تدبر القرآن
سورۃ البقرہ
نعمان علی خان
حصہ- 29
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا
عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا
شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (23)
"اور اگر ہو تم کسی شک میں،اس کے بارے میں جو نازل کیا ہم نے اپنے بندے پر.
پس تم لے آؤ کوئی سورۃ اس کی مانند. اور بلا لو اپنے گواہوں کو اللہ کے
سوا، اگر ہو تم سچے. "
آپ جانتے ہیں کہ عربوں نے اس سے پہلے لفظ " سورۃ " کو اس طرح استعمال
ہوتے نہیں سنا تھا . انہوں نے "سورۃ " کو کسی زبان میں کسی بھی چیز کے لیے
استعمال ہوتے نہیں دیکھا تھا . آپ نے انگریزی میں چیپٹر ، شاعری میں
اقتباسات ، قصائد یا قصیدہ کا سنا ہو گا. آپ جانتے ہیں کہ کلام کسے کہتے
ہیں، باب کیا ہے آپ کے پاس بہت سے الفاظ ہیں ان سب کی تشریح کے لیے لیکن
لفظ "سورۃ"، اس سے پہلے کسی نے بھی اس کو استعمال نہیں کیا تھا . یہ قرآن
پاک کے ساتھ ہی مخصوص ہے. جس کو آپ ایک چیپٹر کہہ سکتے ہیں، وہ قرآن میں
ایک سورۃ ہے. ایک ایسا لفظ جو پہلے کبھی استعمال نہیں ہوا. اس کا حقِ ملکیت
قرآن کے پاس ہی ہے. جب آپ لفظ سورۃ کی تحقیق کرتے ہیں، تو آپ کو ایک اہم
بات پتا چلتی ہے، کہ عربوں کے سامنے یہ لفظ درحقیقت ایک چیلنج تھا. اللہ
تعالٰی نے قرآن پاک میں ایسی اصطلاحات استعمال کی ہیں جن سے عرب واقف ہی
نہ تھے . حالانکہ انہیں اپنی زبان دانی پر ناز تھا. انہی اصطلاحات میں سے
ایک اصطلاح *سورۃ* ہے . یہ لفظ *سور* سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں "قدیم شہر
کی مضبوط سرحدی دیوار" . اگر آپ نے *سیسم سٹریٹ* دیکھ رکھی ہو تو آپ شہر
کی بیرونی دیوار سے واقف ہوں گے. شہر کے گرد بہت بڑی دیوار. جس میں مخصوص
جگہوں پر بڑے بڑے دروازے ہوتے تھے. ان دیواروں کا مقصد شہر کو محفوظ بنانا
ہوتا تھا. تاکہ شہر تک بیرونی عوامل کی رسائی کم ہو. بغیر اجازت کوئی اندر
داخل نہ ہونے پائے. اور یہ دیواریں غیر معمولی طور پر بلند ہو تی تھیں.
کیوں؟ تاکہ کوئی شخص ان کو پھلانگ نہ سکے. اور بہت ضخیم بھی ہوتی تھیں کہ
کوئی نقب نہ لگا سکے. یہ شہر کی سرحدوں کے متعلق ایک نظریہ ہے. جن کو عربی
میں *سور* کہتے ہیں.
جب ہم گھر بناتے ہیں توتب ہم اپنے گھر کی حدود کا تعین کیسے کرتے ہیں؟ ایک باڑ لگا کر. تا کہ سب جان لیں کہ یہ ہماری ذاتی /پرائیویٹ جائداد ہے. شہر کی بیرونی دیوار کون تعمیر کرواتا ہے؟ کیا کوئی عام آدمی نہیں بلکہ یہ بادشاہ تعمیر کروایا کرتے تھے بن. یہ ضخیم دیو ہیکل سرحدی دیوار بنوانا کسی عام آدمی کا کام نہیں ہو سکتا. یہ کسی عام آدمی کی پرائیویٹ جائداد نہیں ہے. یہ بادشاہ کی جائیداد ہے.
اسی طرح لفظ *سورۃ* سے ہمارا ذہن فوری طور پر اس عظیم بادشاہ کی طرف جاتا ہے جو مالک حقیقی ہے. اور دوسری چیز یہ ہے کہ اہل عرب نے ان سرحدی دیواروں کو اپنے علاقے میں نہیں دیکھا تھا. کیونکہ جزیرۂ عرب کے شہر ایسے نہیں تھے کہ ان کی حفاظت کے لیے ایسی دیواریں کھڑی کی جاتیں. کیوں کہ کوئی شخص بھی ان کے پھیلے ہوئے دیہاتوں پر حملہ کرنے کا خواہش مند نہیں ہوتا تھا. تو پھر عربوں نے یہ *سور* حفاظتی دیواریں کہاں دیکھ رکھی تھیں؟چونکہ عرب تاجر اہل ایران اور اہل روم کے ساتھ تجارت کے دوران ان کے شہروں میں جاتے تھے، تو وہ تاجر ان شہروں کی ضخیم دیواروں سے واقف تھے. ایک بادشاہ کی زیر حکومت بہت سے چھوٹے, بڑے شہر اور دیہات ہوتے ہیں. لیکن وہ ہر ایک کے گرد ایسی دیواریں نہیں کھڑی کرتے. بادشاہ دفاعی نکتہ نظر سے اہم شہروں کے گرد ہی دیوار بنواتے ہیں. اس لئے آپ بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ *سور* کے اندر واقع شہر/جگہ نہایت اہم ہے. ایسی جگہ جس کی حفاظت مقصود ہے. اتنی اہم کہ اس کی تعمیر پر بادشاہ نے اتنا سرمایہ لگایا ہے.
جب ہم گھر بناتے ہیں توتب ہم اپنے گھر کی حدود کا تعین کیسے کرتے ہیں؟ ایک باڑ لگا کر. تا کہ سب جان لیں کہ یہ ہماری ذاتی /پرائیویٹ جائداد ہے. شہر کی بیرونی دیوار کون تعمیر کرواتا ہے؟ کیا کوئی عام آدمی نہیں بلکہ یہ بادشاہ تعمیر کروایا کرتے تھے بن. یہ ضخیم دیو ہیکل سرحدی دیوار بنوانا کسی عام آدمی کا کام نہیں ہو سکتا. یہ کسی عام آدمی کی پرائیویٹ جائداد نہیں ہے. یہ بادشاہ کی جائیداد ہے.
اسی طرح لفظ *سورۃ* سے ہمارا ذہن فوری طور پر اس عظیم بادشاہ کی طرف جاتا ہے جو مالک حقیقی ہے. اور دوسری چیز یہ ہے کہ اہل عرب نے ان سرحدی دیواروں کو اپنے علاقے میں نہیں دیکھا تھا. کیونکہ جزیرۂ عرب کے شہر ایسے نہیں تھے کہ ان کی حفاظت کے لیے ایسی دیواریں کھڑی کی جاتیں. کیوں کہ کوئی شخص بھی ان کے پھیلے ہوئے دیہاتوں پر حملہ کرنے کا خواہش مند نہیں ہوتا تھا. تو پھر عربوں نے یہ *سور* حفاظتی دیواریں کہاں دیکھ رکھی تھیں؟چونکہ عرب تاجر اہل ایران اور اہل روم کے ساتھ تجارت کے دوران ان کے شہروں میں جاتے تھے، تو وہ تاجر ان شہروں کی ضخیم دیواروں سے واقف تھے. ایک بادشاہ کی زیر حکومت بہت سے چھوٹے, بڑے شہر اور دیہات ہوتے ہیں. لیکن وہ ہر ایک کے گرد ایسی دیواریں نہیں کھڑی کرتے. بادشاہ دفاعی نکتہ نظر سے اہم شہروں کے گرد ہی دیوار بنواتے ہیں. اس لئے آپ بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ *سور* کے اندر واقع شہر/جگہ نہایت اہم ہے. ایسی جگہ جس کی حفاظت مقصود ہے. اتنی اہم کہ اس کی تعمیر پر بادشاہ نے اتنا سرمایہ لگایا ہے.
یہاں ہمارے پاس*سور* سے متعلق تین نکات بن گئے ہیں.
- * سور* آپ کو ایک بادشاہ کی یاد دلاتی ہیں.
- *سور *سے جگہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے.
- *سور* سے عام اہل عرب(عمومی طور پر) زیادہ آگاہ نہیں.
اب جب لفظ سورۃ استعمال ہو رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایسی جگہ جہاں تک
رسائی معمولی بات نہیں. یہ سورۃ ایک بادشاہ کی طرف سے ہے لہذا ذرا محتاط
رہا جائے . اب سورۃ کے ساتھ حجم، ضخامت کا تصور ہے، تو وہ یہی ہے کہ آپ اس
کی اندر دخل در معقولات نہ کر سکیں. اس کے حدود میں نقب نہ لگا سکیں.
یعنی آپ قرآن کی سورۃ پر غالب نہیں آسکتے. آپ جتنی بھی کوشش کر لیں آپ اس کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتے. اگر کوئی شخص ایسی کوشش کرتا بھی ہے، تو سوچیے ذرا وہ کس پر حملہ آور ہو رہا ہے؟؟ شہر کے عام آدمی پر یا عظیم بادشاہ پر؟ پس سورۃ پر حملہ یا تنقید اللہ کے خلاف جرم ہے. یہ ساری بات لفظ *سور* کے مفہوم سے واضح ہے . اور کیا ہے کہ ایک شہر کی حفاظت کا فیصلہ بھی ایک بادشاہ ہی کر سکتا ہے.
یہ بیرونی سرحدی دیواروں کی تعمیر ایک دن کا منصوبہ نہیں ہے. یہ کب شروع ہوا؟ کب اس کی بنیاد رکھی گئی؟ کب اس کے لیے بڑی بڑی اینٹیں اکٹھی کی گئیں؟ یقیناً اس منصوبے پر سالوں پہلے کام شروع کر دیا گیا ہو گا. پھر بنیادیں رکھی گئی ہوں گی. اور پھر دیواریں اوپر اٹھائی گئی ہوں گی.
یعنی آپ قرآن کی سورۃ پر غالب نہیں آسکتے. آپ جتنی بھی کوشش کر لیں آپ اس کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتے. اگر کوئی شخص ایسی کوشش کرتا بھی ہے، تو سوچیے ذرا وہ کس پر حملہ آور ہو رہا ہے؟؟ شہر کے عام آدمی پر یا عظیم بادشاہ پر؟ پس سورۃ پر حملہ یا تنقید اللہ کے خلاف جرم ہے. یہ ساری بات لفظ *سور* کے مفہوم سے واضح ہے . اور کیا ہے کہ ایک شہر کی حفاظت کا فیصلہ بھی ایک بادشاہ ہی کر سکتا ہے.
یہ بیرونی سرحدی دیواروں کی تعمیر ایک دن کا منصوبہ نہیں ہے. یہ کب شروع ہوا؟ کب اس کی بنیاد رکھی گئی؟ کب اس کے لیے بڑی بڑی اینٹیں اکٹھی کی گئیں؟ یقیناً اس منصوبے پر سالوں پہلے کام شروع کر دیا گیا ہو گا. پھر بنیادیں رکھی گئی ہوں گی. اور پھر دیواریں اوپر اٹھائی گئی ہوں گی.
وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا
عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا
شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (23)
"اور اگر ہو تم کسی شک میں،اس کے بارے میں جو نازل کیا ہم نے اپنے بندے پر.
پس تم لے آؤ کوئی سورۃ اس کی مانند. اور بلا لو اپنے گواہوں کو اللہ کے
سوا، اگر ہو تم سچے. "
اس کے جیسی سورۃ تم بنا ہی نہیں سکتے.
کیونکہ تم اگر بنیاد اٹھاؤ گے تو زمین سے اٹھاؤ گے. جبکہ قرآن کی سورۃ کو
اللہ تعالٰی آسمان پر تعمیر کرتے ہیں. اور پھر اس کو زمین پر نازل کرتے
ہیں. اور آسمان کی اونچائی کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا. وہاں تک کسی کی
رسائی ممکن نہیں. کوئی اتنی بلندی تک جانے کا دعوٰی نہیں کر سکتا. سبحان
اللہ..
کلام اللہ کی کاملیت کا اندازہ صرف اسی ایک لفظ(سورۃ) سے بھی لگایا جا سکتا ہے.
کلام اللہ کی کاملیت کا اندازہ صرف اسی ایک لفظ(سورۃ) سے بھی لگایا جا سکتا ہے.
*لے آؤ ایک سورۃ اس کی مانند. بنا لاؤ اس کی مانند*
اگر ہم آیت کا ترجمہ اس طرح کرتے، (یعنی کلام اللہ کو ایک چیپٹر قرار دے کر )
* اگر تمہیں کوئی شک ہے اس کلام میں، جو میں نے بھیجا اپنے غلام پر، تو تم اس جیسی ایک سورۃ بنا لاؤ.
سورۃ ایسا لفظ ہے جس کا استعمال انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا. یہی کلام اللہ کی خصوصیت ہے. اب اس کے ساتھ اللہ تعالٰی فرما رہے ہیں کہ *سُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ* اللہ نے یہ نہیں کہا کہ *سُورَةٍ مِّثْلِهِ* یعنی عین اس کے جیسی سورۃ بنانے کو نہیں کہا. کیونکہ تم ہو بہو اس کے جیسی تو بنا ہی نہیں سکتے. چلو کسی قدر، کوئی ایک فیصد ملتی جلتی ہی بنا لاؤ. اور پھر لے آؤ اپنے گواہوں کو اپنے ماہرین کو، جو اللہ کے علاوہ ہیں، اگر تم اپنے دعوؤں میں سچے ہو. لفظ "شُهَدَاءَكُم"، گواہی کا لفظ گزشتہ زمانے میں یہ ماہرین ، جہان دیدہ، اور سمجھ دار لوگوں کے لیے استعمال ہوتا تھا. جب آپ ایک بڑی دیوار کھڑی کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اس کے عینی شاہد ہوتے ہیں. جو اس کی تعمیر سے نہایت متاثر ہوتے ہیں. جبکہ ایک رات میں بننے والی باڑ سے کوئی متاثر نہیں ہوتا. اس کو لوگ سرسری طور پر دیکھتے ہیں. لوگوں کی ساری توجہ ساری پسندیدگی کس کیلئے ہے؟؟ ضخیم دیوار کیلئے.
*وادعو شہداء کم من دون اللہ ان کنتم صادقین *
اور پھر اللہ کے علاوہ اپنے گواہوں کو بھی بلا لو. اگر ہو تم سچے..
( اور جن پر تم یقین رکھتے ہو. وہ اللہ سے نہایت کم تر درجے کے ہیں)
بارک اللہ لی ولکم فی قرآن الحکیم..
نعمان علی خان
جاری ہے۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں