تدبر القرآن
سورۃ البقرہ
نعمان علی خان
حصہ- 36
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پس اللہ فرماتے ہیں *فان لم تفعلو* اس میں مفعول نا ممکن ہے. یعنی آپ کے سامنے بحیثیت مفعول کچھ بھی نہیں ہے.
اگر تم اس کو کرنے کے قابل ہو تو؟ اور تم کبھی بھی (مستقبل میں بھی) اس کو کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے. تم کبھی بھی کچھ بھی نہیں کر سکتے. ایسے حیران کن چیلنج کے بعد کچھ لوگ یہ کام کرنے کو تیار ہو بھی جاتے ہیں. مثلاً جب ان کو چیلنج کیا جائے کہ تم ایسا نہیں کر سکتے!!! وہ (بڑھک میں آ کر) کہتے ہیں کہ ہم ایسا کر کے دکھا سکتے ہیں. اور پھر کچھ بوگس سطریں لکھنے کی سعی کرتے ہیں. اور اگلے مرحلے میں ان کے بناوٹی دوست بھی آجاتے ہیں اس بوگس تحریر کی تعریف کیلئے. کہ اوہ ہاں یہ تو بالکل اُس جیسا ہی ہے.
آپ دیکھ چکے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے آیت 23 میں فرمایا *پھر تم اپنے گواہوں کو بھی بلا لو*
*وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ* 23
یعنی جو تمہاری استطاعت ہے،جسے تم بلانا چاہو بلا لو،جو تم کر سکتے ہو کر لو.
اس آیت میں چیلنج زیادہ آسان ہے. کہ کسی بھی گواہ کو اس(اپنی تحریر) کی تصدیق کیلئے بلا لو. کسی بھی گواہ کو اپنی حمایت میں لے آؤ. عرب لوگ خصوصاً اہل مکہ، اللہ کے ان الفاظ کے زیر اثر تھے. اب اہل مدینہ کے بھی ایسے ہی محسوسات تھے. وہ لوگ اس چیلنج کو قبول کرنے کی ہمت نہیں پاتے تھے. کیوں؟ ان آیات کے منفرد اسلوب کی وجہ سے.
ذرا ایک لمحہ کے لئے سوچیں: قریش کون تھے؟ اس علاقے کے سب سے زیادہ طاقتور، فصیح البیان، خوش گفتار، پرجوش اور سب سے زیادہ وسائل رکھنے والے لوگ . روپیہ پیسہ ، تعلیم و تربیت، تجارت، الغرض یہ ہر طرح کے وسائل سے مالا مال تھے. اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ان کو نہ تو اسلحہ کے زور پر دھمکا رہے تھے، اور نہ ہی کسی بیرونی فوج کے بل بوتے پر. پھر آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) ان لوگوں کے لیے ایسا کیا لے آئے تھے جس سے اہل عرب کو خطرہ محسوس ہوا، جس سے وہ خوفزدہ تھے؟
یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے الفاظ تھے. جو ان کے خوف کی وجہ تھے. ہم سب جانتے ہیں کہ الفاظ سے نپٹنے کا آسان طریقہ کیا ہے؟ الفاظ کا جواب الفاظ سے دینا. لیکن قریش کی صورتحال ملاحظہ کریں: وہ خون بہانے کے لئے، قتل و غارت کے لئے، اپنے خاندان کے لیے لڑنے مرنے کو تو تیار رہتے تھے، کیوں؟ کیونکہ وہ لوگ طویل مدتی جنگوں کے عادی تھے. مگر یہاں وہ محض الفاظ کا جواب نہیں دے پا رہے تھے. اب یہ ان پر منحصر تھا کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں؟ اگر وہ قرآن کے الفاظ کا جواب دینے کے قابل ہوتے، تو جھگڑا ہی ختم ہو جاتا، کیونکہ پھر ان کو کسی سے لڑنے کی کسی کو قتل کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی. اللہ تعالٰی ان کو اپنے الفاظ کے ساتھ شکست دے رہے تھے، دراصل اللہ کے یہ الفاظ ان کی سماعت پر گراں تھے. یہ باتیں ان کے لئے بہت مشکل تھیں. جبکہ مہنگی مہم جوئی، اپنے سگے بیٹے کا قتل،میدان جنگ میں اپنے حقیقی باپ سے دوبدو لڑائی ان کے لئے آسان ہو گیا تھا. (سبحان اللہ. یہ ہے کلام اللہ کی طاقت)
*فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ* (24)
اگر تم یہ چیلنج قبول کرتے ہو تو پھر تم گزشتہ امتوں کا انجام بھی نظر میں رکھو. جنہوں نے اللہ کے معجزات کو چیلنج کیا تھا.
*فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ*
*اور اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن/خوراک پتھر اور انسان ہیں*
کون سے انسان؟ گزشتہ تمام امتوں کے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے معجزات کو چیلنج کیا تھا.
اور کیسے پتھر؟ ان کے بارے میں مختلف آراء ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ پتھر جن کی پوجا کی جاتی ہے. جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں وہ دل مراد ہیں. جنہیں علامتی طور پر قرآن پاک میں پتھر قرار دیا گیا ہے.( جیسے کچھ دل پتھروں کی طرح سخت ہو جاتے ہیں). تو ایسے پتھر دل بھی آگ میں جھونکے جائیں گے. اور جب پتھر جلتا ہے تو وہ لاوا (گرم ترین چیز/پگھلے ہوئے مائع ) میں تبدیل ہو جاتا ہے. اور اس کی تپش، لکڑیوں کی آگ سے کہیں زیادہ ہوتی ہے. گرم ترین. یہ ہیں جہنم کی آگ کا ایندھن.
*أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ*
وہ آگ جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے. ان کا جرم کیا تھا؟ وہ کس بات کے انکاری تھے؟ ان لوگوں نے اللہ کے معجزات کو، جب وہ ان پر ظاہر کر دیئے گئے تھے، قبول کرنے سے انکار کیا تھا.
اگر آپ کو کوئی چیلنج کیا جائے اور آپ اس کے مقابلے میں نہ آئیں تو یہ ایک الگ بات ہے. لیکن اگر آپ نے چیلنج قبول کر لیا اور آپ پر ہر بات واضح ہو گئی، آپ کے دل نے اسے تسلیم بھی کر لیا، پھر بھی زبان سے اس کے انکاری ہیں تو تب ایسے منکرینِ حق کے لئے ہی جہنم کی آگ تیار کی گئی ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں