صرف ‘تصدیق بالقلب واقرار باللسان’ ہی ایمان ہے؟


لا الٰہ الا اللہ کے مطالبات…؛ اِس اہم و سنگین مسئلہ کو ہم تین جوانب سے دیکھیں گے، اور یہ تینوں جہتیں بالآخر ہمیں ایک ہی نتیجے تک پہنچائیں گی

پہلی جہت سے بات شروع کرتے ہوئے… ہم سوال کرتے ہیں: اللہ اپنے رسولوں کو انسانوں کی طرف بھیجتا کیوں ہے؟

ایسے عظیم سوال کا جواب ظاہر ہے ہم اپنے پاس سے نہ دیں گے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی اپنی کتاب سے لیں گے:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ(النساء 64)

ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ اذن خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (الحديد 25):

ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اُس کو دیکھے بغیر اس کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے یقیناً اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے

ان میں سے ایک آیت یہ واضح کرتی ہے کہ رسولوں کا بھیجنا محض اس لیے نہیں تھا – معاذاللہ – کہ وہ پیغام پہنچا دیں اور چلتے بنیں؛ یعنی آدمی کہے ہاں مجھے معلوم ہوگیا اور میں نے اس کی تصدیق کردی۔ بلکہ مطلوب یہ ہے کہ آدمی کہے رسول نے مجھے بات پہنچادی، مجھے معلوم ہوگیا اور میں اُس کا فرمانبردار ہوا۔ یہ ہے رسول کو ماننا۔ اور یہ ہے اُس ہدف کو پورا کرنا جس کے لیے رسول مبعوث ہوتا ہے۔

دوسری آیت عین یہی ہدف بیان کرتی ہے مگر اس کی پہچان کچھ زیادہ واضح انداز میں کرواتی ہے۔ رسول مبعوث ہوتے ہیں تاکہ حیاتِ انسانی اس ‘‘قسط’’ پر قائم ہو۔ قسط ایک مختصر مگر جامع تعبیر ہے جس کی تفصیل ہمیں دیگر آیاتِ قرآنی نیز سنتِ مطہرہ سے ملتی ہے؛ اور اسکی تفسیر بھی انسانی اھواء و خواہشات پر چھوڑ نہیں دی گئی ہے۔

اس آیت کامدعا یہ ہے کہ رسولوں کا بھیجنا اور کتابوں کا اتارنا محض ‘‘تبلیغ’’ کے لیے اور ‘‘مطلع’’ فرمادینے کی خاطر نہیں ہے۔ بلکہ زمین میں باقاعدہ ایک مقصد پورا کرانے کے لیے ہے؛ اور وہ یہ کہ لوگوں کی زندگی اللہ کی شریعت اور منہج پر قائم ہو؛ اِس شریعت کی وساطت یہاں خدا کی اطاعت اور فرماں برداری ہو؛ اور اِس راہ سے لوگ اِس ‘‘قسط’’ پر قائم ہوجائیں۔ تو پھر زمین پر کوئی ایسا عمل مطلوب ہے جو اِس ‘‘تصدیق’’ اور ‘‘اقرار’’ کے بعد انجام پانا ہے؛ اور اس کے بغیر رسولوں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل کرنے کا مقصد ہی پورا نہیں ہوتا؛ اس کے بغیر دین کچھ عبارتوں کا نام رہ جاتا ہےیا کچھ خیالوں اور آرزوؤں کا؛ جس سے زمینی عمل کو کچھ فرق نہیں آتا؛ اور حیاتِ انسانی میں کوئی ذرہ بھر تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ آیت میں اس کے بعد ‘‘لوہے’’ اور ‘‘زور’’ کی جانب اشارہ ہے اور اللہ اور اُس کے رسولوں کی نصرت کا ذکر ہے؛ جوکہ صریح دلالت ہے کہ وہ اعمال جو یہاں مطلوب ہیں اُن میں باقاعدہ جہاد فی سبیل اللہ آتا ہے لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ‘‘تاکہ لوگ قسط پر قائم ہوں’’۔

اگر یہ معنیٰ ہر رسالت کے اندر پایا جاتا ہے؛ کیونکہ آیت میں سب رسالتوں ہی کی بابت ایک اصول بیان ہوا ہے؛ تو پھر یہ آخری رسالت تو رسالتوں کی معراج ہے اور اس میں عائد ہونے والے فرائض کی تو شان ہی اور ہے۔

اِس مشن کا تقاضا یہ ہوا کہ اِس امت سے جو کام مطلوب ہے وہ ‘‘تصدیق’’ اور ‘‘اقرار’’ سے بہت بڑھ کر ہے۔ پہلی امتوں سے جو مطلوب تھا وہ بھی ‘‘تصدیق اور اقرار’’ سے بڑھ کر تھا، مگر اِس امت سے جو مطلوب وہ تو اس سے بہت ہی بڑھ کر ہے۔

تصور تو کریں، اِس لاالٰہ الا اللہ کے حوالے سے ‘‘تصدیق اور اقرار’’ سے بڑھ کر کچھ مطلوب نہ ہوتا اور دیکھتے ہی دیکھتے خانہ کعبہ بتوں سے پاک ہوجاتا! اور پھر ایک خانہ کعبہ ہی نہیں، صرف مکہ ہی نہیں، صرف جزیرہ عرب ہی نہیں جہان کا ایک بڑا حصہ بتوں کی نجاست سے پاک ہوجاتا، شرک کی پلیدی دور دور تک باقی نہ رہتی اور چہاردانگ عالم اسلام کا ڈنکا بجنے لگتا، درحالیکہ اِس لاالٰہ الا اللہ کے لیے – بطورِ شرطِ نجات – کوئی تکلیف درکار، نہ زحمت نہ مشقت اور نہ جہاد

اِس لا الٰہ الا اللہ کے حوالے سے صرف ‘‘تصدیق اور اقرار’’ ہی مطلوب ہوتا تو کیا مدینہ میں اسلام کو کوئی دولت میسر آتی؟ اس لا الٰہ الا اللہ کے لیے ہجرتیں کرنا، گھر چھوڑنا، رشتے قربان کرنا اِس پر ‘‘ایمان’’ کی تعریف میں ہی نہیں آتا؛ ‘‘ایمان’’ اِن سب مصائب کو گلے لگائے بغیر بھی معرضِ وجود میں آجاتا ہے اور جنت اِن سب جان جوکھوں کے بغیر بھی کھری ہے تو اِس دعوت اور اِس نبیﷺ پر جان نچھاور کرنے اور اس کی خاطر عرب و عجم کی دشمنی مول لے آنے کا تصور ہی کہاں سے آگیا؟ چند برس کے اندر اندر جزیرۂ عرب کا اسلام کی قلمرو میں ڈھل جانا، اور پھر ‘‘ایمان’’ کے اِس سیلِ بلاخیز کا پورے جہان کو تہ آب لے آنا اور نصف صدی کے اندر اندر بحر ابیض تا بحراوقیانوس تا بحرہند اِس دین کے ڈنکے بجنا… یہ سب تو رہا ایک طرف؛ اِس نبیﷺ کی اکیلی جان کو پناہ ملنا ہی کہاں متصور ہے؛ اِس کی ‘‘تصدیق’’ کرکے ہم فارغ تو ہوچکے؛ باقی تکلیفیں اٹھانا کہاں ‘‘ایمان’’ کی تعریف میں شامل ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب ہم دوسری جہت سے بات کرتے ہیں؛ اور جوکہ پہلی جہت سے متصل ہے…

وہ سب کام اور محنت جو رسول اللہﷺ اور آپؐ کے اصحابؓ لاالٰہ الا اللہ کے تقاضوں کے سلسلہ میں انجام دیتے رہے، آیا آپؐ اور اصحابؓ کی طرف سے ایک رضاکارانہ عمل تھا؛ آپ پر واجب نہیں تھا؟کیا یہ سب کام اور محنت ‘‘ایمان’’ پر ایک اضافہ تھا؛ بجائے خود ‘‘ایمان’’ نہیں تھا؟

خدا کی راہ میں اپنے گھربار چھوڑنا، وطن قربان کرنا اور لا الٰہ الا اللہ کے خلاف برسرقتال قوتوں کے خلاف میدانِ جہاد میں اترنا، تطوُّع (رضاکارانہ عمل) تھا، وہ اِس کے مکلف نہ تھے؟

ایک ‘‘امت’’ بن کر رہنے کا عملی تصور پیش کرنا، جس میں تکافلِ اجتماعی بھی آتا ہے، ایمانی اخوت اور ولاء وبراء بھی، تعاون علی البر والتقویٰ بھی، اور مسلم جان مال عزت آبرو کی حرمت کی پاسداری کرنا… یہ سب تطوُّع تھا، وہ اِسکے مکلف نہیں تھے؟

زمین پر عدل اور انصاف کا ربانی نقشہ پیش کرنا تطوع تھا، یہ اُن پر فرض نہیں تھا؟

لاالٰہ الا اللہ کے سب اخلاقیات کی پاسداری کرنا، تطوُّع تھا، فرض نہیں تھا؟

عہد کو پورا کرنا اور اجتماعی ذمہ داریاں نبھانا تطوّع تھا، واجب نہیں تھا؟

اور جس دوران صحابہؓ یہ سب اعمال انجام دے رہے تھے، صاف سمجھ رہے تھے کہ وہ ‘‘ایمان’’ کے علاوہ کوئی چیز سرانجام دے رہے ہیں؟! یعنی وہ سمجھتے تھے کہ ‘‘اقرارٌ باللسان وتصدیقٌ بالقلب’’ کرکے ‘‘ایمان’’ نام کی کارروائی سے تو وہ کب کے فارغ ہوچکے، اب تو وہ ایمان سے ‘‘زائد تر’’ کچھ امور انجام دے رہے ہیں؛ یعنی یہ سب کچھ اگر وہ نہ بھی کریں تو ‘‘ایمان’’ کا فرض تو پورا ہو ہی چکا۔

یا پھر اُن کے نفوس اِس حقیقت کے ادراک سے چھلک رہے تھے اور یہی بات اُنہوں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ سے سمجھی تھی کہ اِن فرائض پر پورا اترنا اِس حقیقت پر ایمان کا براہِ راست مطالبہ ہے کہ ‘‘نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر ایک اللہ، اور محمدﷺ اُس اللہ کے پیغمبر ہیں’’… اور وہ اس کو ایمان کا اقتضا جان کر ہی اس کی بلندترین چوٹیوں کی سرکرنے کے لیے کوشاں تھے؟

اور کیا یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ اسلام کی ‘‘عملی تصویر’’ اسلام کی حقیقت سے ‘‘زائد تر’’ کوئی چیز ہو؟ اور ‘‘اسلام’’ کی تعریف میں تو شامل ہی نہ ہوسکتی ہو؟

اور یہ امتِ خیر البشرؐ بھی اقرارٌ باللسان وتصدیقٌ بالقلب کے لیے برپا کی گئی ہے؟

تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے؛ کہ تم امر بالمعروف کرنے والے، نہی عن المنکر کرنے والے، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے ( آل عمران 110)

کیا کوئی منطق یہ تسلیم کرتی ہے کہ ایک نسل کے لیے تو نجات اتنی مشکل کردی جائے کہ لا الٰہ الا اللہ ان سے باقاعدہ عملی تقاضوں کے ساتھ مطلوب ہو، البتہ باقی نسلوں سے عملی تقاضوں کے بغیر؟ باقی نسلوں سے صرف یہ مطلوب ہو کہ وہ زبان سے ‘لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ’ کہہ دیں اور دل سے اس کی تصدیق کردیں؛ اور بس اِس پر ایمان کا سرٹیفکیٹ پالیں ؛ ‘‘ایمان کی تعریف’’ ان کے حق میں مکمل، اگر باقی کچھ ہے تو وہ ایمان سے ‘‘زائد تر’’ کوئی چیز ہے؛ جسے وہ اپنی مہربانی سے کردیں تو بہت خوب، نہ کریں تو ‘‘ایمان’’ تو بہرحال پورا ہے

پہلی نسل کے کچھ خصائص یقیناً ہیں؛ جن کے باعث وہ تاریخ کی منفرد ترین نسل ٹھہری۔ یہ نسل جاہلیت میں ایک زندگی گزار آئی تھی، اس کے بعد اس کو نعمتِ اسلام ملی تو رات اور دن کا وہ فرق جس طرح اس پر واضح تھا کسی پر نہ ہوا۔ پھر رسول اللہﷺ بنفسِ نفیس اُن کے مابین موجود تھے؛ یہ آپؐ سے براہِ راست وحی کی تعلیم لیتے؛ آپؐ کی ہمہ وقت نگرانی میں تربیت پاتے؛ تو پھر لازم تھا کہ جس قدر بلندی پر جانا انسانی بس میں ہو یہ اُن چوٹیوں کو سر کر کے آتے۔ بعد کے لوگوں کو ایک بنی بنائی چیز ملی لہٰذا اِن کا معاملہ پہلوں جیسا نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ سب درست ہے۔ مگر ہماری بات لاالٰہ الا اللہ کے تقاضوں کی بابت ہورہی ہے؛ اسلام کے یہ بنیادی ترین فرائض بہرحال جوں کے توں رہیں گے؛ نسلوں اور زمانوں کا فرق یہاں اثرانداز نہیں ہوگا۔

---------------------

اب ہم تیسری جہت سے بات کرتے ہیں: نفسِ انسانی کی دنیا میں… کیا یہ ممکن ہے کہ آدمی کسی چیز پر ‘‘ایمان’’ رکھتا ہو مگر اس کا تمام تر عملی رویہ اُس ایمان کے تقاضوں کے مخالف اور متعارض چلتا چلا جائے؟

انسان بالکل اپنی طبعی حالت میں ہے، بقائمی ہوش و حواس ہے، باطن میں وہ کسی چیز پر ‘‘کامل ایمان’’ رکھتا ہے لیکن وہ چیز اُس کے جملہ تصرفات میں کبھی ایک بار بھی ظہور نہیں کرتی۔ اس پر کسی کا غلبہ اور قہر (اکراہ) ہو، تو چلیں اور بات ہے اور وہاں تو آدمی دل کی بات اپنے تصرفات میں ظاہر نہیں ہونے دیتا، مگر یہ شخص پوری طرح آزاد اور خودمختار ہے، لیکن پھر بھی وہ چیز کبھی اپنا اظہار نہیں کرتی…

‘‘ایمان’’ فطرت ہے؛ لہٰذا نفس انسانی کا کسی چیز پر ایمان ہونا خود بھی ایک قید ہے؛ یعنی ایک مومن شخص کا خواہشات کے پیچھے بھاگنے میں ‘‘ایمان’’ باقاعدہ ایک رکاوٹ بھی بنتا ہے۔ پس جہاں ایمان کے راستے میں خواہشات ورغبات ایک قید ہے وہاں خواہشات ورغبات کے راستے میں ایمان ایک قید ہے۔ اور یہاں سے ان دونوں کی کھینچاتانی شروع ہوجاتی ہے جوکہ نفس انسانی کی بابت ایک سچی ترین حقیقت ہے۔ انسانی نفس انہی دو قوتوں کی کشتی کا اکھاڑا بنتا ہے؛ گو ہر نفس کی صورتحال اس معاملہ میں دوسرے سے مختلف ہے۔ کہیں کوئی پلڑا بھاری ہے تو کہیں کوئی۔ البتہ مرجئہ ہمیں جو صورتحال فرض کر کے دیتے ہیں، یعنی اعمال اور تصرفات میں ایمان والا پلڑا صفر ہو پھر بھی انکی تعریف کی رُو سے اس کا نام ‘ایمان’ ہے، عجیب و غریب بات ہے۔ یعنی ایمان کا ہونا نہ ہونا ‘‘عمل’’ کے حق میں ایک برابر ہو

’’ دین’’ جس کو انسان شعوری انداز میں اختیار کرتا ہے بذاتِ خود ایک قید ہے، جوکہ خواہشات کے اُس دائرے کو جو مباح ہے مقید کرتا ہے اور ان کی رفتار کو ایک کنٹرول میں لاتا ہے۔

فرمانِ خداوندی ہے:

یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو (سورة البقرة 229 )

یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کے قریب مت پھٹکو (سورة البقرة 187)

خواہشات تو نفس کے لیے یقینا مزین کی گئی ہیں: ‘‘مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لئے مزین کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے’’ (آل عمران 14 )۔

لیکن ایمان بھی ایسی غیر حسین حقیقت تو نہیں جس کا پلڑا کبھی بھی ان پر بھاری نہ پڑے! (‘‘اور لوٹنے کا عمدہ ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے’’) ( آل عمران 14)

یعنی ‘‘ایمان’’ وہ مہار ہے جو خواہشات کو حد میں لاتی ہے۔

یہ ‘‘قیود’’ انسان کی زندگی میں دہرا کردار ادا کرتی ہیں:

1- یہ ان ‘‘مرغوبات’’ کی مناسب مقدار کا تعین کرتی ہیں جن کو اس کی خواہشات بے تحاشا لینا چاہتی ہیں؛ جس سے نفس کی توانائی ساری کی ساری شہوتی عمل کی نذر نہیں ہوتی۔

2- پھر اس توانائی کو یہ ایک ایسے عمل میں صرف کرواتی ہیں جسے ہم اپنی زبان میں ‘‘اقدار’’ کہتے ہیں اور جس کے دم سے یہ اشرف المخلوقات ہے، اور جوکہ دراصل وہ ‘‘امانت’’ ہے جس کے باعث یہ حیوانات سے ممیز ہے۔

اِس طریقے سے؛ ایک جانب ‘‘محرکات’’ آجاتے ہیں اور ایک جانب ‘‘ضوابط’’؛ اور انسان کی زندگی کو ایک توازن مل جاتا ہے؛ جس سے اس کے وجود کی غایت پوری ہونے لگتی ہے جس کو ہم حالت کے اعتبار سے احسنِ تقویم کہتے ہیں اور غایت کے اعتبار سے خلافت یا امانت۔

ہاں یہ سچ ہے کہ یہ توازن ہر وقت، ہر حالت میں، اور بدرجۂ اتم قائم نہیں رہتا؛ اس میں اونچ نیچ مسلسل رہتی ہے؛ اور ہر کیس دوسرے سے مختلف ہوتا ہے

یاددہانی کے طور پر، ہم اس آیت یا آیات کا ایک بار پھر ذکر کرتے چلیں جن میں اس امت کے برپا ہونے کی غایت بیان ہوئی:

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ( آل عمران 110)

اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ وسط بنایا ہے، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخرالزماں) تم پر گواہ بنیں۔ (سورة البقرة 143 )

اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام "مسلم" رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ وہ ہے تمہارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار(سورة الحج 78 )

‘‘تصدیق’’ اور ‘‘اقرار’’ ہوگیا، مگر… مذکورہ غایتوں میں سے کونسا کام پورا ہوا؟

آج آپ دیکھ سکتے ہیں کس طرح دنیا بھر کی قومیں اِس خس وخاشاک(آپﷺ نے فرمایا: نہیں، تم اُس روز تعداد میں بہت زیادہ ہوگے، مگر تم وہ خس وخاشاک ہوگے جو سیلاب کی سطح پر ابھر آتا ہے)پر ٹوٹ پڑی ہیں جو صرف ‘‘تصدیق اور اقرار’’ پر قانع ہے اور اس کو ‘‘ایمان’’ سمجھتا ہے!!

رہ گیا وہ مسلم معاشرہ جس میں خدا کی شریعت راج کرتی ہے، تو خدا کی نافرمانی کے افعال وہاں بھی ہوجاتے ہیں، لیکن دوکام تو کبھی بھی، کسی بھی صورت، کسی بھی شخص کے حق میں موقوف نہیں ہوتے۔ ‘‘مسلمان’’ تسلیم ہونے کے لیے دو کام تو وہاں ہر شخص کرے گا خواہ درپردہ منافق کیوں نہ ہو، اس کا باقی حساب اللہ کے ذمے۔ ایک، دن میں پانچ بار خدا کے آگے سجدہ ریز ہونا۔ دوسرا، خدا کی شریعت کی طرف تحاکم کرنا(۱۳)۔ یہ دو باتیں تیرہ سو سال تک مسلم معاشرے کے بدیہیات میں شامل رہی ہیں؛ مسلمانوں میں خواہ کتنا ہی انحراف کیوں نہ درآیا ہو اِن دو چیزوں کے بغیر مسلمان ہونے کا تصور نہیں تھا۔ ان دو چیزوں کو علی الاعلان ترک کر رکھنا اور پھر بھی ‘مسلمان’ کہلانے کا پورا پورا حق رکھنا، یہ رجحان اِس آخری صدی میں ہی پروان چڑھا ہے۔ ‘مسلمان’ کی یہ قسم اِس بڑی سطح پر آج ہی دریافت ہوئی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں