سورہ
العلق کی تشریح
پروفیسر محمد عقیل
پس
منظر
سورہ
العلق کی ابتدائی پانچ آیات وہ پہلی وحی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر
نازل ہوئیں۔ ان پانچ آیات کے بعد دیگر آیات کچھ عرصے بعد نازل ہوئیں۔
۱۔ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِىْ
خَلَقَ (1)
اپنے
رب کے نام سے پڑھیے جس نے سب کو پیدا کیا۔
تشریح:
عام طور پر اس آیت کے پہلے لفظ پر بہت زیادہ فوکس کیا جاتا ہے جس کی بنا پر اس آیت
کا پورا مفہو م ہی بدل جاتا ہے۔ یہاں اقرا کا لفظ ایک حکم اور ہدایت ہے۔ جیسے قرآن
میں کئی مقامات پر نبی کریم کو کہا گیا کہ ” قل” یعنی کہہ دو۔ تو اسی طرح یہاں اللہ
تعالی فرشتے کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے رہے ہیں کہ ” پڑھو”
یعنی جو کچھ وحی تمہیں دی جارہی ہے اسے پڑھو۔ اسی لیے جب جبریل علیہ السلام نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غار حرا میں ملے اور وحی کا یہ ابتدائی حکم دیا کہ ”
پڑھو” تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ ” ماانا بقاری ” یعنی میں
تو پڑھا ہوا نہیں تو کیسے پڑھوں یا کیا پڑھوں۔
تو اگر
ہم اقرا کے لفظ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی جانے والی ایک کمانڈ یا ہدایت
مان لیں باقی آیت کا مفہوم کم و بیش وہی ہے جو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا ہے۔
یعنی ” باسم ربک الذی خلق”۔ یعنی ابتدا ہے تمہارے رب کے نام سے جس نے تخلیق بھی
کیا۔ یہ ابتدا ہے قرآن کی اور انسانیت کو دی جانے والی آخری وحی کی۔ اور اس کی
ابتدا ہوتی ہے پالنے والے یعنی رب کے نام سے جو خالق بھی ہے۔ یہاں رب اور خالق کی
دو صفات کا مطلب اس وقت دیگر مذاہب میں ہائی جانے والے تصورات کی نفی کرنا تھا
جس میں پالنے والا خدا الگ اور پیدا کرنے والا الگ ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ کے مختلف
بتوں کے فنکشنز مختلف تھے۔ کوئی پیدا کرنے والا، کوئی پالنے والا ، کوئی حفاظت
کرنے والا تو کوئی کوئی اور کام کرنے والا تھا۔اس پہلی آیت نے اس پورے فلسفے کو
منہدم کردیا۔ یہ بتادیا کہ رب یعنی پالنے والا وہی ہے جس نے پیدا کیا اور یہ کوئی
اور نہیں ہے۔
اس آیت
کو دیکھیں تو یہ دراصل وحی کی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے ابتدا ہے البتہ یہاں
الفاظ مختلف ہیں۔
۲۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2)
انسان
کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔
پچھلی
آیت وحی کی ابتدا تھی تو یہ آیت انسان کے مادی وجود کی ابتدا کو بیان کرتی ہے۔
قرآن نے اس زمانے میں یہ بات کہہ دی کہ انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ یہ
رحم مادر میں نر اور مادہ کے ملاپ کے بعد زائگوٹ کی جانب اشارہ ہے جو ایک خون کے
لوتھڑے یا جمے ہوئے خون کی مانند ہی ہوتا ہے۔
سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ وحی کی ابتدا ہی میں اس دوسری آیت میں تخلیق کا یہ عمل بتانے کی
کیا ضرورت تھی؟ یہاں دراصل وحی بھیجنے والی ہستی کا تعارف کرایا جارہا ہے۔ کہ وہ رب
ہے، وہ خالق ہے تو اب اگر وہ خالق ہے تو اس کا ثبوت کیا ہے کہ وہی خالق ہے۔ اس کے
ثبوت کے لیے تخلیق کا وہ مرحلہ بیان کردیا جو اس وقت انسان کے علم میں نہیں تھا۔
ظاہر ہے یہ مرحلہ ایک خالق ہی جان سکتا ہے۔
یہ
مرحلہ اولین مخاطبین یعنی مشرکین مکہ کے لیے اہم نہیں تھا کیونکہ اس وقت وہ سائنسی
علم کے ارتقا کے بغیر اس سچائی کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ وہ خون کے لوتھڑے کو ایک
دوسری فارم میں جانتے تھے۔البتہ انہیں اس بات کا شعور ضرور تھا کہ انسان ایک حقیر
سے نطفے سے پیدا ہوتا ہے۔
یہاں
یہ بتایا جارہا ہے کہ یہ وحی جس ہستی کی جانب سے بھیجی جارہی ہے وہ کتنی عظیم اور
قدرت رکھتی ہے کہ ایک جمے ہوئے خون سے زندگی پیدا کرتی ہے۔ یہ اس کی عظمت کی وہ
دلیل ہے انسان کی نظروں کے سامنے ہے ۔ تو اسی وحی میں جب آگے یہ بتایا جائے گا کہ
وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا تو اس پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس وحی
اور اس پیغام کا بھیجنے والا کوئی معمولی نہیں بلکہ ہر شے پر قاد ر ہے۔
۳۔ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ (3)
پڑھیے
اور آپ کا رب سب سے بڑھ کر کرم والا ہے۔
یہاں
دوبارہ وہی لفظ ” اقرا” یعنی پڑھو استعمال ہوا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
تصور کیجے کہ وہ ایک غار میں موجود ہیں اور خدا کا فرشتہ ان سے ہم کلام ہے۔ وہ
اپنی زندگی میں پہلی باراس تجربے سے براہ راست گذررہے ہیں ، ایک عجیب مقام حیرت ہے،
ذہن میں کئی سوالات پوشیدہ ہیں۔ اس کیفیت میں فرشتہ ان سے مخاطب ہے تو وہ دوبارہ
ہدایت کرتا ہے کہ اس مقام حیرت اور ان سوالات کو فی الحال پس پشت ڈالیے اور پھر
پڑھیے۔اور گھبرائیے نہیں ، یہ کلام جس ہستی کی جانب سے آرہا ہے وہ کوئی جابر، قاہر
،ظالم اور متشدد قسم کی ہستی نہیں ۔ بلکہ وہ تو انہتائی کریم ، شفیق ، مہربان اور
خیال رکھنے والی ذات ہے۔ وہ آپ کے تمام سوالات کے جواب دے گی، آپ کی اس حیرت کو دور
کردے گی، وہ آپ کے اضطراب کو سکون میں بدل دے گی۔ یہ وہ پیغام ہے جو اس آیت میں خدا
نے اپنے نبی کو دیا۔
دوسری
جانب یہ آیت اپنے دوسرے مخاطبین کو وحی بھیجنے والی ہستی کی چوتھی صفت سے آشنا کرتی
ہے۔ پہلی آیت میں بتایا گیا کہ اس کلام کا بھیجنے والا رب بھی ہے ، خالق بھی ہے
اور قادر مطلق بھی ہے۔ اب یہاں بتایا جارہا ہے کہ وہ بہت ہی کرم ، لطف، مہربانی
والا خدا ہے۔ وہ بے شک سب سے بلندو بالا ہے لیکن دنیاوی حکمرانوں کی طرح وہ کوئی
سخت مزاج یا تشدد کرنے والا نہیں ہے۔ وہ اپنی بات جو بھیج رہا ہے وہ کوئی عذاب کا
پیغام نہیں بلکہ انسانیت کے رحمت ہے۔وہ اپنی بات اس وقت ماننے کا مکلف انسان کو
ٹھہراتا ہے جب وہ اچھی طرح سمجھادے اور مخاطب یہ بات اچھی طرح سمجھ لے۔ وہ اپنی مرضی
اگر تھوپنا چاہتا تو اس پیغام کے بغیر ہی یہ کام کردیتا۔ لیکن وہ تو کریم النفس
ہستی ہے۔
۴۔ اَلَّذِىْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ(4)
جس نے
قلم سے سکھایا۔
یہ وہ
ذات ہے جس نے انسان کو سکھایا۔ یہاں قلم ایک ٹول کے طور پر بیان ہوا ہے۔ دیکھا
جائے تو قلم یہاں مجازی معنوں میں ہے حقیقی معنوں میں نہیں۔ اگر ہم دیکھیں تو پین
یا قلم انسانی تاریخ میں بالکل ابتدا سے موجود نہیں تھا۔ پہلے انسان اپنے خیالات
کے اظہار کے لیے کلام، تصاویر ، بت اور دیگر طریقوں سے کیا کرتا تھا۔ اس کے بعد
انسان کی تاریخ میں قلم اگر آیا بھی تو وہ عوام کی بجائے مخصوص طبقات کے استعمال
میں تھا ۔ یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بہت کم لوگ لکھنا
اور پڑھنا جانتے تھے اور خود نبی کریم بھی لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتے
تھے۔
تو اگر
یہاں قلم سے مراد پین یا پر لیا جائے تو یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کہ انسان کو
ابتدا ہی سے قلم سے سکھایا گیا اور نہ ہی ہر انسان نے قلم سے سیکھا۔ بلکہ ہم دیکھیں
تو آج بھی ایک بچہ اپنی ابتدائی زندگی میں جو کچھ سیکھتا ہے وہ قلم کے بغیر ہی ہوتا
ہے۔اگر یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی جانے والی وحی مراد لی جائے تو یہ
بات بھی درست نہیں کیونکہ حضرت جبریل نے اس وقت قلم استعمال نہیں کیا
تھا۔
سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں قلم سے کیا مراد ہے۔ قلم درحقیقت ایک ٹول یا آلے طور پر
استعمال ہوا ہے۔ قلم کا کام انسانی کی سوچ ، علم اور خیالات کو منتقل کرنا ہوتا
ہے۔ چنانچہ ہر وہ چیز یا طریقہ کار جو علم کو آگے پہنچانے کا سبب بنے وہ قلم کی
ذیل میں آجائے گا۔ چنانچہ یہاں قلم سے مراد ہر وہ کمیونکیشن یا ابلاغ کا ذریعہ ہے
جس سے علم ایک شخص سے دوسرے شخص، ایک گروہ سے دوسرے گروہ اور ایک زمانے سے دوسرے
زمانے میں منتقل ہوتا ہے۔ اس میں قلم ، کمپیوٹر، زبانی تقریر، تصویر ، ہر طرح کی
کمیونکیشن کا ذریعہ شامل ہے۔
اس آیت
کا اصل پہلو قلم نہیں بلکہ سکھانے کا عمل ہے۔ قلم کا ذکر تو یہاں ضمنا آگیا ہے۔
اصل فوکس اس بات پر ہے کہ انسان کو سکھایا اور اسے علم دیا۔ اس سے پچھلی آیت میں
بات یہ ہوئی تھی کہ انسان کے حیوانی وجود کی ابتدا کس طرح جمے ہوئے خون سے ہوئی۔ اب
یہاں انسا ن کے روحانی وجود کی ابتدا کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ کس طرح انسان
کو سکھا کر اور اسے علم دے کر دیگر مخلوقات سے ممتاز کیا گیا۔ یہاں اسی خالق کی
صفت خلاق کی جانب اشارہ ہے کہ اس سنے انسان کے حیوانی وجودکو تخلیق کرنے کے بعد
تنہا نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس کو وہ سب کچھ سکھایا جس کی اسے ضرورت
تھی۔
یہاں
پس منظر واضح رہے کہ خدا انسانیت سے اپنے آخری آفیشل پیغام میں پہلی بار مخاطب
ہورہا ہے۔ تو یہ بات بتائی جارہی ہے کہ یہ وحی بھی اسی سکھانے کا عمل ہے۔ یہ وہ
پیغام ہے جس کی انسانیت کو ضرورت ہے اور اس کا سیکھنا اور اس کا جاننا بھی دیگر
چیزوں کی طرح ضروری ہے۔ سیکھنے کا عمل انسانی عقل سے متعلق ہے۔ اس لیے یہ آیت علم
اور عقل کی اہمیت کو بھی بیان کرتی ہے۔ عقل نہ ہو تو انسان پر نہ تو کوئی دنیاوی
قانون لاگو ہوتا ہے اور نہ کوئی دینی حکم۔ اسی لیے عقل کا ہونا ، اس کا استعمال
کرنا اور اس کا درست استعمال کرنا ہی اصل مقصد ہے۔
یہ آیت
اللہ کی صفت علیم و حکیم کی جانب اشارہ کررہی ہے۔
۵۔عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ(5)
انسان
کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔
اس آیت
میں یہ بتادیا کہ انسان کو جو کچھ بھی علم ملا ہے وہ خدا کی جانب سے ملا ہے۔انسان
کو اللہ تعالی نے جو علم دیا ہے وہ اس کی فطرت و جبلت اور وجدان کے ساتھ ساتھ وحی
کے ذریعے بھی دیا ہے۔ اسی طرح انسان اپنے تجربات سے بھی بہت کچھ سیکھتا اور اپنا
علم اگلی نسل کو منتقل کرتا ہے۔ اگر ہم دنیا کے علم کو دیکھیں تو کھیتی باڑی کرنا،
کھانا پکانا، شکار کرنا، جنسی تعلق قائم کرنا، رہائش تعمیر کرنا ، لباس پہننا ،
اسلحہ بناناوغیرہ وہ علوم ہیں جو انسان کو جبلت ، فطرت ، وجدان اور وحی کے ذریعے
ملے ہیں۔ اگر انسان ان سب علوم کو مائنس کردے تو اس کی زندگی غاروں کے دور میں چلی
جائے گی۔یہی حال تمام سائنسی ایجادات کا ہے۔ ان کو بنانے میں خدا کی جانب سے
راہنمائی ہر لمحہ پیش پیش رہی ہے۔
تو علم
عطا کرنا خدا کی دین ہے اور یہ وہ سار ا کا سارا علم ہے جو انسان نہیں جانتا تھا
بلکہ اسے مختلف طریقوں سے سکھایا گیا۔ اس آیت میں ایک جانب تو اللہ کی ربوبیت اور
خلاقی کی جھلک ہے تو دوسری جانب یہ پیغام بھی دیا جارہا ہے یہ وحی بھی اسی نوعیت کا
علم ہے جو ماضی میں خدا انسانوں کی ہدایت کے لیے نشر کرتا رہا ہے ۔ دیگر علوم کی
طرح یہ علم بھی اللہ کی جانب سے ہے اس لیے اس میں کوئی شک نہیں ہوناچاہیے۔ اس علم
میں اور دیگر علوم میں کچھ قدر مشترک اور کچھ بات مختلف ہے۔
اس وحی
کے علم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ براہ راست عالم کے پروردگار نے اپنے الفاظ میں نازل
کیا ہے جبکہ دیگر علوم بالواسطہ طور پر انسان کو وجدانی طور پر عطا کیے جاتے ہیں۔
دوسرا اہم فرق یہ ہے کہ دیگر علوم کے منتقل ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک نسل اپنے
سے اگلی نسل کو یہ منتقل کرتی ہے جبکہ یہ علم ایک ہی شخص کو عطا کیا جارہا ہے اور
یہاں سے اس کا انتقال ہوگا۔ تیسر ی چیز یہ ہے اس علم کے ماننے اور نہ ماننے کا
نتیجہ باقی علوم کی طرح نہیں ہوگا۔ اگر کسی نے یہ سمجھ لیا کہ یہ خدا کی جانب سے ہے
اور اس کے باوجود نہیں مانا تو اس کا انکار خدا کی توہین کے مترادف ہوگا۔ جس کا
نقصان بھگتنا پڑے گا۔
یہ آیت
خدا کے رحمان و رحیم ہونے کی جانب اشارہ کررہی ہے کہ اس کی کرم نوازی کہ اس نے
انسان کو و ہ سب سکھادیا جس کی اسے ضرورت تھی۔
ابتدائی پانچ آیات کا خلاصہ
یہ
پانچ آیات انسانوں کو ایک عظیم ہدایت دینے سے قبل ایک تعارف کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ان میں یہ بتایا گیا کہ یہ پیغام کسی انسان ، فرشتے، جن یا دیگر مخلوق کی جانب سے
نہیں ہے ۔ اس کی نسبت عالم کے پروردگار کی جانب ہے ۔ اسی لیے یہ کہا گیا کہ ” اپنے
رب کے نام سے جس نے پیدا کیا”۔ یعنی یہ پیغام اسی رب کے نام سے ہے جو خالق بھی ہے۔
وہ قادر مطلق خالق بھی ہے جس نے جمے ہوئے خون سے انسان کے حیوانی وجود کو پیدا
کیا۔ وہ رب یاآقا انتہائی کرم کرنے والا ہے ۔ اسی کرم کا تقاضا اور نتیجہ ہے کہ
انسان کو مختلف ذرائع سے سکھایا اور عقل عطا کی اور وہ سب کچھ سکھایا جو اس کی
دنیاوی زندگی اور اخروی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ یہ وحی بھی اسی سکھانے کا
عمل کا تسلسل ہے جو ایک کریم ، قادرالمطلق ،علیم اور حکیم آقا کی جانب سے عطا کی
جارہی ہے۔
اگلی
آیات
جیسا
کہ ان آیات سے پتا لگ رہا ہے کہ آگے کی آیات کچھ عرصے بعد نازل ہوئیں۔ یعنی جب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائی پانچ آیات وحی کی گئیں تو آپ پر نفسیاتی
طور پر ایک تردد و خوف کی کیفیت طاری ہوگئی۔ آپ نے سب سے پہلے اس کا اظہار اپنی
بیوی حضرت خدیجہ اور اپنے دوست ابوبکر صدیق سے کیا۔ دونوں نے آپ کو تسلی دی کہ یہ
جو کچھ بھی ہے اس سے آپ کو نقصان نہیں پہنچنے والا کیونکہ آپ تو خود اک نیک سیرت
انسان ہیں۔ حضرت خدیجہ کے کزن ورقہ بن نوفل نے تصدیق کی کہ یہ وہی وحی کا علم ہے جو
ماضی میں بھی لوگوں کو دیا گیا ہے۔
اس
ابتدائی بات چیت کے بعد ظاہر ہے یہ بات آہستہ آہستہ مکہ میں پھیلی ہوگی ہے محمد
صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی
خوشی، غمی اور حیرت سب سے پہلے اپنے قریبی ساتھیوں اور رشتے داروں ہی سے شئیر کرتا
ہے۔ تو نبی کریم نے یہ دعوت اسی فطری جذبے کے تحت اور خدا کے حکم سے اپنے قریبی
رشتہ داروں کے سامنے رکھی۔ اس وقت نبی کریم کی عمر صرف چالیس سال تھی اور آپ کے
رشتے داروں میں بہت سے لوگ آپ سے دنیاوی رتبے اور عمر میں بڑے تھے۔ ان میں سب سے
اہم ابولہب ، ابوجہل اور ابوطالب تھے جو نبی کریم کے چچا بھی تھے اور بنی ہاشم
قبیلہ کے کرتا دھرتا تھے۔
ابوجہل
کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے مخالفت کا آغاز ہوا کیونکہ آپ کے اور ابوجہل
کے مکانات بھی قریب قریب تھے۔ ایک تو رشتہ داری کی قربت دوسرے ہمسائیگی۔ آپ کی
خواہش یہی ہوگی کہ ابوجہل چچا کی حیثیت سے آپ کو سپورٹ کریں اور اس مشکل وقت میں
کام آئیں۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ اسی پہلے کھلم کھلم اختلاف کو قرآن نے
موضوع بنا کر بیان کیا۔ اس کے بیان کی وجہ اس کا خلاف توقع ہونا ، اسکی شدت اور بے
اصولی تھی۔ اسی پس منظر میں ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔
۶۔ كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى (6)
اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى (7)اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰى(8)
ہرگز
نہیں، بے شک آدمی سرکش ہو جاتا ہے۔جب کہ اپنے آپ کو غنی پاتا ہے۔بے شک آپ کے رب ہی
کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
یہاں
بات عمومی طور پر بیان ہوئی ہے ۔ وحی کی دعوت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
کئی تجربات سے گزرنا تھا اور اس میں سب سے پہلا تجربہ یہی اصول تھا کہ انسان کے جب
سارے مسائل حل ہورہے ہوتے ہیں تو اس سے اس میں سرکشی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ رویہ
قریش کی لیڈر شپ میں بالکل عام تھا اور ابتدا میں جو لوگ ایمان لائے تھے وہ غریب
لوگ تھے۔ حالانکہ انسان جانتا ہے کہ وہ سب کچھ یہیں چھوڑ کر چلا جائے گا۔ تو جو چیز
اس میں تکبر پیدا کررہی ہے وہ تو ایک عارضی چیز ہے۔
یہی
اصول آج کے دن بھی موجود ہے۔ خدا کی یاد سے غافل بالعموم امیر اور دولت مند ہی ہوتے
ہیں۔ انہیں خدا کا حکم ماننا برا لگتا ہے کیونکہ وہ خود کو لاشعور ی طور پر بڑا
سمجھتے اور قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ وہ ہر اصول، قانون اور حکم کو پیسوں سے
خریدنا چاہتے ہیں۔ یہیں سے ان کی گمراہی اور تباہی کی بنیاد پڑ جاتی
ہے۔
۷۔ اَرَاَيْتَ الَّذِىْ
يَنْهٰى (9)عَبْدًا اِذَا صَلّىٰ (10)
کیا آپ
نے اس کو دیکھا جو منع کرتا ہے۔ایک بندے کو جب کہ وہ نماز پڑھتا ہے۔
یہاں
وہی ابوجہل کی جانب اشارہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ابوجہل نے نہیں ماننا تھا تو نہ
مانتا ، وہ نبی کریم کو دعوت دینے سے کیوں روکنے لگا خاص طور پر جب آپ مراسم عبودیت
ادا کررہے تھے اس وقت۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ ابوجہل قریش کے لیڈروں میں سے تھا۔
خانہ کعبہ میں بت پرستی اس وقت اہل مکہ اور بالخصوص قریش کے لیے ایک معاشی فائدہ
کے باعث تھی۔ لوگ دوردراز کے علاقوں سے یہاں حج اور عمرہ کرنے اور اپنے بتوں کو
چڑھاوے چڑھانے کے لیے آتے تھے۔ ظاہر ہے، اگر بت پرستی کا خاتمہ ہوتا تو قریش کو
ملنے والی ایک بڑی رقم سے ہاتھ دھونا پڑتے۔ اس کے علاوہ نبی کریم کو رسول ماننے کے
بعد سیاسی حکمرانی بھی ممکنہ طور پر قریش کی اس وقت کی لیڈرشپ کے ہاتھوں سے نکل
جاتی۔
اس
تناظر میں ابوجہل نے نہ صرف دعوت کا انکار کیا بلکہ اس کا سب سے بڑا مخالف بن کر
کھڑا ہوگیا۔ ان آیات میں اسی جانب اشارہ ہے کہ ابوجہل کو تم نے دیکھا کہ کس طرح اس
نے ہمارے بندےمحمد کو اپنے رب کے آگے جھکنے سے روک دیا۔
ابوجہل
کی دوسری حیثیت مذہبی نظام کے پیشوا اور کرتا دھرتا کی تھی۔ اس کی مخالفت کی ایک
دوسری وجہ یہی مذہبی پروہتوں کی نمائندگی تھی۔ امیروں کے بعد دوسرے لوگ جو غنی ہوتے
ہیں اور لاپرواہی کا شکار ہوسکتے ہیں وہ مذہبی لیڈرشپ ہے۔ ان کے پاس دولت کے برعکس
ایک دوسری طاقت ہوتی ہے اور وہ ہے خدا کے نام پر لوگوںکو احکامات دینا۔ اس بات کا
قوی امکان ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس طاقت کا غلط استعمال کرلیں گے۔ چنانچہ ماضی میں بنی
اسرائل کے علماء نے یہی کیا یہاں تک کہ اپنی مذہبی گدی بچانے کے لیے حضرت مسیح علیہ
السلام تک کو پھانسی چڑھانے کی کوشش کی۔
اسی
خدشے کا اظہار نبی کریم نے اپنی امت کے لیے کیا تھا کہ تم ضرور یہود و نصاری کی
پیروی کروگے۔ یہی معاملہ ہماری مذہبی لیڈرشپ کے ساتھ ہوچکا ہے۔ آج مدارس میں جب بھی
اصلاحات لانے کی بات کی جاتی ہے تو اسی قسم کی مخالفت ان کی جانب سے پیدا ہوتی
ہے۔
۸۔اَرَاَيْتَ اِنْ كَانَ عَلَى
الْهُدٰٓى
(11)اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوٰى(12)
بھلا
دیکھو تو سہی اگر وہ راہ پر ہوتا۔یا پرہیز گاری سکھاتا۔
یہاں
اس تاسف کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ابو جہل ایک لیڈر ہونے
کے ناطے اور نبی کریم کا قرابت دار ہونے کے ناطے خود ہدایت کو قبول کرتا اور اسی
تقوی کا حکم دیتا جو نبی کریم دے رہے تھے۔ لیکن و ہ اس مشن میں ساتھی بننے کی بجائے
مخالف بن گیا۔
۹۔ اَرَاَيْتَ اِنْ كَذَّبَ
وَتَوَلّىٰ (13)
اَلَمْ يَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰهَ يَرٰى (14)
بھلا
دیکھو تو سہی اگر اس نے جھٹلایا اور منہ موڑ لیا۔تو کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ
رہا ہے۔
یہ
ابوجہل کے برے رویے اور باڈی لینگویج کی جانب اشارہ ہے۔ کہ اس نے اس حق میں ساتھی
بننے کی بجائے اسے جھٹلادیا اور منہ موڑ لیا۔ اگلی آیت میں یہ بتایا جارہا ہے کہ
کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے
کہ ابوجہل کو ئی ملحد نہیں تھا بلکہ وہ خدا کو مانتا تھا اور اپنے مذہب کا پیروکار
تھا۔ وہ اصلا مذہب ابراہیمی کا پیروکار تھا اور جانتا تھا کہ اللہ ہر وقت دیکھ
رہا ہے۔ اس علم کے باوجود اس کا نبی کریم سے پرتشدد رویہ یہ بتارہا تھا کہ وہ
انتقام کی آگ میں اس حد تک آگے جاچکا تھا کہ اپنے مذہب کی اقدار بھی فراموش
کربیٹھتا تھا۔
۱۰۔ كَلَّا لَئِنْ لَّمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا
بِالنَّاصِيَةِ (15) نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ(16)
ہرگز
ایسا نہیں چاہیے، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے۔پیشانی
جھوٹی خطا کار۔
یہاں
ابوجہل کو وارننگ دے دی گئی تھی کہ تمہار ا معاملہ کسی عام انسان سے نہیں بلکہ
عالم کے پروردگار سے ہے۔ یہاں پیشانی کے بال سے پکڑ کر گھسیٹنے کا جملہ اپنے مجازی
معنوں میں ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ مرنے کے بعد اسے دوزخ کے فرشتے اس طرح
گھسیٹیں گے۔ ایک دوسری تعبیر یہ ہے کہ انسان کی پیشانی کے سامنے والا حصہ بہت اہم
ہوتا ہے ۔ اگر اسے نقصان پہنچ جائے انسان کی عقل ختم ہوسکتی اور وہ دماغی طور پر
بالکل معذور ہوسکتا ہے۔ تو یہاں اشارہ ہے کہ اگر یہ شخص باز نہ آیا تو ہم اسے نہ
صرف جاہل بنادیں گے بلکہ جاہلوں کے سردار کے نام سے رہتی دنیا تک زندہ رکھیں گے۔
واضح رہے کہ ابوجہل کا اصل نام عمرو ابن ہشام تھا۔ ابوجہل یعنی جاہلوں کا سردار کا
لقب تو اسے بعد میں ملا جب اس نے اسلام کی مخالفت میں انتہائی درجے کی جہالت کا
اظہار کیا۔ یہی ابوجہل کا لقب اس آیت میں کی گئی پیشن گوئی کا اظہار
ہے۔
۱۱۔ فَلْيَدْعُ نَادِيَهٝ (17)
سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ (18)
پس وہ
اپنے مجلس والوں کو بلا لے۔ہم بھی مؤکلین دوزخ کو بلا لیں گے۔
یہاں
یہ وارننگ شدید رخ اختیار کررہی ہے ۔ چونکہ ابو جہل کی مخالفت اب اس مقام پر پہنچ
گئی تھی کہ اس نے تشدد کا رخ اختیار کرلیا تھا۔ تو یہاں پہلے تو اسے ڈائیلاگ کی دعوت
دی گئی کہ وہ بھی اپنا جتھا لے آئے تو ہم بھی اپنا جتھا لے آتے ہیں اور بات کرکے
دیکھ لیتے ہیں کہ کون جاہل ہے۔
۱۲۔كَلَّا ۖ لَا
تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ
۩ (19)
ہرگز
ایسا نہیں چاہیے، آپ اس کا کہا نہ مانیے اور سجدہ کیجیے اور قرب حاصل
کیجیے۔
یہاں
نبی کریم کو حکم دیا جارہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اس کی باتوں کی طرف توجہ
فرمالیں۔ دراصل یہاں نبی کریم کو مخاطب کرنے کے ساتھ بالواسطہ نومسلموں کو مخاطب کیا جارہا
ہے کہ تم ان کی باتوں میں نہ آجانا، اس کے تشدد کی پروا مت کرنا، اس کی ظلم ستم سے
نہ گھبرانا۔ بس جب بھی اس کی باتوں سے یا تشدد سے تکلیف ہو تو اللہ کا قرب تلاش
کرکے اور خواہشات و جذبات کو خدا کے آگے سرنگوں کردینا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں