"زندگی کی کہانی"
تحریر: صمد نواز
زندگی نہ تو "ہم ٹی وی" کا ڈرامہ ہے کہ آخری قسط میں سب کچھ ایک دم سے ٹھیک ہو جائے، نہ ہی "اسٹار پلس" کا ڈیلی سوپ جس میں مردہ کردار زندہ ہو ہو کر لوٹ آتے ہوں۔نہ تو زندگی ناول ہے کہ جس کی اختتامی لائن " پھر وہ ہنسی خوشی اکٹھے رہنے لگے " ہو، نہ ہی بالی ووڈ کی فیچر فلم ہے کہ دی اینڈ سے پہلے تمام مشکلیں آسان ہو جائیں اور تمام بچھڑے ہوئے مل جائیں۔
زندگی تو زندگی ہے چندا، جس کی کہانی کسی انسان نے نہیں لکھی، مالک یوم الدین نے لکھی ہے۔ کہانی کا تانا بانا ایسا ہے کہ ایک راستہ کامیابی کا ہے اور دوسرا ناکامی کا۔ اچھی بات یہ ہے کہ دونوں راستوں کا پڑاؤ ایک ہی ہے، بھلے منزلیں جُدا ہیں۔ اس پڑاؤ پر وہ مالک یوم الدین اپنے بندوں کا منتظر ہے۔ جیسے دوڑ کے مقابلے میں اختتامی لکیرپر ججز موجود ہوتے ہیں۔ اس اختتامی لکیرپر ہر کھلاڑی کے کوچ، ٹیم آفیشلز اور ساتھی کھلاڑی بھی موجود ہوتے ہیں جو جیتنے والے کا پُرجوش استقبال کرتے ہیں، کندھوں پر اٹھاتے ہیں، انعام و اکرام سے نوازتے ہیں۔ تو ہم سب اختتامی لکیر کی جانب بھاگے چلے جا رہے ہیں، جانے انجانے، چاہے انچاہے، اور اختتامی لکیر پر وہ جو ہمارا خالق و مالک ہے ہمارا منتطر ہے جو رب العالمین ہے۔
تو پھر ذکر سے اپنے دل کو زندگی دو جتنی جی چاہے۔ درود سے دل کو نور سے بھرو جتنا جی چاہے۔ کوئی لمحہ شکر سے خالی نہ جانے دو۔ کسی گھڑی میں مایوسی کو اپنے قریب پھٹکنے نا دو۔ اپنے مالک سے دُعا کا اٹوٹ بندھن استوار رکھو اور جو جی چاہے اپنے رب سے مانگ لو۔ وہ تمھارے قریب ہے اتنا کہ کوئی اور اتنا قریب ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ تمھاری دعاؤں کو سنتا ہے، وہ تمھیں بن مانگے عطا کرتا ہے اور اس کے لیے اسے فقط کُن کہنا ہوتا ہے، فقط کُن!
زندگی کی کہانی کا "دی اینڈ" تبھی خوشگوار ہو گا جب اپنے رب سے رشتہ مضبوط ہو گا۔ دعا کے ذریعے اللہ سے باتیں شیئر کریں، اس سے اپنے تعلق کو اور مضبوط کریں اور اس رمضان سے زیادہ سے زیادہ تسبیح و تہلیل اور ذکر اذکار کی عادت ڈالیں۔
زندگی نعمت ربانی ہے اسکی کچھ تعظیم کریں
جواب دیںحذف کریںاسے تھوڑا تھوڑا دوسروں میں تقسیم کریں