تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اگر
قطرہ وصالِ بحر حاصل کرلے تو بھی وہ قطرہ نہیں رہ سکتا، سمندر میں شامل ہو
کر قطرہ، قطرہ تو نہیں رہے گا، سمندر بن جائے ہزار بار بن جائے وہ قطرہ
نہیں رہے گا وہ جو تھا وہ نہ رہا۔۔۔ اب اور کیا بن گیا؟۔۔۔ سمندر نے قطرے
کو ہمکنار کی، آغوشِ رحمت میں لے لیا، اُسے وسعتِ بیکراں عطا کردی۔۔ اس کا
اصل اس پہ آشکار کردیا، اُس پر ایسا حال طاری کیا کہ اُس کا ماضی، اب اس کا
حال ہی نہیں مستقبل بھی ہے۔۔۔ اصل سے جدا ہو کر اصل میں ملنا، بڑی بات
ہے۔۔۔۔ لیکن فراق میں قائم رہنے والا قطرہ وصال میں بکھر گیا۔۔۔ منتشر ہو
گیا۔۔۔ پھیل گیا۔۔۔ سمندر بن گیا ۔۔ اور یوں اپنی ذات سے فنا ہو کر کسی اور
ذات میں بقا پا گیا۔۔۔
واصف علی واصف۔۔۔۔( قطرہ قطرہ قلزم )
واصف علی واصف۔۔۔۔( قطرہ قطرہ قلزم )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں