یہ ہے اسلام


مکہّ میں ابوسفیان بہت بے چین تھا ،" آج کچھ ہونے والا ھے " (وہ بڑبڑایا) اسکی نظر آسمان کی طرف باربار اٹھ رہی تھی ۔اسکی بیوی " ہندہ " جس نے حضرت امیر حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا اسکی پریشانی دیکھ کر اسکے پاس آگئی تھی" کیا بات ہے؟ کیوں پریشان ہو؟ " "ہُوں؟" ابوُ سُفیان چونکا ۔ کُچھ نہیں ۔۔ " طبیعت گھبرا رہی ہے میں ذرا گھوُم کر آتا ہوں" وہ یہ کہہ کر گھر کے بیرونی دروازے سے باہر نکل گیا.
 مکہّ کی گلیوں میں سے گھومتے گھومتے وہ اسکی حد تک پہنچ گیا تھااچانک اسکی نظر شہر سے باہر ایک وسیع میدان پر پڑی ،ھزاروں مشعلیں روشن تھیں ، لوگوں کی چہل پہل انکی روشنی میں نظر آرہی تھی اور بھنبھناھٹ کی آواز تھی جیسے سینکڑوں لوگ دھیمی آواز میں کچھ پڑھ رہے ھوں اسکا دل دھک سے رہ گیا تھا ۔۔۔اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قریب جاکر دیکھے گا کہ یہ کون لوگ ھیں اتنا تو وہ سمجھ ہی چکا تھا کہ مکہّ کے لوگ تو غافلوں کی نیند سو رہے ھیں اور یہ لشکر یقیناً مکہّ پر چڑھائی کےلیے ہی آیا ہے وہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ کون ہیں ؟وہ آہستہ آہستہ اوٹ لیتا اس لشکر کے کافی قریب پہنچ چکا تھا کچھ لوگوں کو اس نے پہچان لیا تھا یہ اسکے اپنے ہی لوگ تھے جو مسلمان ہوچکے تھے اور مدینہ ہجرت کرچکے تھےاس کا دل ڈوب رہا تھا ، وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ لشکر مسلمانوں کا ھےاور یقیناً " مُحمّد ﷺ اپنے جانثاروں کے ساتھ مکہّ آپہنچے تھے "وہ چھپ کر حالات کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ عقب سے کسی نے اسکی گردن پر تلوار رکھ دی اسکا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا لشکر کے پہرے داروں نے اسے پکڑ لیا تھا اور اب اسے " بارگاہ محمّد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم میں لےجا رہے تھے "
 اسکا ایک ایک قدم کئی کئی من کا ہو چکا تھا ہر قدم پر اسے اپنے کرتوت یاد آرہے تھے جنگ بدّر ، احد ، خندق ، خیبر سب اسکی آنکھوں کے سامنے ناچ رہی تھیں. اسے یاد آرہا تھا کہ اس کیسے سرداران مکہّ کو اکٹھا کیا تھا "محمّد کو قتل کرنے کے لئے" کیسے نجاشی کے دربار میں جاکر تقریر کی تھی کہ ۔۔۔۔" یہ مسلمان ہمارے غلام اور باغی ہیں انکو ہمیں واپس دو " کیسے اسکی بیوی ھندہ نے امیر حمزہ کو اپنے غلام حبشی کے ذریعے شہید کروا کر انکا سینہ چاک کرکے ان کا کلیجہ نکال کر چبایا اور ناک اور کان کاٹ کر گلے میں ہار بنا کر ڈالے تھے
اور اب اسے اسی محمّد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے پیش کیا جارہا تھا اسے یقین تھا کہ ۔۔۔اسکی روایات کے مطابق اُس جیسے "دھشت گرد" کو فوراً تہہ تیغ کردیا جائے گا ۔اُدھر ۔۔۔۔" بارگاہ رحمت للعالمین ﷺ میں اصحاب رضی اللہ تٓعالیٰ عنہما جمع تھے اور صبح کے اقدامات کےبارے میں مشاورت چل رہی تھی کہ کسی نے آکر ابوسفیان کی گرفتاری کی خبر دے دی" اللہ اکبر " خیمہ میں نعرہ تکبیر بلند ھوا ابوسفیان کی گرفتاری ایک بہت بڑی خبر اور کامیابی تھی خیمہ میں موجود عمر ابن الخطاب اٹھ کر کھڑے ہوئے اور تلوار کو میان سے نکال کر انتہائی جوش کے عالم میں بولے ۔۔" اس بدبخت کو قتل کردینا چاہئیے شروع سے سارے فساد کی جڑ یہی رہا ہے "چہرہ مبارک رحمت للعالمین صل اللہ علیہ و آلہ وسلم پر تبسّم نمودار ہوا اور انکی دلوں میں اترتی ہوئی آواز گونجی" بیٹھ جاؤ عمر ۔۔ اسے آنے دو" عمر ابن خطاب آنکھوں میں غیض لیئے حکم رسول ﷺ کی اطاعت میں بیٹھ تو گۓ لیکن ان کے چہرے کی سرخی بتا رہی تھی کہ ان کا بس چلتا تو ابوسفیان کے ٹکڑے کر ڈالتے.
 اتنے میں پہرے داروں نے بارگاہ رسالت صل اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی. اجازت ملنے پر ابوسفیان کو رحمت للعالمین کے سامنے اس حال میں پیش کیا گیا کہ اسکے ہاتھ اسی کے عمامے سے اسکی پشت پر بندھے ہوئے تھے. چہرے کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی اور اسکی آنکھوں میں موت کے سائے لہرا رھے تھے لب ہائے رسالت مآب صل اللہ علیہ و آلہ وسلم وا ہوئے ۔۔۔اور اصحاب رض نے ایک عجیب جملہ سنا "اسکے ہاتھ کھول دو اور اس کو پانی پلاؤ ، بیٹھ جاؤ ابوسفیان ۔۔ !! "ابوسفیان ہارے ہوئے جواری کی طرح گرنے کے انداز میں خیمہ کے فرش پر بچھے قالین پر بیٹھ گیا ۔پانی پی کر اسکو کچھ حوصلہ ہوا تو نظر اٹھا کر خیمہ میں موجود لوگوں کی طرف دیکھاعمر ابن خطاب کی آنکھیں غصّہ سے سرخ تھی ابوبکر ابن قحافہ کی آنکھوں میں اسکے لیے افسوس کا تاثر تھا عثمان بن عفان کے چہرے پر عزیزداری کی ہمدردی اور افسوس کا ملا جلا تاثر تھاعلی ابن ابوطالب کا چہرہ سپاٹ تھااسی طرح باقی تمام اصحاب کے چہروں کو دیکھتا دیکھتا آخر اسکی نظر محمّد ﷺ کے چہرہ مبارک پر آکر ٹھہر گئی جہاں جلالت و رحمت کے خوبصورت امتزاج کے ساتھ کائنات کی خوبصورت ترین مسکراہٹ تھی"کہو ابوسفیان؟ کیسے آنا ہوا؟؟ "ابوسفیان کے گلے میں جیسے آواز ہی نہیں رھی تھی بہت ہمت کرکے بولا ۔۔ " مم ۔۔ میں اسلام قبول کرنا چاھتا ہوں ؟؟ "عمر ابن خطاب ایک بار پھر اٹھ کھڑے ھوئے" یارسول اللہ ﷺ یہ شخص مکّاری کررہا ھے ، جان بچانے کےلیے اسلام قبول کرنا چاہتا ہے ، مجھے اجازت دیجئیے ، میں آج اس دشمن ازلی کا خاتمہ کر ہی دوں" انکے منہ سے کف جاری تھا ۔۔۔" بیٹھ جاؤ عمر ۔۔۔ " رسالت مآب ﷺ نے نرمی سے پھر فرمایا "بولو ابوسفیان ۔۔ کیا تم واقعی اسلام قبول کرنا چاہتے ہو؟". "جج ۔۔ جی یا رسول اللہ ﷺ ۔۔ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں، میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ اور آپکا دین بھی سچا ہے اور آپ کا خدا بھی سچا ہے ، اسکا وعدہ پورا ہوا ۔ میں جان گیاہوں کہ صبح مکہ کو فتح ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا "چہرہؑ رسالت مآب صل اللہ علیہ و آلہ وسلم پر مسکراہٹ پھیلی ۔۔" ٹھیک ہے ابوسفیان ۔۔تو میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں اور تمہاری درخواست قبول کرتا ہوں جاؤ تم آزاد ہو ، صبح ہم مکہّ میں داخل ہوں گے ان شاء اللہ میں تمہارے گھر کو جہاں آج تک اسلام اور ہمارے خلاف سازشیں ہوتی رہیں ، جائے امن قرار دیتا ہوں، جو تمہارے گھر میں پناہ لے لے گا وہ محفوظ ہے" ۔ابوسفیان کی آنکھیں حیرت سے پھٹتی جا رہی تھیں۔ "اور مکہّ والوں سے کہنا ۔۔ جو بیت اللہ میں داخل ہو گیا اسکو امان ہے ، جو اپنی کسی عبادت گاہ میں چلا گیا ، اسکو امان ہے ، یہاں تک کہ جو اپنے گھروں میں بیٹھ رہا اسکو امان ہے ،جاؤ ابوسفیان ۔۔۔ جاؤ اور جاکر صبح ہماری آمد کا انتظار کرواور کہنا مکہّ والوں سے کہ ہماری کوئی تلوار میان سے باہر نہیں ہوگی ، ہمارا کوئی تیر ترکش سے باہر نہیں ہوگا. ہمارا کوئی نیزہ کسی کی طرف سیدھا نہیں ہوگا جب تک کہ کوئی ہمارے ساتھ لڑنا نہ چاہے" ابوسفیان نے حیرت سے محمّد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف دیکھا اور کانپتے ہوئے ہونٹوں سے بولنا شروع کیا ۔۔" اشھد ان لاالہٰ الا اللہ و اشھد ان محمّد عبدہ و رسولہ" ۔سب سے پہلے عمر ابن خطاب آگے بڑھے ۔۔ اور ابوسفیان کو گلے سے لگایا "مرحبا اے ابوسفیان ، اب سے تم ہمارے دینی بھائی ہو گئے ، تمہاری جان ، مال ہمارے اوپر ویسے ہی حرام ہوگیا جیسا کہ ہر مسلمان کا دوسرے پر حرام ھے ، تم کو مبارک ہو کہ تمہاری پچھلی ساری خطائیں معاف کردی گئیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ تمہارے پچھلے گناہ معاف فرماۓ" ابوسفیان حیرت سے خطاب کے بیٹے کو دیکھ رہا تھا یہ وہی تھا کہ چند لمحے پہلے جسکی آنکھوں میں اس کیلئے شدید نفرت اور غصّہ تھا اور جو اسکی جان لینا چاہتا تھااب وہی اس کو گلے سے لگا کر بھائی بول رہا تھا یہ کیسا دین ہے؟ یہ کیسے لوگ ہیں؟ سب سے گلے مل کر اور رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھوں پر بوسہ دے کر ابوسفیان خیمہ سے باہر نکل گیا " وہ دہشت گرد ابوسفیان کہ جس کے شر سے مسلمان آج تک تنگ تھے انہی کے درمیان سے سلامتی سے گزرتا ہوا جارہا تھا ، جہاں سے گزرتا ، اس اسلامی لشکر کا ہر فرد ، ہر جنگجو ، ہر سپاہی جو تھوڑی دیر پہلے اسکی جان کےدشمن تھے اب آگے بڑھ بڑھ کر اس سے مصافحہ کر رہے تھے ، اسے مبارکباد دے رہے تھے ، خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔۔ " اگلے دن مکہّ شہر کی حد پر جو لوگ کھڑے تھے ان میں سب سے نمایاں ابوسفیان تھا. مسلمانوں کا لشکر مکہّ میں داخل ہوچکا تھا کسی ایک تلوار ، کسی ایک نیزے کی انی ، کسی ایک تیر کی نوک پر خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا لشکر اسلام کو ہدایات مل چکی تھیں کسی کے گھر میں داخل مت ہونا کسی کی عبادت گاہ کو نقصان مت پہنچانا. کسی کا پیچھا مت کرنا. عورتوں اور بچوں پر ھاتھ نہ اٹھانا کسی کا مال نہ لوٹنا. بلال حبشی آگے آگے اعلان کرتا جارہے تھے "مکہّ والو ۔۔۔ رسول خدا ﷺ کی طرف سے ۔۔۔آج تم سب کیلئے عام معافی کا اعلان ہے ۔۔کسی سے اسکے سابقہ اعمال کی بازپرس نہیں کی جائے گی، جو اسلام قبول کرنا چاہے وہ کرسکتا ہے جو نہ کرنا چاہے وہ اپنے سابقہ دین پر رہ سکتا ھے سب کو انکے مذہب کے مطابق عبادت کی کھلی اجازت ہوگی صرف مسجد الحرام اور اسکی حدود کے اندر بت پرستی کی اجازت نہیں ہوگی کسی کا ذریعہ معاش چھینا نہیں جائے گا کسی کو اسکی اراضی و جائیداد سے محروم نہیں کیا جائے گا غیر مسلموں کے جان و مال کی حفاظت مسلمان کریں گےاے مکہّ کے لوگو ۔۔۔۔ !! " ۔ھندہ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی لشکر اسلام کو گزرتے دیکھ رہی تھی اسکا دل گواہی نہیں دے رہا تھا کہ حضرت حمزہ کا قتل اسکو معاف کردیا جائے گا لیکن ابوسفیان نے تو رات یہی کہا تھا کہ ۔۔۔" اسلام قبول کرلو ۔۔ سب غلطیاں معاف ہوجائیں گی" مکہّ فتح ہوچکا تھا. بنا ظلم و تشدد ، بنا خون بہائے ، بنا تیر و تلوار چلائے ،لوگ جوق در جوق اس آفاقی مذہب کو اختیار کرنے اور اللہ کی توحید اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اقرار کرنے مسجد حرام کے صحن میں جمع ہورہے تھےاور تبھی مکہّ والوں نے دیکھا ۔۔۔ "اس ہجوم میں ہندہ بھی شامل تھی"

 ۔یہ ہوا کرتا تھا اسلام ۔۔ یہ تھی اسکی تعلیمات ۔۔ یہ سکھایا تھا میرے رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے..

منقول
تبصرے میں اپنی رائے کا اظہار کریں

5 تبصرے:

  1. ہے، کیونکہ اس میں حقیقی شخصیات کا استعمال فرضی واقعات کے حوالوں سے کیا گیا ہے- غزوہ بدر، احد، خندق اور خیبر میں حضرت ابو سفیانؓ کے کرتوت؟ اوریا صاحب روانی قلم میں شاید یہ بھول گئے کہ خیبر کی جنگ یہودیوں سے ہوئی تھی نہ کہ مشرکین مکہ سے- تاریخ شاہد ہے کہ غزوہ بدر مین حضرت ابو سفیانؓ شریک نہیں تھے، یہ جنگ ابو جہل کی ایماء پر ہوئی، بلکہ حضرت ابو سفیانؓ جن کا قافلہ شام سے مکہ جارہا تھا، انہوں نے یہ پیغام مکہ بھجوادیا تھا کہ ہم مدینہ کا راستہ بحفاظت پار کرچکے ہیں، لہذا اب اس جانب آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ابوجہل تھا، جو مکہ سے مشرکین کا لشکر لیکر اپنے تئیں اسلام کے خاتمہ کے لیے نکلا تھا--- جن لوگون نے سورہ احزاب کا مطالعہ کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ اس جنگ مین مسلمانوں اور کافروں کے درمیان کوئی باقاعدہ مدبھیڑ نہیں ہوئی تھی-- حضرت ابوسفیانؓ کا مسلمانوں سے مقابلہ صرف احد کے میدان میں ہوا ہے- باقی غزوات کا اضافہ صاحب مضمون کی جولانی طبع کو آشکار کر رہا ہے۔ اور احد کی جنگ کا پانسا بھی بنیادی طور پر حضرت خالدؓ بن ولید کی وجہ سے پلٹا تھا، جنہوں نے دوبارہ مڑ کر ایک بار پھر حملہ کروادیا تھا۔ کیا وجہ ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت خالدؓ بن ولید کے تو قبل از اسلام واقعات ایسی رکاکت کے ساتھ نہیں بیان کیے جاتے، جیسا حضرت ابوسفیانؓ کے سلسلے میں کیا جاتا ہے۔ کچھ تو ہو جسکی پردہ داری ہے۔

    ہجرت کی رات رسول اللہ ﷺ کے قتل کا ناپاک منصوبہ بنانے والوں میں انکا نام بھی آرائش مضمون کی نیت سے بڑھادیا گیا ہے، (ان سے پہلے بھی بعض لوگوں نے بڑھایا ہے، جن میں بعض نام "معتبر" بھی قرار دیے جاتے ہیں) ورنہ بعض روایات تو بتاتی ہیں کہ اس منصوبہ میں بنی عبدالمناف کا کوئی بندہ شامل ہی نہیں تھا، اور اگر بالفرض ہوتا بھی تو اس وقت جناب ابی سفیانؓ اپنے قبیلے کے سردار نہیں تھے، آپکو سرداری تو غزوہ بدر کے بعد ملی تھی۔

    نجاشی کے دربار میں تو نجانے کیا بات ہوئی، لیکن بخاری کی روایت قیصر کے دربار کا ضرور نقشہ کھینچ دیتی ہے، جہاں ہرقل نے جناب ابوسفیانؓ کو اس متعلق معلومات کے لیے طلب کیا تھا۔ مسلمانوں کے سیاسی مخالف ہونے کے باوجود بھی آپ نے ہر سوال کا اتنی سچائی سے جواب دیا کہ قیصر کو نبی پاکؐ کے رسول ہونے میں کوئی شک نہیں رہا، گویا مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی آپ نے اسلام کے پیغام کو درست طریقہ سے غیر مسلم معاشرے تک پہنچایا۔ کیا یہ بات خود کسی شخص کے اعلی کردار کی مثال نہیں ہے۔

    حضرت ابوسفیانؓ کی طرح انکی اہلیہ حضرت ہندؓ کو بھی نہیں بخشا گیا۔ حضرت حمزہؓ کو شہید کرنے والا وحشیؓ (جو کہ بعد میں مسلمان ہوئے، اور صحابی کے درجہ پر فائز ہوئے، اور یمامہ کی جنگ میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں) وہ حضرت ہندؓ کے غلام نہیں تھے، جب حضرت ہندؓ اسکی مالک ہی نہیں تھیں، تو آزاد کرنے کی شرط چہ معنی دارد۔۔ دراصل وہ جبیرؓ بن مطعم کے غلام تھے، اور جبیر نے اپنے چچا کا بدلہ لینے کے لیے وحشی سے ڈیل کی تھی کہ اگر اس نے حضرت حمزہ کو شہید کیا تو وہ اسکو آزاد کردیگا۔ یہ پورا واقعہ صحیح بخاری میں درج ہے، اور حضرت ہندؓ کا کہیں دور دور تک تذکرہ نہیں، لیکن اسلامی تاریخ کی افسانہ نگاری کرنے والوں نے یہاں بھی بددیانتی سے کام لیا اور وحشی کو حضرت ہندؓ کا غلام بناکر کلیجہ چبانے کی پوری کہانی امت میں پھیلادی ہے۔
    PART1/2

    جواب دیںحذف کریں
  2. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

  3. مزید یہ کہ حضرت عمرؓ سے یہ منسوب کرنا کہ انہوں نے گرفتاری کے قوراً بعد حضرت ابو سفیانؓ کے قتل کا مشورہ دیدیا تھا، دربار نبوی میں حضرت عمرؓ کی پیچ و تابی اور حضرت عثمانؓ کی دکھ بھری نگاہوں کی منظر کشی، میر انیس کے مرثیوں کے قبیل سے تو ہو سکتی ہے، حقیقت سے اس کا تعلق ہونا بعید از قیاس ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ آخر حضرت عمرؓکس حق پر قتل کا مشورہ دے سکتے تھے۔ وہ کلمہ گو تھے، مسلمان تھے، قران کے تابع تھے، جب سورہ محمد میں جنگی قیدیوں سے سلوک کا حکم بتایا جاچکا تھا، تو کسی صحابی کی کیا مجال ہوتی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو خلاف قران سلوک کرنے کا مشورہ دیتا-- یہ ساری افسانہ نگاری بیان کرتی ہے، کہ مضامین لکھتے وقت ہمارے مفکرین کس قدر خوف خدا سے عاری ہوجاتے ہیں، قران، حدیث تاریخ سب کچھ تیاگ کر بس ایسی تحریر لکھنا چاہتے ہیں کہ پڑھنے والا بس "سبحان اللہ" کہہ کر سر دھننے لگے، اور ایک زہریلی پڑیا کو شکر سمجھ کر پھانک لے۔

    حضرت ابو سفیان کا بحیثیت غیر مسلم کردار دیکھنا ہو، تو غزوہ بدر کے فوراً بعد کا ماحول دیکھا جائے، جس میں ۷۰ کفار مارے گئے، مکہ والوں کی رعونت خاک میں ملی، انتقام کی آگ گھر گھر میں پھیلی ہوئی تھی، اور یہ وہ وقت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی بڑ ی شہزادی حضرت سیدہ زینبؓ مکہ سے مدینہ ہجرت کا قصد کرتی ہیں۔ مکہ کے جذباتی ماحول میں لوگوں نے انؓ کو روکنا چاہا، یہاں تک کہ ایک شخص نے سیدہؓ کو نیزہ تک ماردیا تھا، یہ حضرت ابوسفیانؓ اور انکی اہلیہ حضرت ہندؓ کی معاملہ فہمی تھی، کہ انہوں نے مکہ والوں کے جذبات کو قابو میں لاتے ہوئے، سیدہ زینبؓ کو مکہ سے بحافظت نکالنے کا سبب پیدا کیا۔ اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب عتبہ، شیبہ سمیت انکے اپنے خاندان کے کئی افراد غزوہ بدر میں مارے گئے تھے، اور اپکا بیٹا یزید بن ابی سفیان اس وقت مسلمانوں کی قید میں تھا۔ عام حالت میں تو اوسط ذہنیت کے لوگ ایسے معاملات کو سیاسی سودے بازی کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن سیاسی معاملات کو سماجی معاملات سے الگ رکھا جانا چاہیے، اس پر عمل کرکے کیا حضرت ابو سفیانؓ نے اعلی کردار کا مظاہرہ نہیں کیا؟؟؟ مزید یہ کے انکی بیٹی حضرت ام حبیبہؓ کو ام المومنین بننے کا شرف حاصل ہوا، فتح مکہ کے بعد انکو تیماء کا عامل مقرر کیا گیا، انکے دو صاحب زادوں یزیدؓ اور معاویہؓ کو کاتب وحی مقرر کیا گیا۔ کیا نبی پاک ﷺ کے سامنے حضرت ابوسفیان کا پورا کردار نہیں تھا؟؟؟؟ انکو تو نعوذ باللہ کسی اوریا مقبول کے مضمون کی روشنی میں حضرت ابو سفیانؓ کے کردار کو پرکھنے کی ضرورت نہیں تھی، رسول اللہ کی ﷺ نگاہوں کے سامنے تو سب کچھ موجود تھا، مکی زندگی، ہجرت، بدر، احد، خندق، حدیبیہ، عمرہ قضاء، فتح مکہ، سب کچھ، اگر اسکے بعد بھی خاندان ابی سفیانؓ کے افراد کو اللہ کے رسولؐ نے اتنے اعلی عہدوں پر فائز کیا،ہے تو اسکا مطلب ہے کہ یہ خاندان اللہ کے نبیؐ کی نظر میں معتبر تھا۔ اوریا صاحب سے سوال بنتا ہے کہ جس نبیؐ کے آپ نام لیوا ہیں، تو اس نبیؐ کے طرز عمل سے اتنا بعد کیوں؟؟؟

    اسلام قبول کرنے کے بعد انکا خاندان کفر و اسلام کی جنگوں میں بہت فعال رہا ، غزوہ حنین میں انکی شرکت سب کو معلوم ہے۔ بیرون عرب تاریخ اسلام کی پہلی سب سے اہم جنگ، یعنی جنگ یرموک میں انکا پورا خاندان شریک تھا، انکے بیٹے یزیدؓ بن ابی سفیانؓ اس جنگ میں کمانڈر تھے، اور حضرت ابی سفیانؓ اور انکی اہلیہ حضرت ہندؓ باوجود ضعیف العمری کے، اس جنگ میں باقاعدہ موجود رہے۔۔۔ اللہ تعالی ہمیں رسول اللہ ﷺ ، انکی آلؓ اور انکے اصحابؓ سے دلی محبت رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین


    PART 2/2

    جواب دیںحذف کریں
  4. اپ کی بات سے اتفاق ہے کہ جوش تحریر میں یہ حضرات تاریخ کو بری طرح مسخ کردیتے ہیں جس کا ایک عام قاری کو علم نہیں ہوتا اور اپنی لاعلمی کی وجہ سے وہ اس کو سچ بھی سمجھ لیتا ہے ۔۔۔ اللہ معاف فرمائے اور ہم سب کو ہدایت دے آمین ۔۔۔ جزاک اللہ خیرا۔

    جواب دیںحذف کریں