سمندر رازداں میرا اگر ہوتا
تو سب تنہائیاں اپنی اسے میں سونپ دیتا
اور چلتا تھام کر انگلی ہوا کی
دور جاتے راستوں پر
جن سے کوئی لوٹ کر آتا نہیں
سمندر رازداں میرا اگر ہوتا
تو سن گہرائیاں اپنی اسے میں سونپ دیتا
اور اترتا
پانیوں کی نیلگوں وسعت کے سینے میں
زمیں کشتی بنا کر
آسماں کو بادباں کرتا
سفر کا دکھ بھرا لمحہ
تمہارے اور اپنے درمیں کرتا
سمندر رازداں میرا اگر ہوتا
نصیر احمد ناصر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں