آئیے امید ڈھونڈتے ہیں


آئیے امید ڈھونڈتے ہیں
منقول

دماغ سے متعلق ایک لیکچر کے دوران ٹیچر نے بولا کے سب اپنی اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ جب سب نے آنکھیں بند کی تو دو پل کے بعد ٹیچر نے ایک رنگ کا نام لیا اور بولا کہ آنکھیں کھول کے فوری طور پر اپنے ارد گرد اس رنگ کو تلاش کریں۔
جب میں نے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر نظر دوڑائی تو وہ رنگ جہاں جہاں بھی تھا، مجھے نظر آنے لگا، چاہے وہ دیوار پہ لگے دھبے کی صورت تھا جس پر پہلے کبھی دھیان ہی نہ گیا تھا، یا پھر کتاب کے کوّر پر جو دن میں کئی مرتبہ دیکھنے پر بھی نظر نہ آیا تھا۔ میں حیران تھی، جس طرف بھی نظر دوڑائی اس رنگ نے اپنی موجودگی کا پتہ دیا۔ تب مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ دراصل یہ دماغ ہی ہے جو انسان کو وہی دیکھاتا ہے جو وہ دیکھنا چاہے۔ وہ سناتا ہے جو وہ سننا چاہے۔

آج میں ایک اور چیز سوچنے پہ مجبور ہوں کہ یہ جو مجھے ہر طرف ناامیدی اور مایوسی نظر آتی ہے اسکی اصل وجہ ہے کیا۔ میں اداس ہوں تو لگتا سارا زمانہ اداس ہے۔ بے حسی، نفرت، دھوکہ، فریب یہ سب ہر جگہ کیوں نظر آتے ہیں۔ یہ بھی دماغ کاہی کھیل ہے۔ شائد امید اور نا امیدی ہر جگہ ہی موجود ہیں صرف میرے دماغ کی سیٹنگ ہے جو مجھے نا امیدی دیکھائی دیتی ہے۔ انسانیت اب بھی باقی ہے، وفاداری اور محبت کہیں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہیں، کیوں کہ میرا دماغ یہ سب محسوس کرنا نہیں چاہتا تو میں بھی ایسی چیزوں کے پاس سے بے حس گزر جاتی ہوں۔

آج ایک کام کرتے ہیں ایک بار آنکھیں بند کر کے دماغ کی ساری سیٹنگز کو ریسٹور(Restore) کرتے ہیں اور دماغ کو سمجھاتے ہیں کہ اب امید کو ڈھونڈے۔ مجھے یقین ہے آنکھیں کھولنے پر امید جہاں جہاں بھی ہوگی ضرور اپنا پتہ دے گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں