تحریر: عمر الیاس
امجد اسلام امجد کی نظم 'برزخ' ایک شاہکار ہے
1971 کی جنگ کے پس منظر میں کافی نظمیں لکھی گئی ہیں، ان میں سے اس ایک نظم نے میری توجہ کھینچی اور کئی سال بعد بھی کچھ نہ کچھ حصہ میرے حافظے میں رہا۔
بحیثیتِ قوم ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر بہت سے پریشان کن حالت سے گزرے ہیں، الحمدللہ ہم اتنے برے نہیں ہیں ، ہم بھی سب کی طرح ہیں۔ قدرت کی تنبیہہ اور یاددہانی( اپنے اعمال کے نتائج کے طور پر کہنا زیادہ بہتر ہے) جب بھی سامنے آئی، بھلے وہ مشرقی پاکستان کی شرمناک شکست/ علیحدگی ہو، یا شیطان ٖصفت حکمران، چاہے وہ انفرادی اور اجتماعی بے برکتی کی شکل میں ہو یا بڑھتے ہوئے خطرات ( پاکستان ہمیشہ سے نازک موڑ پر رہا ہے)، اس کے با وجود امید کی ایک کرن موجود ہے کہ ہم میں اثر انگیزی کی قابلیت اور صلاحیت ہے۔
میں یہاں دہرانا چاہوں گا کہ ساری بات ذمہ داری لینے اور احساس کی ہے ، اگر ہماری قومی قیادت اس کو اس کے درست معنوں میں سمجھے تو یقیناً بہت فرق پڑ سکتا ہے ، انفرادی طور پر بھی۔ یہ نظم ایک پیغام ہے ٹوٹے وعدوں اور فراموش کیے گئے عہد کا، اپنے اصل معنوں میں "توبہ" کا پہلا حصہ ہے احساس پیدا ہونا اور غلطی ماننا (بعد میں ان کی معافی مانگنا، دوبارہ نہ کرنے کا عہد کرنا، اور پھر دوبارہ اس سے باز رہنا)
مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس احساس اور ذمہ داری کی ضرورت ہو ( 'احساس" جس کو اقبال نے "متاعِ کارواں" کہا)، صرف تب ہی ہم نئے عہد کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
"ہم گناہ گار ہیں
اے زمینِ وطن
ہم گناہ گار ہیں
ہم نے نظموں میں تیرے چمکتے ہوئے بام و در کے جہاں تاب قصے لکھے
پھول چہروں پہ شبنم سی غزلیں کہیں، خواب آکنھوں کے خوشبو قصیدے کھے
تیرے کھیتوں کی فصلوں کو سونا گِنا، تیری گلیوں میں دل کے جریدے لکھے
جو تصور کے لشکر میں لڑتے رہے
ہم وہ سالار ہیں
اے زمینِ وطن
ہم گناہ گار ہیں
جاگتی آنکھ سے خواب دیکھے، انہیں اپنی مرضی کی تعبیر دیتے رہے
ہم تیرے بارور موسموں کے لیے بادِ صر صر میں تاثیر دیتے رہے
ہم اندھیرے مناظر کو روشن دنوں کی امیدوں سے تنویر دیتے رہے
تیرے ساحل کی آزادیوں کے لیے، ہم طلاطم کو زنجیر دیتے رہے
جو ہمیشہ تجھے آرزو کے جھروکے سے تکتے رہے
ہم وہ فنکار ہیں
اے زمینِ وطن
ہم گناہ گار ہیں
ہم گناہ گار ہیں اے زمیںِ وطن، ہم تیرے دکھ سمندر سے غافل رہے
تیرے چہرے کی رونق دھواں ہو گئی، ہم رہینِ حدیثِ غمِ دل رہے
ظلم کے رُوبرو لب کشائی نہ کی، اس طرح ظالموں میں بھی شامل رہے
حشر آور دنوں میں جو سوئے رہے
ہم وہ بیدار ہیں
اے زمینِ وطن
ہم گناہ گار ہیں
جب تیرے زرد پڑتے ہوئے موسموں کو مہکتی شفق کی ضرورت پڑی، ہم نے اپنا لہو آزمایا نہیں
تیری خوشبو سکوں کی تمنا لیے آندھیوں کے جلو میں بھٹکتی رہی، ہم نے روکا نہیں
تیری مٹی نگاہوں میں بادل لیے خشک موسم کے رستے میں بیٹھی رہی، ہم نے دل کو سمندر بنایا نہیں
تیری عزت زمانے کے بازار میں دل جلاتی ہوئی بولیوں پر بکی، ہم نے کانوں میں سیسہ اتارا نہیں
اے زمینِ وطن
تجھ کو تو علم ہے لوگ کیوں گردِ راہِ ملامت ہوئے
جن محافظ نما دشمنوں کے عَلم تیرے روشن لہو کی شہادت ہوئے
ہم بھی ان کی سیاست کے نخچیرہیں، آستینوں کے جو سانپ ثابت ہوئے
ہم بھی تیری طرح سازشوں کی ہوا کے گرفتار ہیں
ہم گنہگار ہیں
اے زمینِ وطن
ہم گنہگار ہیں"
مکمل نظم سننے کے لیے: اے زمینِ وطن
پڑھنے کے لیے: اے زمینِ وطن
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں