منقول از بشارت حمید
اس دنیا میں ہر انسان کی خواہشات کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ زیادہ تر
زن، زر اور زمین کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ انسان خواہش کرتا ہے کہ وہ کثیر مال
و دولت رکھتا ہو، کوٹھیوںاور بنگلوں کا مالک ہو اور دنیا کی حسین ترین
عورت کا قرب اسے حاصل ہو۔ انہی خواہشات کے پیچھے بھاگتے رہنا ہم میں سے
اکثر لوگوں کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے، لیکن یہ ساری خواہشات انسان کے ذہن
میں طے شدہ معیار کے مطابق اس دنیا میں ملنی بہت ہی مشکل ہیں، اور پھر ان
تینوں میں سے ہر خواہش اپنے ساتھ بہت سے خطرات بھی ساتھ لاتی ہے۔ مال زیادہ
آ جائے تو اس کے چھن جانے کا ڈر سوار ہو جاتا ہے، زمین گھر اور بنگلے مل
جائیں تو ان پر کسی اپنے یا بیگانے کے قبضے کا خوف طاری رہتا ہے، اور اگر
خوبصورت عورت کا ساتھ مل جائے تو اس کی حفاظت اور ناز نخرے اٹھانا ایک الگ
درد سر بن جاتا ہے۔ انسان کتنا بھی جسمانی طور پر طاقتور ہو، کتنا ہی
عقلمند ہو لیکن بہرحال بہت سی انسانی کمزوریاں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اسے
بھوک بھی لگتی ہے، پیاس بھی لگتی ہے، نیند بھی آتی ہے اور حوائج ضروریہ
بھی درپیش ہوتی ہیں۔ ہر وقت وہ اپنی ملکیتی دولت یا زمین کی حفاظت کے لیے
ان کے اوپر نہیں بیٹھ سکتا۔ پھر انسانی زندگی کے مختلف مراحل صحت و بیماری،
جوانی اور بڑھاپا انسان کی صلاحیتوں میں اتار چڑھاؤ کا سبب بنتے ہیں۔
بحیثیت مجموعی ہر شے کی زندگی اور ہر جاندار مخلوق کی انفرادی زندگی میں ہر
لمحہ تبدیلی وقوع پذیر ہو رہی ہوتی ہے، چاہے وہ اس کے بارے میں جانتا ہو
یا نہ جانے، زندگی کو ایک لمحے کے لیے بھی ثبات نہیں ہے۔ دنیا کا طاقتور
ترین آدمی چاہے وہ جسمانی قوت کے لحاظ سے طاقتور ہو یا اقتدار و اختیار کے
لحاظ سے، اس کی طاقت بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ کہاں ہیں وہ فرعون اور
نمرود جو خود کو رب کہلوانا پسند کرتے تھے؟ کدھر گئے ماضی قریب کے وہ
حکمران جو اپنے اقتدار اور اختیار پر نازاں ہوا کرتے تھے۔ سب ماضی کا حصہ
بن چکے اور اسی طرح آج کے بزعم خود طاقتور لوگ بھی ایک دن نہیں رہیں گے۔
اللہ تعالٰی نے ہر انسان کو دوسروں سے بالکل ممتاز پیدا فرمایا ہے۔ جس
طرح ہر انسان کے فنگر پرنٹ دوسرے سب انسانوں سے جدا ہیں اسی طرح ہر انسان
کا مزاج دوسروں سے الگ ہے۔ ہر ذی روح اپنی ذات میں یونیک پیدا کیا گیا ہے۔
ہر ایک کا نصیب الگ الگ ہے۔ ہر ایک کی خوبیاں اور خامیاں دوسروں سے جدا
ہیں۔ اللہ تعالٰی نےقرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ”انسان کو کمزور
پیدا کیا گیا ہے“ یعنی انسان کے اندر کمی، کوتاہی اور کمزوری ہے اور رہے
گی۔ اللہ نے انسان کے لیے توبہ کا راستہ اسی لیے رکھا ہے کہ یہ اپنی
کمزوریوں کی وجہ سے بار بار غلطی کرے گا اور اس دنیاوی زندگی میں غلطی کا
واحد مداوا اللہ سے سچی توبہ کی صورت میں ہے۔ اس سارے پس منظر میں اگر ہم
انسانوں سے اس دنیا کے کاموں میں پرفیکشن کی خواہش رکھیں تو یہ ہماری کم
فہمی تو ہو سکتی ہے حقیقت نہیں، کہ ہم خود بھی پرفیکٹ نہیں ہیں اور یہ دنیا
بذات خود پرفیکٹ نہیں ہے تو یہاں کا کوئی بھی کام پرفیکٹ کیسے ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالٰی نے پرفیکشن آخرت میں رکھی ہے، وہاں انسان بھی ہمیشہ ہمیش کی
زندگی جیے گا اور اسے وہاں جو کچھ بھی ملے گا وہ پرفیکٹ ہوگا اور ہمیشہ کے
لیے ہوگا۔ یہاں اس دنیا میں ہمیں جو کچھ ملا ہے، وہ تو اس فانی زندگی میں
برتنے کا چند روزہ سامان ہے۔ جس جائیداد کو ہم اپنی ملکیت سمجھتے ہیں تو
موت کے بعد ہم اسے ساتھ کیوں نہیں لے جاتے؟ قرآن مجید میں دنیا کو دھوکے
کا سامان کہا گیا ہے۔ کیا کسی بھی شے کی ملکیت کا دعوٰی ایک بہت بڑا دھوکہ
نہیں ہے؟ کتنے ایسے جائیدادوں کے مالک ہیں جن کو ان کی اپنی اولاد یا دوسرے
زورآور لوگ ان سے بے دخل کر دیتے ہیں اور وہ صرف نام کے مالک رہ جاتے
ہیں، عملاً ان کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا تو پھر کاہے کی ملکیت؟
دنیا کی روز مرہ زندگی میں اگر ہم دیکھیں تو بعض لوگ ہر کام میں پرفیکشن
چاہتے ہیں اور ہر وقت اس پرفیکشن کے چکر میں اپنی اور ساتھ والوں کی زندگی
اجیرن کیے رکھتے ہیں۔ کسی لڑکے یا لڑکی کا رشتہ کرنا ہو تو دنیا جہان کے
رشتے چھان مارتے ہیں لیکن ہر کسی میں کوئی نہ کوئی نقص نکال کر مسترد کرتے
رہتے ہیں، یہ کبھی نہیں سوچتے کہ کیا ہمارے اندر کوئی خامی نہیں؟ کسی لڑکی
کا قد چھوٹا لگتا ہے تو کسی کا وزن زیادہ، کوئی مالی اعتبار سے کم ہے تو
کسی کی تعلیم میعار کے مطابق نہیں لگتی، کسی کی شکل واجبی ہے اور کسی میں
کوئی اور عیب نظر آ جائے گا۔ یہ نہیں سوچتے کہ انسان کی ذاتی کاوش کیا ہے
اسکی جسمانی ساخت بنانے میں؟ کون ایسا انسان ہے جو بدصورت بننا پسند کرے
گا؟ اگر کوئی خوبصورت ہے تو اس میں اس کا اپنا کیا عمل دخل ہے، یہ تو
صریحاً اللہ کی تخلیق ہے اس نے جیسا چاہا ویسا بنا دیا۔ کسی کی شکل و شباہت
پر اعتراض کرنے والے کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اللہ کی تخلیق پر اعتراض کر
کے اس کی ناشکری کا مرتکب ہو رہا ہے۔
اسی طرح گھر میں خاتون خانہ سے اگر سالن میں نمک مرچ کم یا زیادہ ہو
جائے تو اس کی شامت، کہیں سوٹ پر استری صحیح نہ ہو تب نکتہ چینی، یعنی ہر
وقت اپنی ذات کی کمزوریوں کی اصلاح کرنے کے بجائے دوسروں کی خامیوں پر نظر
رکھنا اور تنقید کرتے رہنا اکثر لوگوں کا طرز عمل ہوتا ہے اور یہ کسی صورت
بھی درست رویہ نہیں ہے۔ ہر انسان کے ساتھ اس کی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں
اور اسے ان کے ساتھ ہی قبول کرنا پڑتا ہے، تب ہی زندگی کی گاڑی رواں دواں
رہتی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کی سب خامیاں ایک دم سے ختم ہو جائیں، البتہ
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اسے اچھے طریقے سے سمجھایا جائے تو
کسی حد تک ان خامیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جیسے ہم دوسروں پر نکتہ چینی
کرتے ہیں، اگر ان کے کام ہمیں خود کرنے پڑیں تو ہم شاید ڈھنگ سے کر بھی نہ
سکیں۔ دوسروں پر تنقید کرتے وقت یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہم بھی اپنی
خامیوں کا بریف کیس ساتھ اٹھائے پھرتے ہیں اور کوئی ہماری خامیوں سے بھی
نالاں ہو سکتا ہے، اور اگر کوئی ہمارے ساتھ اچھا تعلق رکھ کر چل رہا ہے تو
وہ ان کمیوں کو نظر انداز کر رہا ہے، اس لیے ہمیں بھی ہر چیز میں پرفیکشن
ڈھونڈنے کے بجائے کمپرومائز کرنا سیکھنا چاہیے، اور لوگوں کی خوبیاں تلاش
کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ہماری اپنی اور دوسروں کی زندگی بھی پرسکون
انداز سے گزر سکے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں