تدبرِ القرآن
سورہ الکھف
استاد نعمان علی خان
حصہ-4
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا - 18:28
"اور صبر کر اپنے نفس پر ان کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام۔ طالب ہیں اس کی خوشنودی کے۔ اور نہ ہٹا اپنی نگاہوں کو ان سے کہ خواستگار ہوجائے زینت کا دنیاوی زندگی کی۔ اور نہ کہا مان اس کا غافل کردیا ہے جس کو ہم نے جسکے دل کو اپنی یاد سے اور پیروی کرتا ہے وہ اپنی خواہش کی اور ہے اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا"
کس کی صحبت اختیار کرنی چاہیے؟؟
ان لوگوں کی جو صبح و شام اللہ کو یاد کرتے ہیں۔
ایک ایسا شخص جو صبح شام اللہ کو یاد کرتا ہے، وہ اس قابل ہے کہ اس سے دوستی کی جائے۔۔ ان لوگوں سے دوستی کریں جو ہم سے دین میں آگے ہیں۔۔
ایسا کرنے سے کیا ہوگا؟؟
ان کی صحبت میں رہ کر ہم بھی ان کے جیسا بننے کی کوشش کریں گے، نہ صرف کوشش کریں گی بلکہ ان کے ہونے سے ہماری مدد ہوگی۔۔ہمیں حوصلہ ملے گا۔۔ان کا صبر دیکھ کر ہم میں بھی صبر آئے گا۔۔
ایسا ہوتا ہے نا کہ جن کے ساتھ ہم وقت گزارتے ہیں، ہم ان کی عادتیں اپنانے لگ جاتے ہیں۔۔
اس لیے ایسی کمپنی میں رہیں جن کی عادتیں اچھی ہیں۔ جو اللہ سے محبت کرتے ہیں۔
ان کے ساتھ رہ کر آپ کا بھی دل کرے گا کہ ہم بھی ان کے جیسا بنیں۔۔اور ایسے دوست آپ کی مدد بھی کریں گے، آپ کو اچھائی کی طرف راغب کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔۔
اور ان لوگوں کی کمپنی میں مت رہیں جو اس دنیا کی آسائش چاہتے ہیں۔ جن کا مقصد صرف یہ دنیا ہے۔۔
آیت نمبر 32 میں اللہ تعالی دو آدمیوں کی مثال پیش کرتے ہیں۔۔
اس مثال میں ہم دیکھیں گے کہ نیک صحبت کیوں ضروری ہے۔۔
وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا - 18:32
اور انہیں ان دو شخصوں کی مثال بھی سنا دے جن میں سے ایک کو ہم نے دو باغ انگوروں کے دے رکھے تھے اور جنہیں کھجوروں کے درختوں سے ہم نے گھیر رکھا تھا اور دونوں کے درمیان کھیتی لگا رکھی تھی
اُن میں سے ایک شخص کو اللہ تعالی نے انگور کے دو باغ دیے تھے جس کے گرد کھجور کے درخت تھے اور انکے درمیان کھیتی تھی۔
دونوں باغوں میں پھل لگا کرتے تھے، اور ان میں کبھی کمی نہیں ہوتی تھی، اور ان دونوں باغوں کے درمیان اللہ تعالی نے ایک نہر جاری کر رکھی تھی۔۔
وہ شخص اپنے ساتھی سے کہنے لگا کہ میرے پاس تم سے زیادہ مال ہے، اور زیادہ عزت والا ہوں جماعت کے لحاظ سے۔۔
وہ غرور کرنے لگ گیا تھا اپنی مال و دولت پر۔ ان چیزوں پر جو اس کی تھی ہی نہیں، جو اسے اللہ تعالی نے عطا کر رکھی تھیں۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وہ اپنے باغ میں داخل ہوا غرور کی حالت میں، خود پہ ظلم کرتے ہوئے، اپنے ساتھی کو نیچا دیکھاتے ہوئے۔۔ اور کہنے لگا "کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ سب کبھی تباہ ہوگا"
یہی ہے اس دنیا کا دھوکہ۔۔کہ جب انسان کے پاس کوئی قیمتی چیز ہوتی ہے تو اسے لگتا ہے کہ بس یہی سب کچھ ہے، اور یہ ہمیشہ رہے گی میرے پاس۔ لیکن دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ یہ عارضی ہے۔۔ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔۔اور جو سوچتا ہے کہ یہ کبھی ختم نہ ہوگی، وہ خود پہ ظلم کر رہا ہے۔
آیت میں آتا ہے کہ:
"وہ شخص باغ میں خود پہ ظلم کرتے ہوئے داخل ہوا تھا"
ظلم کیسے؟؟ وہ ایسے کہ وہ خود کو دھوکے میں ڈال رہا تھا۔
"اُس کے ساتھی نے اُس سے کہا کہ تم کفر کر رہے ہو اس کے ساتھ جس نے تمہیں تخلیق کیا ہے مٹی سے اور پھر نطفے سے تجھے پورا آدمی بنایا۔ "
یہاں دیکھیں کہ وہ شخص کس طرح اُسے اللہ کی یاد دلا رہا تھا۔
یہی فائدہ ہوتا ہے نیک دوستوں کا کہ وہ آپ کو گمراہی کی طرف جانے سے روکتے ہیں۔
اور اُس نے یہ بھی کہا کہ "وہ اللہ ہے، میرا رب۔۔میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا"
وہ اپنے ساتھی کو سمجھانے کی کوشش کررہا تھا کہ اس دنیا کے دھوکے میں مت آو۔۔یہ مال و دولت اللہ نے عطا کیے ہیں۔
تمہیں چاہیے تھا کہ جب تم باغ میں داخل ہوتے تو یہ کہتے کہ "مَاشَااللہُ لَا قُوَّہَ اِلَّا بِاللہِ" جو چاہتا ہے اللہ( وہی ہوتا ہے)،نہیں کوئی قوت مگر اللہ کی توفیق سے
اس سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ جب ہمارے پاس کوئی ایسی شے یا نعمت موجود ہو جو اللہ تعالی نے کسی اور کو نہیں دی، تو اپنی نہیں "اللہ" کی تعریف کرنی چاہیے۔ کیونکہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ہماری محنت سے نہیں اللہ کی رحمت سے ہے۔ یہ تمام اشیاء جو ہمارے پاس موجود ہیں یہ اللہ کا انعام ہے۔ اگر ہم یہ بات یاد رکھیں تو ہم میں عاجزی بھی پیدا ہوگی۔۔
سو وہ شخص اُسے (جو امیر تھا) اُسے یہ بات یاد دلا رہا تھا۔
آگے وہ شخص اُسے کہتا ہے
"شاید میرا رب مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا کردے اور اُس پر (یعنی تمہارے باغ پر) بھیج دے آسمان سے آفت اور وہ ایک چٹیل میدان بن جائے، اور اس کا پانی گہرائی میں اُتر جائے اور تم اسے تلاش ہی نہ کرسکو"
یہاں پر اُس شخص کی مثبت سوچ کو دیکھیں کہ بجائے احساس کمتری کا شکار ہونے کے اُس نے اللہ سے بہتری کی امید رکھی۔۔ اُس نے اسے بھی یاد دلانے کی کوشش کی کہ تم ایسا کیسے سوچ سکتے ہو کہ یہ باغ ہمیشہ رہے گا؟؟ کوئی شے ہمیشہ نہیں رہتی ہر چیز کا خاتمہ ہونا ہے۔۔ اور پھر وہی ہوا۔۔
وہ شخص جو بہت غرور کر رہا تھا اس کے باغ کو اللہ کے عذاب نے آگھیرا اور وہ اپنا ہاتھ ہی ملتا رہ گیا، وہ اُس کو بچانے کے لیے کچھ بھی نہ کرسکا اور آخر کار اُسے احساس ہوا کہ اس نے غلط کیا تھا اور وہ کہنے لگا " کہ کاش میں نہ شریک بناتا اپنے رب کے ساتھ کسی کو"۔
سو اس قصے میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ شخص اپنے مال کو ہی اپنا متاع اپنا سب کچھ سمجھتا تھا۔ وہ اللہ سبحانہ وتعالی کے بجائے اپنے مال پر انحصار کر رہا تھا۔ مگر کامیاب تو وہ لوگ ہوتے ہیں نہ جو اللہ پہ بھروسہ رکھتے ہیں، جو صرف اُسی پہ انحصار کرتے ہیں چاہے جیسے بھی حالات ہوں، انُکے پاس جو کچھ بھی ہو، وہ جہاں بھی ہوں۔۔۔
وہ لوگ جو اس بات کو یاد رکھتے ہیں کہ یہ زندگی بہت مختصر ہے، اور ایک دن انہوں نے اپنے رب کے آگے حاضر ہونا ہے، وہی لوگ ہوتے ہیں جو کامیاب ہوتے ہیں۔
کیوں؟
کیونکہ وہ اس دنیا کی اصلیت کو یاد رکھتے ہیں۔
اس دنیا سے بہت بہت آسانی سے دھوکہ کھایا جاسکتا ہے۔۔ کیونکہ جیسے ہی انسان کو کوئی شے اچھی لگنے لگتی ہے تو وہ اس کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے اور پھر اُسی میں مصروف ہو کر رہ جاتا ہے۔۔اور اس حد تک مصروف ہوجاتا ہے کہ وہ بھول جاتا ہے کہ یہ زندگی مختصر ہے اور اس کے بعد بھی ایک زندگی ہوگی۔۔
ایک دوسرے قصے میں ہم نے پڑھا تھا کہ کس طرح ان نوجوانوں نے اللہ پہ انحصار کیا تھا، انہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے کسی شے سے سمجھوتہ نہیں کیا تھا اور پھر اللہ نے ان کے لیے آسانی پیدا کردی تھی، اُن پہ رحمت نازل کردی تھی اور انہیں محفوظ رکھا تھا۔ اور اس قصے میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے دنیا پہ انحصار کیا تھا اور پھر کیا ہوا؟ وہ تباہ ہوگیا۔۔ اللہ تعالی نے اُسے اس دنیا کی اصلیت اس کی قیمت دکھادی۔۔
ہماری آنکھوں کے سامنے، ہمارے اپنے ہاتھ سے سب پھسل جاتا ہے اور ہم کچھ نہیں کرپاتے۔۔ہم خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں، کیونکہ یہ دنیا عارضی ہے۔۔
جاری ہے۔۔
"اور صبر کر اپنے نفس پر ان کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام۔ طالب ہیں اس کی خوشنودی کے۔ اور نہ ہٹا اپنی نگاہوں کو ان سے کہ خواستگار ہوجائے زینت کا دنیاوی زندگی کی۔ اور نہ کہا مان اس کا غافل کردیا ہے جس کو ہم نے جسکے دل کو اپنی یاد سے اور پیروی کرتا ہے وہ اپنی خواہش کی اور ہے اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا"
کس کی صحبت اختیار کرنی چاہیے؟؟
ان لوگوں کی جو صبح و شام اللہ کو یاد کرتے ہیں۔
ایک ایسا شخص جو صبح شام اللہ کو یاد کرتا ہے، وہ اس قابل ہے کہ اس سے دوستی کی جائے۔۔ ان لوگوں سے دوستی کریں جو ہم سے دین میں آگے ہیں۔۔
ایسا کرنے سے کیا ہوگا؟؟
ان کی صحبت میں رہ کر ہم بھی ان کے جیسا بننے کی کوشش کریں گے، نہ صرف کوشش کریں گی بلکہ ان کے ہونے سے ہماری مدد ہوگی۔۔ہمیں حوصلہ ملے گا۔۔ان کا صبر دیکھ کر ہم میں بھی صبر آئے گا۔۔
ایسا ہوتا ہے نا کہ جن کے ساتھ ہم وقت گزارتے ہیں، ہم ان کی عادتیں اپنانے لگ جاتے ہیں۔۔
اس لیے ایسی کمپنی میں رہیں جن کی عادتیں اچھی ہیں۔ جو اللہ سے محبت کرتے ہیں۔
ان کے ساتھ رہ کر آپ کا بھی دل کرے گا کہ ہم بھی ان کے جیسا بنیں۔۔اور ایسے دوست آپ کی مدد بھی کریں گے، آپ کو اچھائی کی طرف راغب کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔۔
اور ان لوگوں کی کمپنی میں مت رہیں جو اس دنیا کی آسائش چاہتے ہیں۔ جن کا مقصد صرف یہ دنیا ہے۔۔
آیت نمبر 32 میں اللہ تعالی دو آدمیوں کی مثال پیش کرتے ہیں۔۔
اس مثال میں ہم دیکھیں گے کہ نیک صحبت کیوں ضروری ہے۔۔
اور انہیں ان دو شخصوں کی مثال بھی سنا دے جن میں سے ایک کو ہم نے دو باغ انگوروں کے دے رکھے تھے اور جنہیں کھجوروں کے درختوں سے ہم نے گھیر رکھا تھا اور دونوں کے درمیان کھیتی لگا رکھی تھی
اُن میں سے ایک شخص کو اللہ تعالی نے انگور کے دو باغ دیے تھے جس کے گرد کھجور کے درخت تھے اور انکے درمیان کھیتی تھی۔
دونوں باغوں میں پھل لگا کرتے تھے، اور ان میں کبھی کمی نہیں ہوتی تھی، اور ان دونوں باغوں کے درمیان اللہ تعالی نے ایک نہر جاری کر رکھی تھی۔۔
وہ شخص اپنے ساتھی سے کہنے لگا کہ میرے پاس تم سے زیادہ مال ہے، اور زیادہ عزت والا ہوں جماعت کے لحاظ سے۔۔
وہ غرور کرنے لگ گیا تھا اپنی مال و دولت پر۔ ان چیزوں پر جو اس کی تھی ہی نہیں، جو اسے اللہ تعالی نے عطا کر رکھی تھیں۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وہ اپنے باغ میں داخل ہوا غرور کی حالت میں، خود پہ ظلم کرتے ہوئے، اپنے ساتھی کو نیچا دیکھاتے ہوئے۔۔ اور کہنے لگا "کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ سب کبھی تباہ ہوگا"
یہی ہے اس دنیا کا دھوکہ۔۔کہ جب انسان کے پاس کوئی قیمتی چیز ہوتی ہے تو اسے لگتا ہے کہ بس یہی سب کچھ ہے، اور یہ ہمیشہ رہے گی میرے پاس۔ لیکن دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ یہ عارضی ہے۔۔ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔۔اور جو سوچتا ہے کہ یہ کبھی ختم نہ ہوگی، وہ خود پہ ظلم کر رہا ہے۔
آیت میں آتا ہے کہ:
"وہ شخص باغ میں خود پہ ظلم کرتے ہوئے داخل ہوا تھا"
ظلم کیسے؟؟ وہ ایسے کہ وہ خود کو دھوکے میں ڈال رہا تھا۔
"اُس کے ساتھی نے اُس سے کہا کہ تم کفر کر رہے ہو اس کے ساتھ جس نے تمہیں تخلیق کیا ہے مٹی سے اور پھر نطفے سے تجھے پورا آدمی بنایا۔ "
یہاں دیکھیں کہ وہ شخص کس طرح اُسے اللہ کی یاد دلا رہا تھا۔
یہی فائدہ ہوتا ہے نیک دوستوں کا کہ وہ آپ کو گمراہی کی طرف جانے سے روکتے ہیں۔
اور اُس نے یہ بھی کہا کہ "وہ اللہ ہے، میرا رب۔۔میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا"
وہ اپنے ساتھی کو سمجھانے کی کوشش کررہا تھا کہ اس دنیا کے دھوکے میں مت آو۔۔یہ مال و دولت اللہ نے عطا کیے ہیں۔
تمہیں چاہیے تھا کہ جب تم باغ میں داخل ہوتے تو یہ کہتے کہ "مَاشَااللہُ لَا قُوَّہَ اِلَّا بِاللہِ" جو چاہتا ہے اللہ( وہی ہوتا ہے)،نہیں کوئی قوت مگر اللہ کی توفیق سے
اس سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ جب ہمارے پاس کوئی ایسی شے یا نعمت موجود ہو جو اللہ تعالی نے کسی اور کو نہیں دی، تو اپنی نہیں "اللہ" کی تعریف کرنی چاہیے۔ کیونکہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ہماری محنت سے نہیں اللہ کی رحمت سے ہے۔ یہ تمام اشیاء جو ہمارے پاس موجود ہیں یہ اللہ کا انعام ہے۔ اگر ہم یہ بات یاد رکھیں تو ہم میں عاجزی بھی پیدا ہوگی۔۔
سو وہ شخص اُسے (جو امیر تھا) اُسے یہ بات یاد دلا رہا تھا۔
آگے وہ شخص اُسے کہتا ہے
"شاید میرا رب مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا کردے اور اُس پر (یعنی تمہارے باغ پر) بھیج دے آسمان سے آفت اور وہ ایک چٹیل میدان بن جائے، اور اس کا پانی گہرائی میں اُتر جائے اور تم اسے تلاش ہی نہ کرسکو"
یہاں پر اُس شخص کی مثبت سوچ کو دیکھیں کہ بجائے احساس کمتری کا شکار ہونے کے اُس نے اللہ سے بہتری کی امید رکھی۔۔ اُس نے اسے بھی یاد دلانے کی کوشش کی کہ تم ایسا کیسے سوچ سکتے ہو کہ یہ باغ ہمیشہ رہے گا؟؟ کوئی شے ہمیشہ نہیں رہتی ہر چیز کا خاتمہ ہونا ہے۔۔ اور پھر وہی ہوا۔۔
وہ شخص جو بہت غرور کر رہا تھا اس کے باغ کو اللہ کے عذاب نے آگھیرا اور وہ اپنا ہاتھ ہی ملتا رہ گیا، وہ اُس کو بچانے کے لیے کچھ بھی نہ کرسکا اور آخر کار اُسے احساس ہوا کہ اس نے غلط کیا تھا اور وہ کہنے لگا " کہ کاش میں نہ شریک بناتا اپنے رب کے ساتھ کسی کو"۔
سو اس قصے میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ شخص اپنے مال کو ہی اپنا متاع اپنا سب کچھ سمجھتا تھا۔ وہ اللہ سبحانہ وتعالی کے بجائے اپنے مال پر انحصار کر رہا تھا۔ مگر کامیاب تو وہ لوگ ہوتے ہیں نہ جو اللہ پہ بھروسہ رکھتے ہیں، جو صرف اُسی پہ انحصار کرتے ہیں چاہے جیسے بھی حالات ہوں، انُکے پاس جو کچھ بھی ہو، وہ جہاں بھی ہوں۔۔۔
وہ لوگ جو اس بات کو یاد رکھتے ہیں کہ یہ زندگی بہت مختصر ہے، اور ایک دن انہوں نے اپنے رب کے آگے حاضر ہونا ہے، وہی لوگ ہوتے ہیں جو کامیاب ہوتے ہیں۔
کیوں؟
کیونکہ وہ اس دنیا کی اصلیت کو یاد رکھتے ہیں۔
اس دنیا سے بہت بہت آسانی سے دھوکہ کھایا جاسکتا ہے۔۔ کیونکہ جیسے ہی انسان کو کوئی شے اچھی لگنے لگتی ہے تو وہ اس کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے اور پھر اُسی میں مصروف ہو کر رہ جاتا ہے۔۔اور اس حد تک مصروف ہوجاتا ہے کہ وہ بھول جاتا ہے کہ یہ زندگی مختصر ہے اور اس کے بعد بھی ایک زندگی ہوگی۔۔
ایک دوسرے قصے میں ہم نے پڑھا تھا کہ کس طرح ان نوجوانوں نے اللہ پہ انحصار کیا تھا، انہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے کسی شے سے سمجھوتہ نہیں کیا تھا اور پھر اللہ نے ان کے لیے آسانی پیدا کردی تھی، اُن پہ رحمت نازل کردی تھی اور انہیں محفوظ رکھا تھا۔ اور اس قصے میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے دنیا پہ انحصار کیا تھا اور پھر کیا ہوا؟ وہ تباہ ہوگیا۔۔ اللہ تعالی نے اُسے اس دنیا کی اصلیت اس کی قیمت دکھادی۔۔
ہماری آنکھوں کے سامنے، ہمارے اپنے ہاتھ سے سب پھسل جاتا ہے اور ہم کچھ نہیں کرپاتے۔۔ہم خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں، کیونکہ یہ دنیا عارضی ہے۔۔
جاری ہے۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں