تدبرِ القرآن
سورہ الکھف
استاد نعمان علی خان
حصہ-8
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا - 18:60
"اور جب کہا موسی نے اپنے خادم سے کہ نہیں ٹھہروں گا حتی کہ پہنچ جاوں سنگم پر دو دریاؤں کے خواہ چلتا رہوں میں برسوں۔"
اس قصے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے موسی علیہ السلام سے دریافت کیا کہ "اس زمین پر سب سے زیادہ علم کون رکھتا ہے، کس کے پاس سب سے زیادہ علم ہے۔"
موسی علیہ السلام نے فرمایا:
" یہ تو میں نہیں جانتا، جس کے پاس اس وقت مجھ سے زیادہ علم ہو۔"
انہوں نے ایسا اس لیے نہیں کہا کہ انہیں اپنے علم پر غرور تھا بلکہ اس لیے کہا کیونکہ وہ اللہ کے نبی تھے اس لیے انہیں ایسا لگا کہ اس وقت صرف انہی کے پاس سب سے زیادہ علم ہوگا۔ سو انہوں نے اُس شخص کو جواب میں یہ کہا تھا۔ مگر اللہ کو یہ جواب پسند نہ آیا۔
اس سے ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ کبھی بھی اپنے علم پر غرور نہیں کرنا چاہیے ہے۔ اگر کوئی ہم سے ہمارے علم کے متعلق پوچھے تو ہمارا رویہ عاجزی کا ہونا چاہیے ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی کو اپنے علم کے متعلق نہیں بتا سکتے کہ "میں اتنا پڑھا ہوں"
اس کا مطلب ہے کہ بس آپ میں عاجزی ہونی چاہیے ہے، خود کو دوسروں سے بہتر نہیں سمجھنا چاہیے ہے، آپ کے اندر یہ نہیں ہونا چاہیے کہ "مجھے تو سب سے زیاہ علم ہے، میرے جیسا علم تو کسی کے پاس نہیں ہے"۔
اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو خبر دی کہ ان کا ایک اور بندہ ہے جس کے پاس اُن سے زیادہ علم ہے، اور وہ خضر تھے۔
موسی علیہ السلام خضر کے پاس جا کر اُس سے علم حاصل کرنا چاہتے تھے۔
اللہ تعالی نے موسی علیہ اسلام کو بتایا کہ وہ کس جگہ پر خضر کو پاسکتے ہیں۔
اور وہ جگہ دو دریاوں کا سنگم تھی۔ جہاں دو دریا آپس میں ملتے تھے۔ اُس جگہ پر ہی موسی علیہ السلام کو خضر ملتے اور مچھلی انہیں چھوڑجاتی، کیونکہ انہیں کہا گیا تھا کہ وہ ایک مچھلی اپنے ساتھ رکھ لیں۔
سو جس جگہ پر وہ مچھلی انہیں چھوڑ دیتی اسی مقام پر ان کی ملاقات خضر سے ہوتی۔
موسی علیہ السلام یوشع بن نون کے ہمراہ اس سفر کے لیے روانہ ہوگئے۔
اب آپ یہاں پر موسی علیہ السلام کے عظم کا جائزہ لیں کہ انہوں نے اپنے غلام یوشع سے کہا
"میں نہیں ٹھہروں گا حتی کہ میں دو دریاوں کے سنگم پر پہنچ نہیں جاتا خواہ چلتا رہوں میں برسوں"
یعنی، چاہے کچھ بھی ہوجائے میں ہار نہیں مانوں گا۔
کیا ہمارا رویہ بھی علم کے حصول کے لیے ایسا ہوتا ہے؟؟
ہمیں بھی ایسا ہی رویہ رکھنا چاہیے ہے جب ہم گھر سے علم حاصل کرنے نکلتے ہیں تو۔
آپ اس رمضان میں اپنا گول سیٹ کریں کہ میں نے اتنا پڑھنا ہے (سمجھ کر) اور اللہ سے اپنے لیے دعا کریں۔ شروع کے دنوں میں ہم بہت اچھا محسوس کریں گے پر جیسے ہی دن گزرتے جائیں گے ہم میں سستی آنے لگ جائے گی تو تب خود کو یہ بات یاد کروائیے گا کہ کس طرح موسی علیہ اسلام خضر سے علم حاصل کرنے گئے تھے۔
موسی علیہ اسلام نے بھی صبر کیا تھا۔۔انہوں نے بھی ارادہ کیا تھا کہ ایک دفعہ میں بس وہاں پہنچ جاوں۔۔ ایک دفعہ میں اپنا مقصد حاصل کرلوں۔۔ چاہے وہاں پہنچنے میں مجھے صدیاں لگ جائیں، میں نہیں ٹھہروں گا۔
اُس کے بعد آرام کیا جا سکتا ہے نا؟؟
تو ایسا ہی رویہ ایک طالب علم کا ہونا چاہیے ہے۔
موسی علیہ السلام اللہ کے نبی تھے مگر پھر بھی ان کی چاہت دیکھیں علم کے حصول کے لیے۔
اسی کو کہتے ہیں علم کے لیے سفر کرنا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں