تدبر القرآن
سورۃ البقرہ
نعمان علی خان
حصہ- 39
فإذا قرأۃ القرآن فاستعذ بالله من الشيطان الرجيم
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَبَشِّرِ الَّذِين آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ
جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْهَا
مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقاً قَالُواْ هَـذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ
وَأُتُواْ بِهِ مُتَشَابِهاً وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ
وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔ 25
خوش
خبری دیجیے لوگوں کو.
یہ پیغمبر اسلام کی سنت ہے. اللہ کی طرف سے مصحف میں
وہ پہلا حکم جو براہ راست پیغمبر اسلام کو دیا گیا ہے. کیا ہے بھلا ؟
*بَشِّر* مبارکباد دیں. خوشخبری دیں. یہاں اللہ تعالٰی ایمان والوں کو
انداز سکھا رہے ہیں کہ دعوت کا کام کیسے کرنا ہے؟
*وَبَشِّرِ الَّذِين آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ*
اس آیت میں لفظ *عملو* کا استعمال کیا گیا . اعمال الصالحات یعنی نیک
اعمال. صالحات= جمع مؤنث سالم ہے. جمع کی چھوٹی مقدار. خوشخبری دیں ان کو
جو ایمان لائے اور چند (گنے چنے) نیک اعمال سر انجام دیئے. اللہ تعالٰی ہم
سے کوئی لمبی چوڑی فہرست کی پیروی نہیں چاہتے. وہ ہم سے، ایمان کے بعد،
چند بنیادی نیک اعمال کی پابندی چاہتے ہیں.
لوگ اکثر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے پاس آتے اور کہتے کہ آپ (صل اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہمیں کوئی ایسا عمل بتائیے کہ جس کو اختیار کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں. رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ان کو یہ نہیں کہتے تھے کہ آؤ بیٹھو اور پھر ان کو کوئی 800 اعمال کی فہرست تھما دیتے . کہ تمہارے دل کی صفائی کے لیے یہ یہ ضروری ہے اور صرف انہی طریقوں پر عمل کر کے ہی تمہارا تزکیہ ہو گا."
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا نئے مسلمانوں کی تربیت کا یہ انداز نہیں تھا. بلکہ کسی شخص کے مزاج کو دیکھتے ہوئے آپ کہتے.. *لا تغضب*.. غصہ مت کرو. کسی دوسرے کو نصیحت کرتے. *اپنی والدہ سے احسن سلوک کرو*.. کسی کو محض،*لا الہ الا اللہ* پڑھنے کی تلقین کرتے. کہ اپنے ایمان کی مضبوطی کیلئے اسے لازم پکڑ لو. اب دیکھیے کیا رسول اللہ ہر شخص کو ایک ہی نصیحت کرتے تھے؟ نہیں! بلکہ وہ لوگوں کی پہلے روحانی، اور نفسیاتی تشخیص کرتے تھے اور پھر ان کو عمل کیلئے صرف ایک بات بتاتے تھے. جس پر عمل کر کے وہ بہتر انسان، اچھے مسلمان بن سکیں. آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) لوگوں پر ایک دم بہت زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے تھے. کہ عمل پر عمل. یا تاکید پر تاکید.
لوگ اکثر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے پاس آتے اور کہتے کہ آپ (صل اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہمیں کوئی ایسا عمل بتائیے کہ جس کو اختیار کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں. رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ان کو یہ نہیں کہتے تھے کہ آؤ بیٹھو اور پھر ان کو کوئی 800 اعمال کی فہرست تھما دیتے . کہ تمہارے دل کی صفائی کے لیے یہ یہ ضروری ہے اور صرف انہی طریقوں پر عمل کر کے ہی تمہارا تزکیہ ہو گا."
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا نئے مسلمانوں کی تربیت کا یہ انداز نہیں تھا. بلکہ کسی شخص کے مزاج کو دیکھتے ہوئے آپ کہتے.. *لا تغضب*.. غصہ مت کرو. کسی دوسرے کو نصیحت کرتے. *اپنی والدہ سے احسن سلوک کرو*.. کسی کو محض،*لا الہ الا اللہ* پڑھنے کی تلقین کرتے. کہ اپنے ایمان کی مضبوطی کیلئے اسے لازم پکڑ لو. اب دیکھیے کیا رسول اللہ ہر شخص کو ایک ہی نصیحت کرتے تھے؟ نہیں! بلکہ وہ لوگوں کی پہلے روحانی، اور نفسیاتی تشخیص کرتے تھے اور پھر ان کو عمل کیلئے صرف ایک بات بتاتے تھے. جس پر عمل کر کے وہ بہتر انسان، اچھے مسلمان بن سکیں. آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) لوگوں پر ایک دم بہت زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے تھے. کہ عمل پر عمل. یا تاکید پر تاکید.
اچھا تو اب آپ کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟ ان موسمیاتی/اتفاقی طالب علموں سے جو کبھی کبھار ہی مسجد کا رخ کرتے ہیں. اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو فجر کی نماز کیلئے مسجد آتے ہیں، ان کی عبادت کا درجہ بلند ہے اور وہ اکثر روزے بھی رکھتے ہیں. اچھی باتیں ان کے لیے مزید نیک اعمال کی تحریک بنتی ہیں.... لیکن یہاں ذکر ان لوگوں کا ہے جو بمشکل اسلام کو قائم رکھ پا رہے ہیں. وہ کسی ایک چیز کو پکڑنا چاہتے ہیں. ان کو لمبی فہرست کی ضرورت نہیں ہے. وہ صرف ایک بات دریافت کر لیں کہ جس پر استقامت اختیار کر کے وہ جنت کا راستہ پا جائیں..
استاد نعمان علی خان
جاری ہے..........
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں