وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَالْمُحْسِنِينَ
اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے رہو، بے شک اللہ کی رحمت نیک لوگوں سے بہت قریب ہے۔
سورۃ الاعراف (56)
اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے رہو، بے شک اللہ کی رحمت نیک لوگوں سے بہت قریب ہے۔
سورۃ الاعراف (56)
محبت اور خوف
تحریر: ابو یحییٰ
مجھ سے بارہا ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ انسان کے لیے اچھے اعمال کا محرک کیا ہونا چاہیے ۔ ۔ ۔ اللہ کا خوف یا اللہ کی محبت۔ میں اس بات کا ہمیشہ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ جو کہ قرآن مجید ہی کی عملی شکل ہے ، کی روشنی میں یہ جواب دیتا ہوں کہ دونوں ہی ضروری ہے ۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہر موقع بے موقع اللہ سے ڈرایا جاتا رہے یا ہمہ محبت اور شوق کی بات کر کے خوف خدا سے لوگوں کو بے نیاز کر دیا جائے ۔
قرآن مجید اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ بندوں کا رب سے تعلق دونوں پہلوؤں سے ہونا چاہیے ۔ چنانچہ جگہ جگہ قرآن مجید میں ’’خوف و طمع کے ساتھ اسے پکارو‘‘ جیسی تعبیرات استعمال ہوئی ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشیر یعنی خوشخبری دینے والا اور نذیر یعنی خبردار کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ جنت کے ذکر سے بھی قرآن مجید بھرا ہوا ہے اور جہنم کے عذابوں کا ذکر بھی کم نہیں ہے ۔ سب سے بڑھ کر ’’ اللہ سے محبت‘‘ بھی اہل ایمان کا وصف بیان ہوا ہے اور ’’ بن دیکھے ڈرتے رہنا ‘‘ بھی ان کی صفت بیان ہوئی ہے ۔
ان دونوں چیزوں کو ساتھ ساتھ بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک انسان پر زندگی میں دونوں طرح کے لمحات آتے ہیں ۔ اسے نیکیوں کی طرف رغبت بھی ہوتی ہے۔ شکرگزاری اور احسان مندی کے جذبات بھی جنم لیتے ہیں ۔ ساتھ میں غفلت و فراموشی کی کیفیت بھی طاری ہوتی ہے ۔ شہوت اور غضب بھی انسان پر سوار ہوتے ہیں ۔ پہلی صورت میں بشارت اور رحمت کی نوید اس کا حوصلہ بڑھاتی ہے اور دوسری صورت میں نار جہنم کے شعلے اسے واپس راہ راست پر لاتے ہیں ۔ چنانچہ قرآن مجید کے بیانات نفسیات انسان کا مکمل جواب ہیں ۔
خرابی اصل میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی مصلح قرآن مجید کو معیار بنانے کے بجائے اپنے ذوق، طبیعت اور مزاج کو بنیاد بنا کر دین کو بیان کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ اس کا مزاج شدت پسند ہو تو وہ لوگوں کی ہر غلطی کا ذکر سنتے ہی اپنی زبان سے نار جہنم کے شعلے برسانا شروع کر دیتا ہے۔ وہ چھٹانک بھر غلطی کو اٹھاتا ہے اور منوں وزنی جرائم سے متعلق سزا سنا دیتا ہے ۔ وہ سد ذریعہ کی نوعیت کے حکم کو لیتا ہے اور اسے ایسے پیش کرتا ہے گویا اسے چھوڑا تو انسان دین کے دائرے سے باہر نکل جائے گا۔
مزاج سہولت پسند ہو تو غفلت و معصیت کی ہر قسم پر بھی ’’ اللہ معاف کرنے والا ہے‘‘ کہہ کر ایسے رعایت دی جاتی ہے کہ توبہ اوراصلاح کا کوئی خیال ذہن میں نہیں آتا۔ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے ایسے فضائل سنائے جاتے ہیں کہ انسان عمل صالح کی تمام اقسام سے خود کو فارغ سمجھتا ہے ۔ بندوں کے حقوق کی ایسی دہائی دی جاتی ہے کہ نماز روزہ دین سے خارج محسوس ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک دوسری انتہا ہے اور پہلی کی طرح ہی غیر مطلوب ہے ۔
بندہ مومن خوف و امید دونوں میں جیتا ہے ۔ اس کی امید ایسی ہوتی ہے کہ اگر کائنات میں سے صرف ایک شخص کی معافی کی گنجائش ہو تو اللہ کی رحمت سے وہ خود ہی کو اس کا حقدار سمجھتا ہے اور خوف ایسا ہوتا ہے کہ اگر ایک ہی شخص کے جہنم رسید ہونے کا اعلان کر دیا جائے تو وہ ڈرتا ہے کہ یہ شخص کہیں وہی نہ ہو۔
تاہم عملی طور پر اس میں سب سے اچھی راہ یہ ہے کہ انسان ہر عمل کرنے سے پہلے خوف و اندیشہ میں جیے اور پوری قوت سے بہترین عمل کرنے کی کوشش کرے ۔ جب بہترین کوشش کر لے تو اللہ پر بھروسہ رکھے کہ اس سے بڑھ کر عالی ظرف اور رحمدل ہستی کوئی نہیں ۔ وہ چھوٹے سے چھوٹے عمل کا بدلہ پہاڑ کے برابر دینے والا ہے ۔ یہ امید اور اندیشہ اور خوف و رجاء ایمان میں وہ حسن پیدا کرتا ہے جو اللہ کو مطلوب ہے ۔
BAHUT ACCAH MAZMON JAZAKALLAH
جواب دیںحذف کریںجزانا وایاکم
حذف کریں