سیما آفتاب
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی/ پرہیزگار بنو۔ ( البقرہ ۔ 2:183 )
یعنی روزوں کی فرضیت کا بنیادی مقصد تقویٰ کا حصول اور ترقی ہے۔ تقویٰ عام طور پر اللہ کے ڈر سے تعبیر کیا جاتا ہے، جبکہ تقویٰ صرف ڈر کا نام نہیں بلکہ یہ اللہ سے محبت کے ایک احساس کا نام ہے جس میں بندہ ہر وہ کام کرنا چاہتا ہے جس سے اس کا خالق خوش ہو اور ہر اس کام سے اجتناب کرتا ہے جس سے اس کی ناراضگی کا ڈر ہو۔
ہم میں سے ہر ایک کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ تقویٰ کی راہ اپنائے کیونکہ اللہ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ متقین کے بارے میں اپنی رضا اور انعامات کا ذکر کیا ہے، مگر ہمارا نفس اکثر ہمیں اس راہ سے بھٹکا دیتا ہے۔ اور ہم کبھی انجانے اور کبھی جان کر اللہ کی ناراضگی مول لینے والے اعمال میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ہماری تقویٰ کی بیٹری کمزور ہوتی جاتی ہے، اس بیٹری کی بدولت ہی ہم اپنے نفس پر قابو پا سکتے ہیں۔ اور جب بیٹری کمزور ہوتی ہے تو اس کو چارج کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔۔ ایسے میں اللہ کا بہت بڑا احسان ہے ہم پر کہ اس نے ہم پر روزوں کی صورت میں ایک چارجر مہیا کیا ہے۔
جیسا کہ حدیث پاک میں آیا ہے کہ "رمضان میں سرکش شیاطین قید کردیے جاتے ہیں" ، تو اس طرح ہمیں اپنے نفس کی اصلاح کا موقع میسر آجاتا ہے ، روزے کے دوران اللہ کا حکم مان کر خود پر کئی طرح کی پابندی عائد کرکے ہم شعوری طور پر خود کو اللہ کے حکم کے تابع کرتے ہیں کہ سامنے کھانا پانی رکھا ہے مگر مقررہ وقت سے پہلے اس کو ہاتھ تک نہیں لگاتے کیونکہ جانتے ہیں کہ روزہ کے دوران کھانا پینا اللہ کی نافرمانی کا کام ہے۔ اور ساتھ ہی "اللہ دیکھ رہا ہے" کا احساس ساتھ ہوتا ہے جو ہر برے کام سے بچانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح دیگر گناہوں سے بھی بچنے کی کوشش کرتے ہیں جو غیر رمضان میں "بیٹری ڈاؤن" ہونے کی صورت میں کرجاتے تھے۔ اور جب مسلسل تیس دن اس تربیتی دور سے گزرتے ہیں تو یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہماری تقویٰ کی بیٹری چارج ہو رہی ہے، اللہ کی موجودگی کا احساس ساتھ ہوتا ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو ظاہر نہیں ہوتی بلکہ ایک چھپی ہوئی عبادت ہے اللہ اور اس کے بندے کے درمیان۔ تو ایسے میں اللہ کی نافرمانی سے بچنے کے لیے اور اس کو راضی کرنے کےلیے خدا کے حکم پر ہم کھانا پینا چھوڑ سکتے ہیں تو گناہ و نافرمانی چھوڑنا تو اس سے بہت چھوٹی بات ہے۔ یہ نافرمانی چھوڑنا ہی وہ تقویٰ ہے جسے رمضان کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔ اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ رمضان میں صرف روایتی طور پر نہیں بلکہ پورے شعور و آگہی اور آداب کے ساتھ روزوں کا اہتمام کیا جائے اور چھوٹی سے چھوٹی نافرمانی سے بھی بچا جائے۔ اس کے علاوہ رمضان میں حاصل ہونے والے تربیت کو سال کے باقی گیارہ ماہ میں بھی خود پر لاگو کیا جائے ۔ جس طرح چارجنگ کے بعد گاڑی کی بیٹری اپنا کام ٹھیک ٹھیک انجام دیتی ہے، اسی طرح ہماری زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے رمضان کے روزے اور قرآن سے تجدیدعہد، ہماری تقویٰ کی بیٹری کو چارج کرتے ہیں اور پھر باقی گیارہ مہینے اس قوت کے سہارے یہ گاڑی چلتی رہتی ہے ۔ اس سے بڑا انعام ہمارے رب کی طرف سے اور کیا ہو سکتا ہے؟
اللہ سے دعا ہے کہ اس رمضان اور آنے والے ہر رمضان کو ہمارے لیے باعث تقویٰ و ہدایت بنائے آمین!
سبحان الله. آپ ماشاء اللہ زبردست خطیب ہیں. اللہ جزائے خیر دے آمین
جواب دیںحذف کریںالسلام و علیکم ورحمتہ اللہ ۔۔۔۔ کیوں شرمندہ کر رہے ہیں ۔۔ میں اور خطیب؟؟ بس کچھ دوستوں کی حوصلہ افزائی پر یہ کوشش کی جس کو میگزین میں جگہ بھی مل۔گئی ۔۔ الحمد للہ
حذف کریں