جوڑے

جوڑے
مقتبس از "مجیب الحق حقی"

ہر وہ چیز جو موجود ہے، اپنا ایک جواز رکھتی ہے، اور اگر ہم اس جواز کو نہ ڈھونڈ پائیں تو یہ ہماری کم علمیت ہے۔ یعنی کسی بھی موجود کے جواز پر سوال کا جواب اگر مجھے نہیں معلوم تو مجھے اپنی کم علمیت کا اعتراف کرنا ہوگا، اور اس سے منسلک دیگر عوامل کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے اس وقت تک گریز کرنا پڑے گا جب تک کہ حقیقی صورتحال واضح نہ ہوجائے۔
اس دور کی بدقسمتی یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کم علم ہے اور جو اصحاب تھوڑا بہت انسان اور فطرت کو جان پائے ہیں، وہ علمی برتری کے احساس کی وجہ سے ایسے تکبّر میں مبتلا ہیں کہ کسی لا ینحل سوال پر زچ ہو کر بجائے اس کے کہ کوئی معقول عقلی استدلال ڈھونڈیں، وہ اس صورتحال کو من و عن بادل نخواستہ قبول کرنے کے ساتھ ساتھ آگے کے مرحلے اپنے وجدان کے مطابق خود متعیّن کر لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر دھند کی وجہ سے راستہ نظر نہیں آرہا ہے تو آپ یہ کیسے فرض کرسکتے ہیں کہ آگے سیدھا راستہ ہی ہے کوئی موڑ نہیں؟ ایسا کرنا کتنا منطقی ہے، خود ہی فیصلہ کیجیے۔ تخلیق ِکائنات اور حیات کی ابتدا کے اہم ترین بنیادی سوالات کے حوالے سے اس دور کے منکرین خدا مفکّرین کا یہی طرز عمل ہے جو ظاہر ہے کہ غیر حقیقی ہے۔ انسان اور کائنات کے وجود اور اس میں موجود اسرار کے حوالے سے بےشمار سوالات آج بھی موجود ہیں، جن کا کوئی مستند سائنسی یا علمی جواب نہیں۔ ان مفکّرین اور سائنسدانوں کا استدلال تو یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ خدا ہے یا نہیں، یا یہ کہ یہ ہماری ڈومین یا دائرہ کار میں نہیں کہ خدا کے بارے میں کوئی رائے دیں۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں بلکہ اصرار یہی ہے کہ کائنات اور زندگی کی تشریح خدا کے بغیر ہوسکتی ہے۔

یہ تمہید کائنات کے موجود نظم (system) میں ایک حیران کن وقوعے  ”جوڑوں“( pairs) کی موجودگی کے ضمن میں ہے جس کا سائنس اور فلسفی اپنے ٹھوس طبعی نظریات کے حوالے سے کوئی معقول عقلی جواز نہیں دے پائے۔ یہ سوال آج بھی تشنہ طلب ہے کہ کائنات کی ابتدا کی سائنسی تشریح یعنی کائنات کی اچانک حادثاتی تخلیق (spontaneous-creation) میں جوڑے کیوں ہیں؟ اگر یہ کائنات اور اس میں زندگی خود ہی وجود میں آئے تو پھر ایک غیر مربوط حادثے میں نظم اور ربط کیسے اور کیوں آیا۔ جدید سائنسدانوں کی علمیت کا اعتراف کرتے ہوئے یہ سوال ضرور ہے کہ جوڑوں کی موجودگی کے حوالے سے اگر واقعی کوئی ٹھوس علمی اور عقلی جواز کسی نے پیش کیا ہے تو کوئی دوست پیش کردے۔ انسان کی کم علمی کو نظرانداز کرتے ہوئے آئیں. دیکھیں کہ اس ضمن میں کائنات کے باہر سے آنے والا ایک ٹھوس پیغام کیا کہتا ہے۔

جوڑے: Pairs
قرآن: (سورۃ 51، آیت49)
”اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے کہ شاید تم اس سے کچھ سبق سیکھو۔“

قرآن: (سورۃ 36، آیت36)
”پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے، خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہو یا خود اِن کی اپنی جنس میں سے، یا اُن اشیاء میں جن کو یہ جانتے تک نہیں۔“

یہ آیات اپنے مطالب کے حوالے سے انتہائی عظیم الشّان ہیں۔ ان کی گہرائی کا اندازہ ڈیڑھ ہزار سال قبل کا انسان لگا ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس وقت دنیا کے طبعی علوم بہت ہی محدود تھے۔ آخری مندرجہ آیت میں انسان کے محدود علم کی طرف اشارہ ہے کہ بہت سی اشیاء کاانسان کو علم نہیں! 

آئیے ذرا دیکھیں کہ منکرین کے قبول کردہ نام نہاد خود کار نظام کائنات میں جو جو حیرتناکیاں اور پیچیدگی ہے، کیا واقعی عقلی اور منطقی طور پر وہ خود بخود ممکن ہیں۔

کوئی بھی حادثاتی تخلیق کسی ضابطے کی پابند تو ہو نہیں سکتی کیونکہ ضابطے کا تعلق انتظام سے ہے اور انتظام بغیر منتظم کے غیر منطقی اور غیر عقلی ہے۔ اگر ہم فرض کرتے ہیں کہ یہ نظامِ زندگی اور کائنات خود تخلیقی ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ اس میں بےشمار چیزوں کا جوڑا ہو، یا بےشمار چیزوں کا آپس میں مثبت، منفی یا مقابلی تعلّق ہو۔ انسان اور جاندار سے قطع نظر ایٹم سے لے کر فوٹون اور پارٹیکلز سے لے کر گیلکسی تک ہر جگہ یہ نظام حرکت میں نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ سائنسدان یہ خیال بھی رکھتے ہیں کہ ہماری کائنات بھی ایک جوڑا رکھتی ہے جو کہ منفی قوانین کے ساتھ موجود ہو سکتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک لامحدود کائناتی نظام جس کو خود سائنس اربوں سال کا قرار دیتی ہو، اس میں ایسا نظم کیسے چل رہا ہے کہ ہر منفی کے ساتھ مثبت، ہر نر male کے ساتھ مادہ female، مقناطیس میں مخالف پول، بجلی میں مثبت اور منفی کرنٹ کے علاوہ ہر طرح کی زندگی کی افزائش بھی جوڑوں کی وجہ ہی سے ہے۔ جدید ترین نظریات یعنی اسپیس ٹائم فیبرک میں بھی اسپیس اور ٹائم ایک جوڑے کی طرح ہیں۔ یہاں تک کہ اخلاقیات میں ہر اچھے عمل کے ساتھ مقابل منفی عمل منسلک ہے۔ لیکن ایک بات غور طلب ہے کہ بہت سی جگہ اس نظام سے استثنی بھی نظر آتا ہے یعنی زندگی بغیر نر اور مادہ کے بھی ہے، جیسے امیبا amoeba! جس میں حیاتیاتی سیل خود ہی دو حصّوں میں تقسیم ہو کر اپنی نسل بڑھاتا ہے۔ یہ استثنی اس بات کے ثبوت ہیں کہ یہاں کسی ایک ڈگر پر چلنے والا کوئی خود کار نظام نہیں ہے ورنہ استثنائی صورتحال بھی نہ ہوتی بلکہ استثنی تو اس بات کی قوی دلیل ہے کہ کسی خالق کا کنڑول لا محدود ہے کہ وہ ہر طرح کی تخلیق پر قادر ہے۔ کیا عقل اس عظیم الشّان نظام کو محض اتفاقی نظام تسلیم کر سکتی ہے۔

ہم ہر چیز کو ایک نام دیتے ہیں، اس طرح وجود کے حوالے سے بھی ہر چیز کا جوڑا ہو تا ہے، ایک طبعی اور دوسرا غیر مرئی یعنی نام۔ اس طرح یہ دلیل پارٹیکلز سے لے کر کائنات ہر چیز پر لاگو ہو تی ہے کیونکہ نام بھی وجود ہی کا حصہ ہے اور بغیر نام کے کوئی چیز موجود ہی نہیں ہو سکتی۔ آپ کسی مشین کو کھولتے چلے جائیں یا کسی بھی چیز کو توڑے چلے جائیں، ہر صورت میں اس کا ہر حصہ ایک نام کے ساتھ ہی موجوہوگا، خواہ آپ اسے کوڑا ہی کیوں نہ کہیں۔

منکرین اور متذبذب اصحاب کے لیے توجّہ طلب یہ نکتہ ہے کہ یا تو کائنات خدا نے بنائی یا پھر نہیں بنائی!
اگر نہیں بنائی تو کائنات اور ہمارے اندر پھیلے ہر علم کا جواز کیا ہے یا اس کا منبع کیا ہے!
انسان ”خود بخود“ بن جانے یا پیدا ہوجانے والے علوم کی چھان بین کرتے کرتے تھکا جارہا ہے لیکن یہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے!

آخر کیوں؟

کہیں جدید انسان کا مقابلہ کسی ایسی ہستی سے تو نہیں ہو رہا جو علوم ہی کی تخلیق پر قادر ہو جبکہ انسان علم کے سمندر میں غوطے کھاتا محض ایک جاندار !

دوستو! کشادہ دل ہوکر ذرا غور کرو۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں