تدبرِ القرآن
سورہ الکھف
استاد نعمان علی خان
حصہ-7
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ فَأَعْرَضَ عَنْهَا وَنَسِيَ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ ۚ إِنَّا جَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۖ وَإِن تَدْعُهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ فَلَن يَهْتَدُوا إِذًا أَبَدًا - 18:57
اس سے بڑھ کر ﻇالم کون ہے؟ جسے اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے وه پھر منھ موڑے رہے اور جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیج رکھا ہے اسے بھول جائے، بےشک ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ وه اسے (نہ) سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ہے، گو تو انہیں ہدایت کی طرف بلاتا رہے، لیکن یہ کبھی بھی ہدایت نہیں پانے کے
اور کون بڑا ظالم ہے اس شخص سے جسے یاد دلائی جائیں نشانیاں اس کے رب کی اور وہ منہ پھیر لے اُن سے۔۔اور بھول جاتا ہے اس کو جس کا اہتمام اس نے اپنے ہاتھوں کیا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جسے جب میری نشانیوں کی، میری آیات کی یاد دلائی جاتی ہے تو وہ منہ پھیر لیتا ہے۔
کیسے منہ پھیر لیتا ہے؟
وہ کہتا ہے "مجھے اس ہدایت کی ضرورت نہیں ہے، مجھے یہ نہیں سُننا، مجھے مت بتاؤ"
ایسا ہی ہوتا ہے نا؟؟
جب ہم کوئی ایسا کام کر رہے ہوتے ہیں جو ہمیں نہیں کرنا چاہیے اور تب کوئی آ کر ہمیں نصیحت کرے تو ہم اس نصیحت سے فائدہ لینے کے بجائے چڑنے لگ جاتے ہیں۔
اور وہ شخص ان تمام اعمال کو بھول جاتا ہے اس سزا کو بھول جاتا ہے جو وہ اپنے لیے تیار کر رہا ہے۔
اس کا سارا فوکس یہ دنیا ہے۔
اس لیے ہمیں آج سے ابھی سے خود کا جائزہ لینا چاہیے ہے کہ کہیں ہم ان لوگوں میں سے تو نہیں جنہیں جب نصیحت کی جائے تو وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں؟
کیا جب ہمیں ہماری غلطی دکھائی دیتی ہے تو ہم اسے مانتے ہیں یا پھر تکبر کرتے ہیں اور انکار کردیتے ہیں؟؟
اور کیا ہمیں اندازہ ہے ہم اپنے لیے کیا تیار کر رہے ہیں؟؟
ہمیں خود کا اور اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہنا ہے اب سے تاکہ ہم ظالم بننے سے بچ سکیں۔
اگے اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اس نے ان لوگوں کے دلوں پہ اور کانوں پہ پردہ ڈال رکھا ہے، وہ نہیں سمجھتے، اور اگر تم ان لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاؤ تو وہ کبھی نہیں آئیں گے۔۔
ایسے لوگ جو غلطی کرنے پر نہیں مانتے، اور اللہ کی یاد دلانے پر منہ پھیر لیتے ہیں وہ ہدایت سے بہت دور چلے جاتے ہیں.
وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ ۖ لَوْ يُؤَاخِذُهُم بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ ۚ بَل لَّهُم مَّوْعِدٌ لَّن يَجِدُوا مِن دُونِهِ مَوْئِلًا - 18:58
تیرا پروردگار بہت ہی بخشش واﻻ اور مہربانی واﻻ ہے وه اگر ان کے اعمال کی سزا میں پکڑے تو بےشک انہیں جلد ہی عذاب کردے، بلکہ ان کے لئے ایک وعده کی گھڑی مقرر ہے جس سے وه سرکنے کی ہرگز جگہ نہیں پائیں گے۔
ہم نے پچھلی آیت میں پڑھا تھا ان لوگوں کے بارے میں جو نصیحت سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
تو اگر ہم میں سے کوئی ایسا ہے وہ تو اُس آیت کو پڑھ کر غمگین ہوگیا ہوگا نا؟؟
غمگین اس لیے کہ کیا اللہ مجھے معاف کریں گے؟؟
تو اگلی ہی آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے "اور تمہارا رب بہت معاف کرنے والا ہے" ❤️
اللہ تعالی نے ہماری امید واپس بندھائی ہے کہ اگر تم غلطی کر بیٹھے ہو تو مایوس مت ہو میں بار بار معاف فرمانے والا ہوں۔
اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اگر میرا بندہ اتنے گناہ کرے کہ زمین آسمان اُس کے گناہوں سے بھرجائیں اور پھر وہ توبہ کرلے تو میں تب بھی اُسے معاف کردوں گا۔۔
آیت میں آگے بڑھیں تو اللہ نے فرمایا کہ وہ "ذُو الرَّحْمَةِ" ہے، یعنی "رحمت کا حامل/مالک۔"
اُس کے رحمت کے حامل ہونے کا ثبوت کیا ہے؟؟
آگے آیت میں ہی اس کا جواب ہے
" کہ وہ ان لوگوں کے اعمال کے باعث فوراً ہی ان کو نہیں پکڑتا"
سبحان اللہ۔۔
اللہ ہمیں توبہ کا وقت دیتا ہے وہ فوراً سے نہیں پکڑ لیتا اور اگر غور کیا جائے تو یہ ایک بہت بڑی رحمت ہے ہم انسانوں پر۔ اگر وہ جلد پکر لیتا تو ہم پر عذاب نازل ہوجاتا۔
اس کے برعکس اللہ نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس دن اُس سے کوئی نہیں بچ پائے گا۔
اس لیے اُس بڑے دن کے آنے سے قبل ہی ہمیں خود کو سنوار لینا چاہیے ہے، توبہ کر کے اس کی طرف بڑھ جانا چاہئیے ہے۔
ابھی ہمارے پاس وقت ہے اس لیے اس سے فائدہ اُٹھائیں۔
جاری ہے۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں