گوبھی گوبھی ہوتی ہے


انٹرنیٹ انٹرنیٹ اور گوبھی گوبھی ہوتی ہے

ایک بندے کو مجبوری میں تقریر کرنی پڑ جاتی ہے، چونکہ اس نے پہلے کبھی مجمع عام کے سامنے تقریر نہیں کی ہوتی اس لئے وہ جھجک محسوس کرتا ہے۔ تقریر سے پہلے تربیت کے لئے ایک استاد اسے گوبھی کی فصل کے کنارے لے جاتا ہے۔ اس کو کہتا ہے کہ سمجھو یہ جو دور تک پھیلی ہوئی گوبھی ہے یہ بندے بیٹھے ہوئے ہیں اور تمہیں ان کے سامنے تقریر کرنی ہے۔ چلو اب تم تقریر کرو۔ بندہ روزانہ گوبھی کو بندے سمجھ کر مشق کرتا ہے۔ اس کی جھجک ختم ہو جاتی ہے اور وہ روانی سے تقریر کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ پھر وہ دن آ جاتا ہے جس دن تقریر کرنی ہوتی ہے۔ جب وہ مجمع کے سامنے جاتا ہے تو بندوں کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر وہ گھبرا جاتا ہے اور اس کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلتا۔ استاد اسے اشارہ کرتا ہے کہ بول بول بول۔۔۔ جب اس سے کچھ نہیں بولا جاتا تو نہایت مجبور ہو کر استاد کو جواب دیتا ہے کہ استاد جی! گوبھی گوبھی ہوتی ہے اور بندے بندے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہم لاکھ ”ایڈوانس“ ہو جائیں پھر بھی انٹرنیٹ انٹرنیٹ ہوتا ہے اور حقیقی زندگی حقیقی ہوتی ہے۔

کہتے ہیں کہ انسان ایک سماجی جانور ہے۔ انسان تنہا نہیں رہ سکتا اور اگر کوئی رہتا بھی ہے تو پھر وہ انسان کی تعریف پر سوفیصد پورا نہیں اترتا۔ ویسے بھی تنہائی کے نقصانات ہی نقصانات ہے اور سماجی روابط کے فائدے ہی فائدے۔ آپ نے دیکھا ہو گا جو لوگ اپنے خاندان والوں کو وقت نہیں دے پاتے تو ان میں دوریاں اور مسائل جنم لیتے ہیں۔ خونی رشتے ہی خاندان نہیں ہوتے بلکہ ایک انسان کی زندگی میں اس کے کئی خاندان ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے رشتہ داروں کا ایک خاندان ہوتا ہے، پھر دوست احباب کا اور پھر عام معاشرہ بھی ایک خاندان ہوتا ہے۔ مختلف لوگوں کے رہن سہن اور طور طریقوں کی بنیاد پر خاندان کم یا زیادہ بھی ہوتے ہیں۔ جیسے کاروباری بندے کا کاروبار سے متعلقہ ایک خاندان ہو گا۔ طالب علم کا سکول و کالج وغیرہ کا ایک خاندان ہو گا۔ اب ایک انٹرنیٹ کا خاندان بھی وجود میں آ چکا ہے۔ کسی ایک خاندان کو بھی وقت نہ دینے سے زندگی میں بہت کچھ ادھورہ رہ جاتا ہے۔

کسی کام میں زیادتی یا کمی دونوں ہی نقصان دہ ہوتی ہیں۔ میانہ روی بہت زبردست چیز ہے۔ ضرورت سے زیادہ ملنا یا دوری، دونوں ہی ٹھیک نہیں۔ جس خاندان کو جتنا وقت دینا مناسب ہو اتنا ضرور دینا چاہئے۔ ایک دوسرے سے ملتے رہنا چاہئے۔ ملنے سے محبتیں بڑھتی ہیں، ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ مخلص ہو کر ملنے سے حسن ظن پیدا ہوتا ہے اور بدظنی دور بھاگتی ہے۔

ہم انٹرنیٹ پر بہت باتیں کرتے ہیں۔ عام طور پر تحریری صورت میں رابطہ رکھتے ہیں۔ کسی بات میں لاکھ ”سمائیلی“ ڈالو، لاکھ ”ہا ہا ہا“ لکھو مگر یہ اس قہقے اور تاثرات کو مکمل طور پر دوسرے تک نہیں پہنچا سکتا جو حقیقی زندگی میں ہم آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کو کہتے ہیں۔ سالگرہ کیک کی تصویر اور اصلی کیک میں بھی بہت فرق ہوتا ہے۔ بھائی جی! سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ گوبھی گوبھی ہوتی ہے اور بندے بندے ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ انٹرنیٹ ہوتا ہے اور حقیقی زندگی حقیقی ہوتی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جب صرف سائبر دنیا ہی باقی رہ جائے تو انسانوں کے لئے سائبر دنیا ہی حقیقی مزے دینے لگے مگر ہم چونکہ ایسے وقت میں ہیں جب یہ نئی نئی شروع ہوئی ہے۔ ہم سائبر اور حقیقی میں موازنہ کر سکتے ہیں لہٰذا سائبر دنیا ہمارے لئے ویسی بالکل نہیں ہو سکتی جیسی حقیقی دنیا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں