تدبرِ القرآن.... سورہ الکھف..... استاد نعمان علی خان...... حصہ-6

تدبرِ القرآن
سورہ الکھف
استاد نعمان علی خان
 حصہ-6
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم

وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا ۚ وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا ۗ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا - 18:49

اور نامہٴ اعمال سامنے رکھ دیے جائیں گے۔ پس تو دیکھے گا کہ گنہگار اس کی تحریر سے خوفزده ہو رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے ہائے ہماری خرابی یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا بغیر گھیرے کے باقی ہی نہیں چھوڑا، اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ﻇلم وستم نہ کرے گا۔

آیت نمبر 49 میں آتا ہے کہ جب اعمال نامہ لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا تو مجرم اُس سے ڈریں گے جو اس (کتاب) میں موجود ہوگا۔۔ اور وہ کہیں گے کہ "یہ کیسی کتاب ہے اس نے کچھ بھی نہیں چھوڑا، ہر چھوٹی اور بڑی بات محفوظ کرلی ہے"

یعنی، ہمارے اعمال، ہمارے لفظ چاہے وہ جتنے بھی چھوٹے کیوں نہ ہوں، اس کتاب میں سب کچھ محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ اور مجرم اس روز یہی کہہ رہے ہونگے۔۔وہ اس کتاب پر تعجب کر رہے ہونگے کہ اس نے کچھ بھی نہیں چھوڑا۔۔ وہ ہر کام جو ہم نے چھپ کر، یا کھلے عام کیا ہوگا، وہ سب اس کتاب میں موجود ہوگا۔۔
اس لیے رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ " عائشہ! خبردار رہو ان گناہوں سے جنہیں نا اہم (چھوٹا) سمجھا جاتا ہے"
چھوٹے گناہوں سے بچ کر رہو۔ کیوں؟؟ 
کیونکہ وہ سب لکھ لیے جاتے ہیں۔ اور ایسے ہی ہم کسی گناہ کو چھوٹا سا سمجھ کر کرتے جاتے ہیں اور جب انہیں مِلا کر پیش کیا جاتا ہے تو وہ بہت زیادہ بن جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ جمع ہو کر بڑھ جاتے ہیں۔
مثال کی طور پر، بہت دفعہ ایسا ہوا ہوگا ہمارے ساتھ کہ اسکول یا کالج میں ہمیں ہمارا ایگزام پیپر ملتا ہے۔ ہم اس میں دیکھتے ہیں کہ چار پانچ سوال میں ہمارے 5. مارکس کم ہوتے ہیں۔ اب وہ 5. دیکھنے میں تو بہت کم لگتے ہیں۔ مگر جب چار پانچ سوالوں میں سے اتنے مارکس کٹ جائیں تو کُل ملا کر ۵ مارکس کم ہوجاتے ہیں۔ 
ہیں نا؟ 
ان چھوٹی سی غلطیوں، چھوٹے سے نمبرز کو جب جمع کرلیا جائے تو ایک بڑا نمبر بن جاتا ہے۔ 
ایسے ہی ہمارے چھوٹے چھوٹے گناہ جب جمع کر کے ہمارے سامنے پیش کیے جائیں گے تو وہ بہت زیادہ معلوم ہونگے، وہ بڑھ گئے ہونگے۔ 
اور پھر انسان سوچے گا کہ یہ تو اتنی چھوٹی سی غلطی تھی کاش میں نے نہ کی ہوتی۔۔ 
ہم انسان چھوٹی نیکیوں کو بھی کم تر سمجھتے ہیں اور گناہوں کو بھی۔ جب کہ یہ غلط ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے۔
دیکھیں یہ بالکل ایسے ہے جیسے آپ روزانہ کسی خالی کمرے میں ایک پتھر پھینکنے لگ جاتے ہیں۔ روزانہ کا صرف ایک پتھر۔۔
آپ سال بعد جا کر وہ کمرہ دیکھیں گے تو وہاں کیا ایک پتھر ہوگا؟؟ 
نہیں۔۔ وہ کمرہ پتھروں سے بھرا ہوگا۔۔
تو روز قیامت انسان کے سامنے وہ سب پیش کردیا جائے گا۔

جاری ہے ---- 

تبصرے میں اپنی رائے کا اظہار کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں