سوشل میڈیا اور ہم


سوشل میڈیا اور ہم

آج کل ہر جگہ اس پر بحث ہو رہی ہے کہ چند اشخاص کے "گستاخیِ رسولﷺ"  کی حرکت پر سوشل میڈیا پر پابندی کی تجویز درست ہے یا نہیں۔۔۔۔۔  بے شک ہر مسلمان یہ جذبہ رکھتا ہے کہ وقت آنے پر نبیﷺ کے لیے جان تک قربان کرنے سے گریز نہیں کریں گے ۔۔۔ جب جان اہمیت نہیں رکھتی تو سوشل میڈیا کیا چیز ہے۔

مگر یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ان مذموم حرکات کا قلع قمع کرنے کا مستقل حل ہے؟
ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک متنازع فلم کی وجہ سے کئی سال پاکستان میں 'یو ٹیوب' پر پابندی رہی مگر کتنے لوگ ہیں جنہوں سے اس پابندی کی وجہ سے 'یو ٹیوب' چھوڑا؟
بلکہ مختلف طریقے ڈھونڈ نکالے "دو نمبری" کے جس سے یو ٹیوب دیکھا جا سکے
کوئی بھی چیز خود بری نہیں ہوتی اس کا استعمال اس کے بارے میں "بری" یا "اچھی" رائے قائم کرتا ہے ۔
پابندی وغیرہ لگانا تو حکومت کا کام ہے ( کام کرنے سے بچنے کا آسان طریقہ) مگر سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ "برائی کو اچھائی کے ذریعے شکست دیں" ۔۔۔ کیوں ہم برائی کو ہی ڈسکس کیے جائیں ہر وقت (آگاہی اور بھیڑچال میں فرق ہوتا ہے) ۔۔۔ کیوں نہ ہم اس کے مقابلے میں اپنی نبیﷺ کی عظمت بیان کریں۔۔۔ ان کی سیرت سے اسباق لوگوں تک پہنچائیں۔ میں نے کافی عرصہ پہلے مشہور اسکالر "مفتی اسماعیل مینک" کی ایک بات پڑھی تھی:


" If others use social media for the wrong reasons it doesn't mean we should stop using it for the right reasons"

"اگر دوسرے سوشل میڈیا کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس کو درست مقاصد کے لیے بھی استعمال کرنا چھوڑ دیں"

یہ سب و شتم (گستاخی) کا سلسلہ ہمارے نبیﷺ کی زندگی سے چلتا آرہا ہے اور ان کے دنیا سے جانے کے بعد تو مخالفینِ اسلام کو کھلا میدان مل گیا ہے اس لیے یہ مسلمانوں کے لیے نئی بات نہیں ۔۔۔ ہمارا ایمان ہے کہ اس سب سے ہمارے نبیﷺ کی ذاتِ اقدس کی شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ، بلکہ ان پر سچا ایمان لانے والے  ان کی عظمت کے مزید قائل ہوتے جاتے ہیں اور بڑھ چڑھ کر اپنے نبیﷺ کی شان بیان کرتے ہیں جس کا اثر "سچ" کے متلاشی غیر مسلموں تک بھی پہنچتا ہے۔

اس لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ اپنے قول اور سب سے بڑھ کر عمل کے ذریعے اسلام کے اصل پیغام جو کہ ہمارے نبیﷺ نے ہم تک پہنچایا، اس کو دنیا تک اسی سوشل میڈیا کے ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے پہنچانے کی کوشش کریں کیونکہ ہمارے رب نے ہم سے کوشش مانگی ہے نتیجہ نہیں۔ :)

آخر میں سیرت طیبہﷺ سے ایک جھلک

قریش مکہ نے اس دین کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالیں اس ارادے سے کہ اس کا کام تمام ہوجائے ،یہ دعوت مٹ جائے اور اس کا نام لینے والا باقی نہ رہے لیکن اس وقت قریش کے ان فقیروں کو کیا پتہ تھا کہ یہ ایک آفاقی دعوت ہےجو پوری دنیا میں عام ہونے کے لیے آئی ہے  مٹنے کے لیے نہیں،چنانچہ وہ پوری پلاننگ کے ساتھ اس پیغام کے پیچھے لگ گئے ۔اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لانے والوں کا ٹٹھا کرتے ،ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ،آپﷺ کے بارے میں کہتے کہ اس پر جادو کردیاگیاہے ،شاعر ہے،پاگل ہے ،کاہن ہے ،جادوگرہے ،جھوٹا ہے ، عجیب عجیب طرح کی باتیں بناکر پھیلاتے ،کبھی کمزورمسلمانوں پر طنز کرتے ہوئے کہتے : یہ دیکھو! زمین کے بادشاہ آگئے ۔
دعوت محمدی کے خلاف محاذآرائی کی ایک شکل یہ تھی کہ انہوں نے کہنا شروع کیا کہ قرآن محمد (ﷺ)کے خوابوں کی اوٹ پٹانگ باتیں ہیں، کبھی کہتے کہ محمد (ﷺ) اپنی طرف سے بناکر پیش کرتے ہیں ، کبھی کہتے کہ ان کے پاس ایک شیطان ہے جو ان کو سکھاتا ہے ، کبھی کہتے کہ محمد(ﷺ) جنون میں اس طرح کی بکواس کررہے ہیں ۔
 اللہ کے رسول ﷺ بھی ہمارے اورآپ کے جیسے دل رکھتے تھے ،آپ کو یہ باتیں سن کرسخت تکلیف ہوتی تھی ، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

 وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ ( سورہ الحجر 97)
 ”ہمیں معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کا سینہ تنگ ہورہا ہے “

۔ پھر آپ کو تسلی دی :

 إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ( سورہ الحجر 95)
”استہزاءکرنے والوں کے معاملے میں ہم آپ کے لیے کافی ہیں ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زیادتیوں کی جوبھی شکلیں ہوسکتی تھیں وہ سب اپنائی گئیں،محض اس لیے کہ اسلام کی آواز کو دبادیاجائے ، کفارقریش نے آپ کا ٹھٹھا مذاق کیا، آپ کو پاگل اوردیوانہ کہا،زبانی اذیتیں پہنچائیں، آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے، دست درازیاں بھی کیں،بکری کا بچہ دانی اٹھاکر آپ پر پھینک دیتے،اگرکھانا بن رہا ہوتا اور ہانڈی چولہے پر ہوتی تو بچے دانی کو ہانڈی میں ڈال کر سارا کھانا خراب کر دیتے ،لیکن رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم جواب میں نہ بحث کرتے اور نہ کوئی بات کہتے بس اِتنا کرتے کہ لکڑیوں پر اسے باہر لے کرآتے اور کہتے: ”اے بنو عبدمناف ! یہ کیسی ہمسائیگی ہے۔“  پھر اسے باہر پھینک دیتے۔

ایک دن ابوجہل نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا،وہ اس ارادے سے چلا کہ آپ کی گردن رونددے گا ۔ لیکن لوگوں نے اچانک دیکھا کہ وہ ایڑی کے بل پلٹ رہا ہے اوردونوں ہاتھوں سے بچاؤ کررہا ہے، لوگوں نے کہا: ابوالحکم ! تمہیں کیاہوگیا؟ اس نے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے اوراس کے درمیان آگ کی ایک خندق ہے ،ہولناکیاں ہیں،اورپروں کے بازوہیں ۔ 

ہمارے رب کو ہم سب سے کہیں زیادہ اپنی محبوب نبی حضرت محمدﷺ سے محبت ہے اور ان کے دشمنوں کے لیے "اللہ ہی کافی ہے" ۔۔۔ ہمارے کرنے کا جو کام ہے ہم بس وہ کریں ۔۔۔۔ یقین رکھیں ہم جو بھی کریں اس سے بہتر نہیں ہو سکتا جو ہمارا رب کرے گا ان دشمنوں کے ساتھ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں