دنیا میں اس وقت جتنی خرابیاں نظر آرہی ہیں اور جتنا فساد پھیلا ہوا ہے اس کا سبب یا تو دین ہے کہ دین حق کے پیروکاروں کو باطل کی طرف سے تکلیفوں کا سامنا ہے، یا مال و دولت کی ہوس ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال کمانے کے چکر میں دوسروں کے حقوق پامال کیے جارہے ہیں، یا نئے علوم اور اس سے حاصل ہونے والی ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہے یا پھر دنیا پر قبضہ کرنے کی جنگ ہے جس میں طاقتوروں کی لڑائی میں کمزور مارے جارہے ہیں۔ تو گویا دین، مال، علم اور اقتدار یہ وہ چار فتنے ہیں جن کی وجہ سے آج دنیا پریشان ہیں۔
سورۃ کہف میں ذکر کیے گئے چار واقعات میں انہی چار فتنوں کی طرف اشارہ
ہے اور ہر واقعے کے بعد ان فتنوں سے نمٹنے کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔
اصحاب کہف کے واقعہ میں دین کے فتنے کا تذکرہ ہے، باغوں والے واقعے میں
مال کے فتنے کا تذکرہ ہے، موسیٰ علیہ السلام و خضر علیہ السلام کے واقعے
میں علم کے فتنے کا ذکر ہ اور ذوالقرنین کے واقعے میں اقتدار کے فتنے کا
ذکر ہے۔ یہی چار بڑے فتنے ہیں جس کا سامنا اکثر و بیشتر زندگی میں کرنا
پڑتا ہے۔
دین کا فتنہ:
چند نوجوانوں نے اپنا دین بچانے کے لیے ظالم و جابر بادشاہ کی چنگل سے فرار ہو کر ایک غار کا رخ کیا جہاں خدا نے ان کو 309 سال تک سلائے رکھا جب ان کو جاگ آئی تو پوری کی پوری بستی ایمان لا چکی تھی۔
اس واقعے کے ذکر کے بعد چند آیات ہیں جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ نیک
لوگوں کی صحبت اور آخرت کی زندگی کے بارے میں متفکر رہنے سے ہی دین کے فتنے
سے بچا جاسکتا ہے۔
مال کا فتنہ:
وہ شخص جس کو خدا نے دو باغ عطا کیے تھے مگر اس نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی اور بعث بعد الموت کا انکار کیا جس کی پاداش میں خدا نے اس کے دونوں باغات کو تباہ و برباد کردیا اور دنیا میں ہی اسے ناشکری کی سزا دی۔
اس واقعے کے ذکر کے بعد چند آیات کا ذکر ہیں جس میں بتلایا گیا ہے کہ
مال کے فتنے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کی حقیقت کو جان لیا جائے اور
آخرت کو یاد کرلیا جائے۔
علم کا فتنہ:
موسیٰ علیہ السلام کا گمان یہ تھا کہ روئے زمین پر سب سے زیادہ علم ان کے پاس ہے چنانچہ اللہ تعالٰی نے ان کو وحی کے ذریعے بتلایا کہ زمین پر ایک شخص ایسا بھی موجود ہے جس کا علم ان سے زیادہ ہے۔
موسیٰ علیہ السلام ان سے ملاقات کے لیے نکل پڑے اور علم حاصل کرنے کے
شوق کا اظہار کیا لیکن وہ خضر علیہ السلام کے افعال پر صبر نہ کرسکے کیونکہ
انہیں ان افعال کی حکمتوں کا علم نہیں تھا۔
اس فتنے سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے بندہ تواضع اختیار کرے اور اپنے علم پر
اس کو غرور و تکبر نہ ہو اور ہمیشہ اپنے آپ کو کم علم ہی سمجھے۔
اقتدار کا فتنہ:
ذو القرنين علیہ السلام ایک عادل بادشاہ تھے جو اکثر و بیشتر خدا کے دین کو پھیلانے کی غرض سے سفر کیا کرتے تھے ایک مرتبہ وہ ایسی قوم کے پاس پہنچے جو یاجوج ماجوج کے حملوں سے خوفزدہ تھی اور یاجوج ماجوج طاقت کے گھمنڈ میں ان کو تنگ کیا کرتے۔ ۔ چنانچہ ذوالقرنین علیہ السلام نے ان کی مدد کرتے ہوئے ایک بڑی دیوار بنائی جو کہ آج تک قائم ہے۔
طاقت کے اس فتنے سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے عمل میں اخلاص
پیدا کرے تاکہ طاقت اس کو گھمنڈ میں مبتلا نہ کریں اور آخرت کو بدستور یاد
رکھے کیونکہ وہاں سب سے بڑے طاقتور کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سورۃ کہف کے آخر میں اس بات کا ذکر ہے کہ آخرت کی یاد سے ہی انسان تمام
فتنوں سے بچ سکتا ہے اور سورۃ کہف میں جو الفاظ وارد ہوئے ہیں ان سے یہ بھی
پتہ چلتا ہے کہ فتنوں سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان متحرک رہے،
ارد گرد کے ماحول کے بارے میں محتاط رہے، زمانے کے نت نئے فتنوں سے آگاہ
رہے۔ایک اور بات یہ بھی مفسرین نے ذکر کی ہے اس سورت کی ابتداء بھی قرآن کے
ذکر سے ہوئی ہے اور انتہا بھی جس کا مطلب یہ ہے کہ فتنوں سے بچنے کا ایک
طریقہ یہ بھی ہے کہ قرآن کے ساتھ تعلق بنا رہے۔
اللہ تعالی ہمیں تمام فتنوں اور آزمائشوں سے محفوظ رکھے، آمین!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں