مکتب کی دیوار پہ چسپاں کرہ ٔ ارض کا اک نقشہ تھا
اس نقشے پر بنے ہوئے تھے کتنے ہزاروں شہر اور قصبے
نہریں ، جھیلیں، دریا ، جنگل
گہرے اور منہ زور سمندر، ساحل ،کوہستان
برفوں کی بے پایاں وسعت، جلتے ریگستان
اک دن اک بچے نے یونہی
کھیل کھیل میں نقشے والا کاغذ یک دم پھاڑ دیا
اور
اک اک کر کے اس کے اتنے ڈھیروں ٹکڑے کر ڈالے
جن کو اب ترتیب سے واپس جوڑ کے رکھنا ناممکن تھا
ٹیچر نے بچے کو ڈانٹا
” جب تک سارے ٹکڑے جوڑ کے نقشے کی ترتیب کے مطابق نہیں کرو گے
تُم کو چھٹی نہیں ملے گی
جاؤاُس کونے میں بیٹھو
اور یہ سارے پُرزے جوڑو
سارا نقشہ پھر سے اس کی اصلی شکل میں واپس لاؤ”
ٹیچر دل میں سوچ رہا تھا
کام بہت مشکل ہے لیکن بچے کی اصلاح کی خاطراتنی سختی لازم ہے
لیکن اس کی حیرت کی تو حد نہ رہی جب اُس نے دیکھا
بچہ پانچ منٹ میں سارا نقشہ جوڑ کے لے آیا تھا
ہر شے اپنی اصل جگہ پر ٹھیک طرح سے رکھی تھی
اُس نے پوچھا
“تُم نے اتنے ڈھیروں ٹکڑے اتنے تھوڑے وقت میں آخر
کیسے جوڑ لیے؟ ”
بچہ بولا:
“اس نقشے کے پیچھے ایک انسان کا چہرا بنا ہوا تھا
میں نے جب وہ چہرہ جوڑا
دُنیا کے نقشے کے ٹکڑے ، خود ہی جُڑ کر
اپنی جگہ پر آ بیٹھے ہیں”
امجد اسلام امجد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں