تدبر القرآن
سورۃ البقرہ
نعمان علی خان
حصہ- 34
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
*"وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ"*
" اِن کُنتُم ریب"، یا "و اَنتُم فِی رَیب" نہیں کہا گیا بلکہ قرآن میں اس جملے کا آغاز ہی ایسے ہوا کہ اگر ایسا ہے کہ تمہیں شک ہے اور جملے کے آخر میں کہا گیا "ان کنتم صادقین " کہ تم سچ بول رہے ہو. یعنی اگر تمہیں اپنی سچائی پہ شک ہے، دوسرے لفظوں میں اللہ تعالٰی انہیں کہتے ہیں کہ میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم سچ بول نہیں رہے. تم جانتے ہو کہ یہ اللہ کا کلام ہے، تم صرف باتیں بنا رہے ہو کہ جو پچھلی آسمانی کتب میں تم نے تبدیلیاں کی ہیں انہیں چھپا سکو، اپنا فخر قائم رکھ سکو. یہی وجہ ہے کہ تم اس پہ تنقید کر رہے ہو.
آخری بات جو میں بتانا چاہوں گا وہ یہ کہ اس آیت کی نہایت غلط تشریح کی جاتی ہے . جب میں کالج میں تھا تو ہر ماہ ایک اسلامک ہفتہ منایا جاتا تھا جس میں ہر کوئی اپنا اسٹال سجاتا تھا اور ایک میز پر دعوۃ کے لیے پمفلٹ رکھے جاتے تھے، جو بھی لوگ ہمارے اسٹال پر آتے تھے انہیں کھانے کو مفت پزا دیا جاتا تھا اور ساتھ میں دعوۃِ اسلام کے لیے پمفلٹ بھی، اگر کوئی اسلام سے متعلق سوال کرتا تھا کہ اسلام آخر کیا ہے؟ تو آپ جواب دیتے تھے کہ اسلام ایک اللہ پر ایمان رکھنے کا نام ہے اور ہم آخری نبی صل اللہ علیہ والہ و السلام پر اور قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اور سوال کرنے والا کہتا تھا کہ............ ہمم... میں کچھ قائل نہیں ہوا تو آپ آگے سے تنفر سے کہتے تھے" اوہ.. اچھا کافر! پھر جاؤ، جا کہ اس جیسی کوئی سورۃ بنا کے لے آؤ. تم بنا کے لا سکتے ہو اس جیسی سورۃ." اور وہ کہتا تھا کہ یہ سورۃ کیا ہے؟ کیا یہ پزا کی کوئی نئی قسم ہے ؟ "
یہ دعوتِ دین کا طریقہ ہے ہی نہیں. یہ پہلا قدم نہیں ہے اسلام کی دعوت دینے کے لیے کہ آپ کسی کو کہیں کہ وہ اس جیسی سورۃ بنا کے لے آئے. درحقیقت یہ دعوۃ نہیں ہے یہ آخری سِل ہے جس کے آگے جہنم کے دروازے ہیں. میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے سمجھیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و السلام نے تمام انسانوں کو دعوت دی، انہیں نصیحت کر کے، انہیں سمجھا کر، ان کے اندر اچھائی کو پسند کرنے والی فطرت پہ، انہیں انصاف کے قاعدے سمجھا کے، ان کے اندر شکرگزاری کا احساس جگا کے، جو اولین دعوتِ دین، تمام تر انسانیت کو دی گئی اس کا آغاز ہوا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۩ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۩ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ۩ یہ ہے پہلی دعوت، دینِ اسلام کی طرف. قرآن کا بیشتر حصہ آپ کو اس ہستی کا شکر ادا کرنے کو کہتا ہے کہ جس نے آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا تمام تر انسانوں کے لیے.، ہم جو کھاتے ہیں، جو مشروب پیتے ہیں، ہمارے ہمسفر جن سے ہم لطف اٹھاتے ہیں ان سب کا شکر ادا کرنے پر. أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ وَإِلَى السَّمَاء كَيْفَ رُفِعَتْ
اس طرح اللہ تعالٰی انسانوں کو دین کی طرف دعوت دیتے ہیں. کیونکہ دین انسانی فطرت پہ ہے،
*فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا*
"اللہ کی فطرت وہی کہ پیدا کیا انسانوں کو جس پہ "
اب قرآن کو ایک طرف رکھ کے پچھلی قوموں کے حالات پہ نظر ڈالیں کہ پچھلی قوموں میں جب انبیاء مبعوث کیے گئے اور لوگوں نے انہیں جھٹلایا تو اللہ تعالٰی نے لوگوں کو ایمان کی نعمت سے سرفراز کرنے کے لیے اور انبیائے کرام کی مدد کے لیے انہیں معجزات عطا فرمائے، اب معجزات کے ظہور پذیر ہونے کے بعد ان لوگوں کے پاس اپنے کفر پہ قائم رہنے کی کوئی گنجائش باقی ہی نہ تھی کہ اگر تم لوگ یقین نہیں کرتے کہ یہ کلام اللہ کی طرف سے ہے تو پھر بتاؤ کہ یہ معجزہ کیوں کر پیش آیا. پھر بتاؤ کہ حضرت صالح کی اونٹنی کیوں کر وجود میں آئی، وضاحت دو کہ کیسے ایک مٹی کے بنا پرندہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے زندہ کر دیا یا عصا اژدھے میں کیسے تبدیل ہو گیا. اگر تم سچے ہو تو بتاؤ کہ یہ معجزات اللہ کے سوا کس کی طرف سے ہیں؟ جب لوگوں نے انبیاء کو ماننے سے انکار کر دیا ان کی تکذیب کی تو عذاب نازل نہیں ہوا، اللہ کا عذاب تب نازل ہوا جب لوگوں نے معجزات کو جھٹلایا.، تب ان کے لیے عذابِ الہی کے علاوہ کچھ بچا ہی نہ تھا. کیونکہ وہ ثابت کر چکے تھے کہ جو بہتر سے بہترین چیز انہیں ایمان لانے پر راغب کر سکتی تھی وہ ان کے لیے کافی نہ تھی. فرعون کی مثال لیجیے، اس نے موسی علیہ السلام کی اطاعت کب کی؟ تب جب وہ سمندر میں ڈوب کر مرنے والا تھا. جب اس نے سمندر کے پانی کو دو حصوں میں تقسیم ہو کر بنی اسرائیل کو راستہ دیتے دیکھا تو کیا یہ اس کے لیے کافی نہیں ہونا چاہیے تھا کہ ٹھرو، شاید موسی علیہ السلام جو کہہ رہے ہیں وہی حق ہے؟ اگر یہ کھلے معجزات کسی کے لیے کافی نہیں ہیں تو وہ اسی قابل ہے کہ اسے تباہ و برباد کر دیا جائے . اسی لیے جب اللہ عزوجل نے فرمایا کہ جاؤ اگر تم حق پہ ہو تو اس جیسی سورۃ بنا کے پیش کرو تو دوسرے لفظوں میں کہا گیا کہ اگر تم اسے نہیں مانتے تو ثابت کرو کہ یہ معجزہ نہیں ہے. اور اگر تم یہ ثابت نہ کر سکنے کے باوجود سرکشی میں آگے ہی بڑھنا چاہتے ہو تو فاتقو النار، ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں. دوسرے لفظوں میں یہ دعوۃ نہیں ہے یہ سرکشی کی حد ہے ان لوگوں کے لیے جو کہتے ہیں کہ انہیں قرآن کی کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے. یہ ہمارا تبلیغِ دین کا پہلا اسلوب نہیں ہے کہ ہم ثابت کریں کہ قرآن ایک معجزہ ہے. نہ ہی ہمارے انبیاء نے اس طرح تبلیغ کی. یہ آخری کوشش ہے کہ قرآن تمام تر انسانوں کو ان کی نیک فطرت پہ راغب کرے.
فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
جاری ہے ----
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں