شوقِ خود نمائی


~!~ "شوقِ خود نمائی" ~!~



خود نمائی خود فروشی ہو گئی. 
آپ نے اپنے کو ارزاں کر دیا.


وحشت رضا علی کلکتوی 

کسی کا کہنا ہے کہ "محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ تمہاری کامیابی شور مچادے"
ہم میں سے ہر ایک کامیاب ہونا چاہتا ہے، ہر ایک اپنا طرز زندگی بہتر کرنا چاہتا ہے، تعلیمی و عملی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنا چاہتا ہے۔ یہ تمام خواہشات بالکل بھی بری نہیں، برائی تب آتی ہے جب ان کے نتیجے میں ہم میں وہ بیماری پیدا ہو جائے جسے "خود نمائی" کہتے ہیں۔

خود نمائی ایک نفسیاتی و روحانی بیماری تو ہے ہی یہ فرد کو ریا کاری کی طرف بھی لے جاتی ہے۔ ریا کاری گناہ ہے بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو تمام اعمال کو ضائع کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ خود نمائی اور ریا کاری میں بہت معمولی فرق ہے ۔خود نمائی اپنی کسی خوبی، صلاحیت، دولت، غربت ، پسند نا پسند ، عمل و فعل کو نمایاں کرنے کے لیے بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کو کہتے ہیں۔ تاکہ دوسرے اس کی تعریف کریں اسے منفرد ،اچھا ،اعلی خیال کیا جائے یا اس کے ساتھ ہمدردی کی جائے ۔جب کہ ریا کاری نیک اعمال اس نیت سے یا یہ سوچ کر کرنا کہ دیکھنے والے سننے والے مجھ کو نیک خیال کریں یعنی نیک افعال دکھاوے کے لیے کرنے کو کہتے ہیں ۔خود نمائی کا شوق نیکی کے اجر کو کھا جاتا ہے۔ " اپنی اچھائی کو خود سے ظاہر نہ کرو اچھائی خود کو اپنے آپ ہی ظاہر کردیتی ہے"

خود نمائی ہر دور میں لوگوں میں رہی ہے مگرموجودہ دور میں یہ بیماری یا خامی وبا کی صورت اختیار کر گئی ہے ہر وقت ایک دوسرے کے مقابلے کی دوڑ میں لگے ہیں ہم لوگ۔۔

فلاں مجھے سے آگے نہ نکل جائے۔
فلاں کا بچہ میرے بچے سے زیادہ اچھے مارکس نہ لے آئے ورنہ کتنی بے عزتی ہوگی۔
موبائل فون مہنگے سے مہنگا ہو۔ پھر اس کی نمائش بھی ہو۔
گھر گھر کم آرائشی اشیاء کا شو روم زیادہ لگتا ہے۔
کپڑا تو برانڈڈ سے کم پہننا گناہ تصور کیا جانے لگا ہے، اور اگر اب برانڈڈ دکان سے کپڑا لیا ہے تو بتانا بھی فرض ہے۔
اور جب سے سوشل میڈیا ہماری زندگیوں میں آیا ہے اس بیماری کو پروان چڑھنے کا خوب خوب موقع ملا ہے
کسی اچھے ریسٹورنٹ گئے تو وہاں کا "چیک ان" حاضر (ہم بھی اچھی جگہ کھاتے ہیں) ساتھ میں کھانے کی تصویر بھی۔
دوستوں سے ملنے گئے تو سلام دعا سے پہلے فیس بک سٹیٹس حاضر۔
جہاز میں فرسٹ کلاس میں سفر کرلیا تو بتانا تو بنتا ہے نا؟؟
اور ہاں "سیلفی" کا بخار تو ہر چھوٹے بڑے، مرد و عورت پر یکساں سوار ہے ۔۔۔ کسی محفل میں جائیں تو لوگ آپس میں باتیں کرنے کے بجائے  سیلفی لیتے پائے جاتے ہیں۔
اور جب سیلفی لی ہے اور دس بارہ کوششوں کے بعد من چاہی آجائے تو اس کو فوراً اپ لوڈ کرنا بھی ضروری ہے چاہے ٹائم لائن پر ہو یا ڈی پی پر ۔۔۔ (واہ واہ نہ کروائیں اپنی؟؟؟ )

کہاں تک سنیں گے کہاں تک سنائیں ۔۔۔۔۔

لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس کا کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے ان کو؟ میرے نزدیک فائدہ بڑا محدود ہے ۔۔۔ وہ یہ کہ آپ کی "خود نمائی" کو چند تعریفی کلمات مل جاتے ہیں، (چند دن خوش رہنے کے لیے)  اس کے بعد کچھ اور چاہیے ہوتا ہے۔۔ اور نقصان تو ہم اپنے سامنے دیکھ ہی رہے ہیں کہ بغیر سوچے سمجھے ایک کے پیچھے ایک اس سے آگے نکلنے کے لیے دوڑے جا رہا ہے کہ میں نمبر ون آجاؤں ، سکون ناپید ہو گیا ہے، قناعت ختم ہو گئی ہے۔۔ زندگی کا مقصد بس یہ بن گیا ہے کہ جو میں کروں وہ ساری دنیا کو پتا ہو۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سےدوسرے لوگوں میں حسد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

خود نمائی دراصل احساس کمتری یا احساس برتری کی ہی وجہ سے ہوتا ہے۔احساس کمتری کا شکار لوگ اپنی اہمیت جتانے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ احساس برتری کا شکار لوگوں کو جب لوگ  اہمیت نہ دیں تو وہ ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ہم کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے کہ ہم میں سے کون،کہیں میں خود ہی تو خود نمائی یا ریاکاری کا شکار نہیں ہوں۔ایسا نہ ہو کہ ہم کو پتہ ہی نہ چلے اور ہم خود نمائی اور ریاکاری کی دلدل میں پھنستے جائیں اور ہمارے اعمال ضائع ہو جائیں ۔ ہمیشہ خود کو "لو پروفائل" رکھیں اگر کوئی کامیابی حاصل کی ہے تو اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ بانٹیں جو حقیقت میں آپ کی کامیابی پر خوش ہوں (صرف لفظی نہیں) اور اگر کوئی نیکی سر انجام دی ہے تو اس کے بارے میں تو حکم ہے کہ "ایک ہاتھ کی خبر دوسرے ہاتھ کو نہ ہو" اور ہم سارے جہان میں نشر کرتے پھرتے ہیں۔۔۔ کیا صلہ ملے گا اس نیکی کا؟ یہ ہمیں سوچنا چاہئیے۔ خود نمائی اور ریاکاری سے بچنے کا سب سے اہم طریقہ خود احتسابی ہے ۔رات کو سونے سے پہلے اپنے دن بھر کے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے ۔جس شخص میں خود نمائی یا ریا کاری کا خناس نہ ہو وہ اعلی ظرف ہوتا ہے وہ اپنی زندگی اعلی اخلاقی اصولوں کے تحت بسر کرتا ہے۔

شاعر نے کیا خوب کہا ہے 

شوق خود نمائی کا انتہا کو پہنچا ہے
شہرتوں کی خاطر ہم سج گئے دکانوں پر

اکرام مجیب

آخر میں ایک حکایت اسی حوالے سے

کسی جگہ ابو نصر الصیاد نامی ایک شخص، اپنی بیوی اور ایک بچے کے ساتھ غربت و افلاس کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ ایک دن وہ اپنی بیوی اور بچے کو بھوک سے نڈھال اور بلکتا روتا گھر میں چھوڑ کر خود غموں سے چور کہیں جا رہا تھا کہ راہ چلتے اس کا سامنا ایک عالم دین احمد بن مسکین سے ہوا، جسے دیکھتے ہی ابو نصر نے کہا؛ اے شیخ میں دکھوں کا مارا ہوں اور غموں سے تھک گیا ہوں۔

شیخ نے کہا میرے پیچھے چلے آؤ، ہم دونوں سمندر پر چلتے ہیں۔

سمندر پر پہنچ کر شیخ صاحب نے اُسے دو رکعت نفل نماز پڑھنے کو کہا، نماز پڑھ چکا تو اُسے ایک جال دیتے ہوئے کہا اسے بسم اللہ پڑھ کر سمندر میں پھینکو۔

جال میں پہلی بار ہی ایک بڑی ساری عظیم الشان مچھلی پھنس کر باہر آ گئی۔ شیخ صاحب نے ابو نصر سے کہا، اس مچھلی کو جا کر فروخت کرو اور حاصل ہونے والے پیسوں سے اپنے اہل خانہ کیلئے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لینا۔

ابو نصر نے شہر جا کر مچھلی فروخت کی، حاصل ہونے والے پیسوں سے ایک قیمے والا اور ایک میٹھا پراٹھا خریدا اور سیدھا شیخ احمد بن مسکین کے پاس گیا اور اسے کہا کہ حضرت ان پراٹھوں میں سے کچھ لینا قبول کیجئے۔ شیخ صاحب نے کہا اگر تم نے اپنے کھانے کیلئے جال پھینکا ہوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا، میں نے تمہارے ساتھ نیکی گویا اپنی بھلائی کیلئے کی تھی نا کہ کسی اجرت کیلئے۔ تم یہ پراٹھے لے کر جاؤ اور اپنے اہل خانہ کو کھلاؤ۔

ابو نصر پراٹھے لئے خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اُس نے راستے میں بھوکوں ماری ایک عورت کو روتے دیکھا جس کے پاس ہی اُس کا بیحال بیٹا بھی بیٹھا تھا۔ ابو نصر نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پراٹھوں کو دیکھا اور اپنے آپ سے کہا کہ اس عورت اور اس کے بچے اور اُس کے اپنے بچے اور بیوی میں کیا فرق ہے، معاملہ تو ایک جیسا ہی ہے، وہ بھی بھوکے ہیں اور یہ بھی بھوکے ہیں۔ پراٹھے کن کو دے؟ عورت کی آنکھوں کی طرف دیکھا تو اس کے بہتے آنسو نا دیکھ سکا اور اپنا سر جھکا لیا۔ پراٹھے عوررت کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ لو؛ خود بھی کھاؤ اور اپنے بیٹے کو بھی بھی کھلاؤ۔ عورت کے چہرے پر خوشی اور اُس کے بیٹے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

ابو نصر غمگین دل لئے واپس اپنے گھر کی طرف یہ سوچتے ہوئے چل دیا کہ اپنے بھوکے بیوی بیٹے کا کیسے سامنا کرے گا؟

گھر جاتے ہوئے راستے میں اُس نے ایک منادی والا دیکھا جو کہہ رہا تھا؛ ہے کوئی جو اُسے ابو نصر سے ملا دے۔ لوگوں نے منادی والے سے کہا یہ دیکھو تو، یہی تو ہے ابو نصر۔ اُس نے ابو نصر سے کہا؛ تیرے باپ نے میرے پاس آج سے بیس سال پہلے تیس ہزار درہم امانت رکھے تھے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ ان پیسوں کا کرنا کیا ہے۔ جب سے تیرا والد فوت ہوا ہے میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں کہ کوئی میری ملاقات تجھ سے کرا دے۔ آج میں نے تمہیں پا ہی لیا ہے تو یہ لو تیس ہزار درہم، یہ تیرے باپ کا مال ہے۔
ابو نصر کہتا ہے؛ میں بیٹھے بٹھائے امیر ہو گیا۔ میرے کئی کئی گھر بنے اور میری تجارت پھیلتی چلی گئی۔ میں نے کبھی بھی اللہ کے نام پر دینے میں کنجوسی نا کی، ایک ہی بار میں شکرانے کے طور پر ہزار ہزار درہم صدقہ دے دیا کرتا تھا۔ مجھے اپنے آپ پر رشک آتا تھا کہ کیسے فراخدلی سے صدقہ خیرات کرنے والا بن گیا ہوں۔

ایک بار میں نے خواب دیکھا کہ حساب کتاب کا دن آن پہنچا ہے اور میدان میں ترازو نصب کر دیا گیاہے۔ منادی کرنے والے نے آواز دی ابو نصر کو لایا جائے اور اُس کے گناہ و ثواب تولے جائیں۔

کہتا ہے؛ پلڑے میں ایک طرف میری نیکیاں اور دوسری طرف میرے گناہ رکھے گئے تو گناہوں کا پلڑا بھاری تھا۔

میں نے پوچھا آخر کہاں گئے ہیں میرے صدقات جو میں اللہ کی راہ میں دیتا رہا تھا؟

تولنے والوں نے میرے صدقات نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دیئے۔ ہر ہزار ہزار درہم کے صدقہ کے نیچے نفس کی شہوت، میری خود نمائی کی خواہش اور ریا کاری کا ملمع چڑھا ہوا تھا جس نے ان صدقات کو روئی سے بھی زیادہ ہلکا بنا دیا تھا۔ میرے گناہوں کا پلڑا ابھی بھی بھاری تھا۔ میں رو پڑا اور کہا، ہائے رے میری نجات کیسے ہوگی؟

منادی والے نے میری بات کو سُنا تو پھر پوچھا؛ ہے کوئی باقی اس کا عمل تو لے آؤ۔

میں نے سُنا ایک فرشہ کہہ رہا تھا ہاں اس کے دیئے ہوئے دو پُراٹھے ہیں جو ابھی تک میزان میں نہیں رکھے گئے۔ وہ دو پُراٹھے ترازو پر رکھے گئے تو نیکیوں کا پلڑا اُٹھا ضرور مگر ابھی نا تو برابر تھا اور نا ہی زیادہ۔

مُنادی کرنے والے نے پھر پوچھا؛ ہے کچھ اس کا اور کوئی عمل؟ فرشتے نے جواب دیا ہاں اس کیلئے ابھی کچھ باقی ہے۔ منادی نے پوچھا وہ کیا؟ کہا اُس عورت کے آنسو جسے اس نے اپنے دو پراٹھے دیئے تھے۔

عورت کے آنسو نیکیوں کے پلڑے میں ڈالے گئے جن کے پہاڑ جیسے وزن نے ترازو کے نیکیوں والے پلڑے کو گناہوں کے پلڑے کے برابر لا کر کھڑا کر دیا۔ ابو نصر کہتا ہے میرا دل خوش ہوا کہ اب نجات ہو جائے گی۔

منادی نے پوچھا ہے کوئی کچھ اور باقی عمل اس کا؟

فرشتے نے کہا؛ ہاں، ابھی اس بچے کی مُسکراہٹ کو پلڑے میں رکھنا باقی ہے جو پراٹھے لیتے ہوئے اس کے چہرے پر آئی تھی۔ مسکراہٹ کیا پلڑے میں رکھی گئی نیکیوں والا پلڑا بھاری سے بھاری ہوتا چلا گیا۔ منادی کرنے ولا بول اُٹھا یہ شخص نجات پا گیا ہے۔

ابو نصر کہتا ہے؛ میری نیند سے آنکھ کھل گئی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا؛ اگر میں نے اپنے کھانے کیلئے جال پھینکا ہوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا اور اپنے کھانے کیلئے پراٹھے خریدے ہوتے تو آج نجات بھی نہیں ہونی تھی۔

اللہ ہم سب کو اس بیماری سے جلد شفا عطا فرمائے آمین!!

دعاؤں کی طلبگار
سیما آفتاب


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں