پچھلے دنوں ای میل پر ایک دلچسپ حکایت موصول ہوئی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ ہارون الرشید بادشاہ اپنی بیگم زبیدہ خاتون کے ہمراہ دریا کنارے ٹہل رہے تھے کہ ان کی ملاقات ایک معروف بزرگ بہلول سے ہوگئی۔بہلول ریت پر گھر بنا رہے تھے ۔ انہوں بادشاہ سے کہا یہ گھر ایک دینار میں خریدلو ۔میں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ تمھیں جنت میں ایک گھر عطا کر دے ۔ بادشاہ نے اسے دیوانے کی بڑ سمجھا اور آگے بڑ ھ گئے ۔ البتہ ملکہ نے انھیں ایک دینار دے کر کہا کہ میرے لیے دعا کیجیے گا۔
رات کو بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ جنت میں ان کی بیگم کا محل بنادیا گیا ہے ۔ اگلے دن بادشاہ نے بہلول کو وہی کچھ کرتے ہوئے دیکھا تو ان سے کہا کہ میں بھی جنت میں محل خریدنا چاہتا ہوں ۔بہلول نے جواب دیا کہ آج اس محل کی قیمت پوری دنیا کی بادشاہی ہے ۔بادشاہ نے کہا کہ یہ قیمت میں تو کیا کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ مگر کل سے آج تک تم نے اس گھر کی قیمت اتنی کیوں بڑ ھادی۔ بہلول نے جواب دیا جنت کاسودا بن دیکھے بہت سستا ہے ، مگر دیکھنے کے بعد ساری دنیا کی بادشاہت بھی اس کی کم قیمت ہے ۔
یہ ظاہر ہے کہ ایک حکایت ہے جس کی صحیح یا غلط ہونے کی بحث غیر متعلقہ ہے لیکن جو بات اس میں بیان ہوئی ہے وہ ایک حقیقت ہے ۔ آخرت کی آنے والی دنیا کی ہر حقیقت اتنی غیر معمولی ہے کہ اس کے سامنے ساری دنیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ آنے والی اس دنیا کی سب سے بڑ ی حقیقت اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات و الا صفات ہے ۔ وہ ر ب اتنا طاقتور اور اس کے مقابلے میں تمام مخلوقات اس قدر کمزور ہیں کہ سب مل کر بھی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔
وہ رب آج اپنی بندگی کی دعوت دے رہا ہے ۔ مگر لوگ اس کی عبادت بلکہ اس کے وجود کے بھی منکر ہیں ۔ صرف اس لیے کہ اپنی تمام تر طاقت و عظمت کے باوجود وہ رب پردہ غیب میں ہے ۔ وہ فوراً کسی مجرم کو نہیں پکڑ تا۔ وہ کسی انسان کو نظر بھی نہیں آتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی کمزور اور بے وقعت ہستی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ یا پھر ان کی جبین نیاز جھکتی بھی ہے تو کسی ایسی مخلوق کے سامنے جو انہیں نظر آ رہی ہو۔ چاہے وہ کوئی بت ہو یا کوئی قبر۔کل قیامت کے دن ا ن میں سے ہر مخلوق کی بے وقعتی اور خدا کی عظمت کا مشاہدہ انسان اپنی آنکھوں سے کر لے گا۔ مگر اس وقت نہ خدا کے سامنے جھکنا کام آئے گا نہ اس کی بندگی کوئی فائدہ دے گی۔
یہی معاملہ جنت کا ہے ۔ دنیا کی معمولی نعمتوں کو سب کچھ سمجھنے والے انسانوں کو اگر جنت نظر آجائے تو ان کی آنکھیں پھٹ جائیں گی۔ اس جنت کا حسن، اس کی نعمتوں کی کثرت ، اس کی ابدی زندگی اور اس کا لافانی عیش ایسا ہے کہ اس کے لیے انسان اپنی پوری زندگی اور پوری دنیا کو بھی بطور قیمت پیش کر دے تو یہ کم ہے ۔مگر چونکہ یہ جنت پردہ غیب میں مستور ہے ۔ اس لیے اس کی قیمت بہت ہی کم رکھی گئی ہے ۔دن میں صرف پنج وقتہ نماز کے لیے بمشکل ایک گھنٹہ، سال میں ایک ماہ کے روزے ، اگر بچت اور گنجائش ہو تو سالانہ معمولی زکوٰۃ اور زندگی میں ایک دفعہ حج ۔ بس یہی جنت کی کم از کم قیمت ہے ۔ مگر آج لوگوں کو یہ قیمت بھی گراں گزرتی ہے ۔
یہی معاملہ جہنم کے ان عذابوں کا ہے جن کی ایک جھلک بھی انسان دیکھ لے تو ساری زندگی گنا ہوں اور نافرمانی کے ہر کام سے دور رہے گا۔مگر چونکہ یہ جہنم اور اس کے بدترین عذاب آج آنکھوں سے دور ہیں ، اس لیے انسان انہیں بھول کر عارضی اور فانی زندگی کو اپنا مقصود بنا لیتا ہے اور اللہ کی ہر حد کو پامال کر دیتا ہے ۔
سچ یہ ہے کہ آخرت کا ہر سودا ایسا ہے کہ انسان اس کے لیے سب کچھ دے ڈالے ، مگر غیب کے پردے کی بنا پر یہ سودا بہت سستا ہے ۔ کل قیامت کے دن انسان ہر قیمت دے کر یہ سودا کرنے کے لیے تیار ہوجائے گا، مگر اس روز کسی قیمت پر یہ سودا نہیں کیا جائے گا۔
تحریر: ریحان احمد یوسفی (ابو یحیی)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں