Shukar



انسان اپنی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز سے گزرتا ہے۔ کبھی کمال کی بلندیوں کو جا چھوتا ہے، کبھی زوال کی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے۔ ساری زندگی وہ ان ہی دونوں انتہاؤں کے درمیان سفر کرتا رہتا ہے اور جس راستے پر وہ سفر کرتا ہے، وہ شکر کا ہوتا یا نا شکری کا۔ کچھ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ زوال کی طرف جائیں یا کمال کی طرف، وہ صرف شکر کے راستے پر ہی سفر کرتے ہیں، چاہے زوال حاصل کریں یا کمال اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ان دونوں راستوں پر سفر کرتے ہیں۔ کمال کے راستے پر جاتے ہوئے شکر کے اور زوال کی طرف جاتے ہوئے نا شکری کے۔ انسان اللہ کی ان گنت مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے۔ اشرف المخلوقات ہے مگر مخلوق ہی ہے۔ وہ اپنے خالق پر کوئی حق نہیں رکھتا، صرف فرض رکھتا ہے۔ وہ زمین پر ایسے کسی ٹریک ریکارڈ کے ساتھ نہیں اتارا گیا کہ وہ اللہ سے کسی بھی چیز کو اپنا حق سمجھ کر مطالبہ کر سکے مگر اس کے باوجود اس پر اللہ نے اپنی رحمت کا آغاز جنت سے کیا، اس پر نعمتوں کی بارش کر دی گئی اور اس کے بدلے اس سے صرف ایک چیز کا مطالبہ کیا گیا شکر کا۔ کیا محسوس کرتے ہیں آپ! اگر آپ کبھی زندگی میں کسی پر کوئی احسان کریں اور وہ شخص اس احسان کو یاد رکھنے اور آپ کا احسان مند ہونے کے بجائے آپ کو ان مواقع کی یاد دلائے، جب آپ نے اس پر احسان نہیں کیا تھا یا آپ کو یہ جتائے کہ آپ کا احسان اس کے لئے کافی نہیں تھا۔ اگر آپ اس کے لیے "یہ" کر دیتے یا "وہ" کر دیتے تو زیادہ خوش ہوتا۔ کیا کریں گے آپ ایسے شخص کے ساتھ؟ دوبارہ احسان کرنا تو ایک طرف، آپ تو شاید اس سے تعلق رکھنا تک پسند نہ کریں۔ ہم اللہ کے ساتھ یہی کرتے ہیں۔ اس کی نعمتوں اور رحمتوں پر اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے ہم ان چیزوں کے نہ ملنے پر کڑھتے رہتے ہیں۔ جنہیں ہم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اللہ پھر بھی رحیم ہے، وہ ہم پر اپنی نعمتیں نازل کرتا رہتا ہے۔ ان کی تعداد میں ہمارے اعمال کے مطابق کمی بیشی کرتا رہتا ہے مگر ان کا سلسلہ کبھی بھی مکمل طور پر منقطع نہیں کرتا۔"

پیر کامل صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم از عمیرہ احمد۔ سے اقتباس

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں