تدبر القرآن
سورۃ البقرہ
نعمان علی خان
حصہ- 33
کچھ عرصہ پہلے میں ایک یہودی عالم کے ساتھ تھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ آپ
مجھے موسی علیہ السلام کے متعلق بتائیے ان کا قصہ جو بھی آپ کو پتہ ہے
کیونکہ یہود کی 4 یا پانچ کتب میں حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ نہایت
تفصیل سے بیان کیا گیا ہے. ان کے پاس موسی علیہ السلام سے متعلق کثیر مواد
موجود ہے تو میں نے پوچھا کہ موسی علیہ السلام پر وحی کا آغاز کس طرح ہوا؟
اس نے بتایا کہ "وہ سفر کر رہے تھے اور انہوں نے ایک آگ دیکھی". میں نے
پوچھا "کیا وہ تنہا تھے؟" اس نے جواب دیا کہ نہیں، ان کے ساتھ ان کی بکری
تھی. میں نے کہا کہ نہیں، ان کے ساتھ ان کی بکری نہیں تھی، وہ اپنی زوجہ کے
ساتھ تھے. یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ پھر مجھے احساس ہوا کہ انہوں نے بکری کا
ذکر کیوں کیا. کیونکہ حضرت موسی علیہ السلام کی نصف بہتر کا تعلق مدین سے
تھا.، حضرت موسی علیہ السلام کی شادی کہاں ہوئی تھی؟ مدین میں، اور مدین
عرب کا حصہ ہے. اور یہودیوں میں ethnicity، آپ کے خاندان کا نام والدہ کے
نام پر ہوتا ہے. تو حضرت موسی علیہ السلام کے بچوں کی والدہ ایک عرب خاتون
تھیں اور اگر یہود اس بات کو مان لیں تو موسی علیہ السلام کی نسل عرب ہے.
تو یہ یہود کے لیے ایک مسئلہ تھا تو انہیں یہی بہتر لگا کہ وہاں بیوی کی
جگہ بکری کا ذکر کر دیا جائے. قرآن نے آ کر ان کی اصلیت ظاہر کی جسے انہوں
نے چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی.
کیونکہ وہ یہود سے کوئی تعلق، کوئی نسبت ہی نہیں رکھنا چاہتے تھے. حتی کہ جب موسی علیہ السلام سے ان کے سسر نے یہ کہا کہ آپ کو آٹھ سال میرے ہاں خدمت کرنا ہو گی اور اگر آپ کو مناسب لگا تو دس سال تک میرے پاس ہی ٹھہرے رہیے، اب قرآن میں ان دس سالوں کے لیے کیا الفاظ استعمال ہوئے؟ ثمانیة حجاج، حجاج کا لفظ کہاں سے نکلا ہے؟ حج سے اور حج کہاں کیا جاتا ہے. تو حضرت موسی علیہ السلام کے جو سسر تھے انہوں نے کہا کہ آٹھ حج کے سال گزر جائیں تب آپ کو جانے کی اجازت ہے یعنی انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام سے خانہ کعبہ کا ذکر کیا. موسی علیہ السلام واقف تھے خانہ کعبہ سے، سبحان اللہ، حج، یروشلم یا بیعت المقدس میں کبھی ادا نہیں کیا گیا، حج کا رکن صرف اور صرف خانہ کعبہ کے لیے ہی مخصوص ہے. تو اس طرح قرآن نے یہ تاریخ بیان کی اور اہلِ عرب حیران تھے کہ یہ کیسا کلام ہے، جو باتیں اس کلام میں ہیں وہ ہماری سوچ سے بالاتر ہیں اور یہ اندازِ بیاں ہمارے گمان سے کہیں بڑھ کر ہے. تو اس کلامِ پاک کا تو کوئی جواب ہی نہیں.
پھر رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و السلام نے مدینہ ہجرت فرمائی. یہاں ان کا واسطہ ایسے لوگوں سے نہ تھا جو لکھنے پڑھنے سے ناواقف ہوں، ہاں یہاں بھی مشرکین اور بدو تھے لیکن یہاں یہود و نصارٰی بھی کثیر تعداد میں آباد تھے اور وہ تہذیب و تعلیم میں اہلِ مکہ سے کہیں آگے تھے. وہ اہلِ علم میں سے تھے. تو جب اللہ تعالٰی نے فرمایا اور چیلنج دیا کہ تم اس جیسی سورۃ اگر بنا کے لا سکتے ہو تو لے آؤ تو یہ مکی چیلنج جیسی صورتحال نہ تھی. مکہ مکرمہ میں شاعر لوگ آباد تھے ان کا خیال تھا کہ ہم شاعری و سخن وری کے بادشاہ ہیں تو ہمارے لیے ایسا کلام بنانا مشکل نہ ہو گا.
لیکن مدینہ میں یہود کے نصارٰی نے کہا کہ ہم ان کو تورات و انجیل دکھاتے ہیں، وہ آسمانی کلام جو پہلے سے ہمارے پاس موجود ہے. لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ تورات سے جو بھی کلام لا کے پیش کرنا چاہتے وہ قرآن کو برحق ثابت کرتا تھا. تو وہ یہ نہیں کر سکتے تھے، انہیں یہ چھپانا پڑا. اور پھر اللہ تعالٰی نے ان سے کہا کہ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ کہ تم اس جیسی نہ سہی اس کے قریب ترین ہی کوئی سورۃ بنا کے دکھا دو. دوسرے لفظوں میں رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و السلام نے یہود کو چیلنج کیا کہ تم اہلِ علم میں سے ہو، اور تم خود کو اس چیلنج کے لیے نہایت قابل سمجھتے ہو تو تم اتنا سا ہی کر دو کہ اس کے قریب ترین کوئی چیز بنا کے دکھا دو اور آگے کہا کہ اللہ کے سوا اپنے تمام مددگار( شہداء ) بھی بلا لاؤ. شہداء دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو شہادت دیں کہ ہاں یہ اس سے ملتا جلتا ہی کلام ہے. تو اللہ کے سوا اپنے تمام مددگار بلا لاؤ، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو. اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم سچ کہہ رہے ہو." ان کنتم صادقین " کے دو معنی ہیں کہ اصل میں تو تم خود شک میں مبتلا ہو، اور تم یہ بتانا ہی نہیں چاہتے کہ تمہیں خود بھی اپنے سچا ہونے پہ شک ہے.
جاری ہے۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں