کہے گا "اوہ، ایسا ہی ہم دنیا میں کھاتے تھے،" شاید دنیا میں آپکو وہ پھل پسند نا ہو۔
لیکن آگے اللہ کہتے ہیں یہ اس جیسا دکھتا ہے لیکن اس کا ذائقہ بالکل مختلف ہوگا۔
دنیا میں ہم کسی ایک کھانے کے دیوانے ہوں، لیکن وہ کھانا ہم ایک خاص مقدار تک کھا سکتے ہیں۔ اگر ہم وہی کھاتے رہیں تو ایک وقت آتا ہے جب ہمارا دل بھر جاتا ہے۔ جنت میں ہر بار ایک ہی پھل دیا جائے گا۔ لیکن ہر بار اس کا ذائقہ پہلے سے مختلف ہوگا۔ ہمارا کبھی دل نہیں بھرے گا۔
وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَة
اور وہاں ان کے لئے نیک جوڑے ہوں گے۔
مجھے پتا ہے یہ آیت ایسی ہے جس سے سسٹرز کے دماغ میں سوال آتے ہیں۔
یہاں میں آپ سے صرف وہ بات کروں گا جس سے میں خود متفق ہوں۔ سارا علم اللہ کے پاس ہے۔ میں نے قرآن کا جتنا علم حاصل کیا، جتنی تفاسیر پڑھی، ان میں سے میں وہ بات بتاؤں گا جس سے میں خود سب سے زیادہ اتفاق کرتا ہوں۔ میں نہیں کہتا میں سکالر ہوں۔ میں ایک طالب علم ہوں۔ اور ہمیشہ طالب علم ہی رہوں گا۔
قرآن میں لفظ "ازواج" اور "زوج" مرد و عورت دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے۔
مثال کے طور پر "قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ"۔ (سورہ المجادلہ 1)
جو عورت آئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور اس نے اپنے زوج (شوہر) کی شکایت کی۔
اور اسی طرح بیوی کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔
زوج کا مطلب ہوتا ہے "ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے"۔
جیسے سورج اور چاند زوجین ہیں، دن اور رات زوجین ہیں، دنیا اور آخرت زوجین ہیں۔ یہ ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ ہمارا جسم اور ہماری روح بھی زوجین ہیں۔
اسی طرح مرد اور عورت میں زوجین کا رشتہ ہوتا ہے۔
پرانی عربی میں شوہر اور بیوی دونوں کو زوج کہا جاتا تھا، زوجہ نہیں۔
پھر اگلی چیز ہے لفظ "ھم"۔ جمع کا صیغہ ہے جس میں مرد و عورت دونوں آتے ہیں۔
سو جب اللہ کہتے ہیں "وہاں ان کے لئے ہوں گے پاکیزہ جوڑے"۔
سو بہت سے اسکالرز مانتے ہیں کہ مردوں کو نیک بیویاں ملیں گی، اسی طرح عورتوں کو نیک شوہر ملیں گے۔ میں مقدار کی بات نہیں کررہا۔ لیکن ہر ایک کو پاکیزہ جوڑا ملے گا۔ مقدار کا مسئلہ الگ مسئلہ ہے۔
کیونکہ قرآن میں اللہ نے جب یہ بات کی تو ایسا نہیں کہا "اس کو ملیں گے نیک جوڑے"۔ بلکہ کہا 'ان کو ملیں گے نیک جوڑے"۔ یعنی ایسا نہیں کہ ایک انسان کو زیادہ زوج ملنے کی بات کی گئی۔ مثال کے طور پر میں کہوں "ان تمام حضرات کی نیک بیویاں ہیں"۔ اسکا مطلب یہ ہوگا کہ ان کی ایک سے زیادہ بیویاں ہیں؟ خیر یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔
عورت اور مرد کی ضروریات الگ الگ ہوتی ہیں۔ اس دنیا میں شوہر اور بیوی دونوں کو کمپرومائز کرنا پڑتا ہے کسی نا کسی بات پر۔ اور پھر ہم کہتے ہیں یا اللہ جنت میں مجھے بہترین عطا کرنا۔ آگے جا کر میں تفصیل سے اس پر بات کروں گا۔ لیکن یہاں میں "مطھرہ" کی بات کرنا چاہتا ہوں۔
مطھرہ کا مطلب "پاک" نہیں بلکہ پاک کی ہوئی ہے۔ صرف روحانی طور پر پاک نہیں بلکہ ہر طرح سے آپکی پسند آپ کے ذوق کے مطابق۔
یہاں شادی سے پہلے آپ اپنی ہونے والی بیوی یا شوہر کو دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں یہ بالکل پرفیکٹ ہے۔ لیکن شادی کے بعد بہت سی چیزیں واضح ہونے لگتی ہیں۔ جنت میں صرف ظاہری نہیں بلکہ ہر طرح سے زوجین ایک دوسرے کی پسند کے مطابق ہوں گے۔ اور پھلوں کی طرح زوجین کا رشتہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ کبھی پرانا نہیں ہوگا۔
قرآن میں زوجین آپ کے دوستوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ وہ دوست جن کے ساتھ ہینگ آوٹ کرنا آپکو اچھا لگتا ہے۔
اللہ بتارہے ہیں آپ کے دوست بھی پاک ہوں گے۔ وہ دوست جن سے آپ محبت کرتے ہیں۔ جو آپ کو مکمل کرتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں