رازِ نمازِ محبت

Image result for ‫نماز‬‎
 رازِ نمازِ محبت
حیا ایشم

نماز اللہ کا حکم ہے اور حکم، پناہِ محبت ہے!
نماز اللہ کی چاہ ہے اور اللہ کی چاہ افضل ہوتی ہے
نماز عطا ہے، اور اس میں نفس کی آزمائش ہے!

فرض میں نفس کی کشمکش آزمائش بن کر آتی ہے، مگر اسی کشمکش میں نفس کی قربانی، اللہ کو خود سپردگی آسانی عطا کرتی ہے الحمدللہ!
واقعی ہم حقیقی معنوں میں نماز کا کیف نہیں پا سکتے اگر ہم عالم غفلت میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ اللہ پاک کی باتیں ، اللہ پاک کے احکام بہت گہرے مفاہیم لیئے ہوتے ہیں

القرآن، سورۃ الواقعہ میں اللہ پاک نے فرمایا: نہیں چھوتے اسے (قرآن) مگر وہی جو پاک ہیں!
اب دیکھا جائے تو کوئی ناپاکی کے عالم میں بھی قرآن کو چھو ہی لیتا ہے، بظاہر حکم ہے کہ پاک ہو کر ہاتھ لگاؤ، مگر باطنی مفہوم میں سمجھا جائے تو جیسے اللہ پاک نے قرآن کا راز دل کی، روح کی پاکیزگی میں لازم و ملزوم کر دیا ہے، کہ اس کے رمز کو وہی چھو سکتے ہیں جو پاک (جن کے دل پاک) ہیں، کہ تمہاری سکت ہی نہیں کہ تمہارے دل پاکیزہ نہیں اور تم قرآن کا رمز پا جاؤ۔

ایک طرف اللہ پاک نے فرمایا کہ تم نشے (غفلت کے عالم) میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ! نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو" سورۃ النسآ 43۔ 
ایک شخص نے بتایا کہ وہ چرس پی کر نماز پڑھتا ہے تو اللہ سے اس کا الگ ہی کنکشن بنتا ہے، اس لیئے وہ ہمیشہ چرس پی کر نماز پڑھتا ہے، استغفراللہ! یقینا یہ اس پر شیطان کا ایسا پردہ ہے کہ اس کی عقل یہ تک فراموش کر گئی ہے کہ اللہ پاک نے نشہ آور اشیا سے منع فرمایا ہے، کجا کے نشہ کر کے نماز پڑھنا۔ اب بظاہر تو وہ نماز سکون کے لیے پڑھ رہا ہے، مگر کیا وہ ایسے نماز پڑھ کر سچا سکون پائے رکھے گا؟ یقیناً نہیں، کہ وہ نفس کے سراب میں شیطان کی پکار کو لبیک کہتا گمراہی کی جانب گامزن ہے، اسکا نفس اور شاطان آپس کی سازبازی سے اس کو اسکے اعمال خوشنما کر کے دکھا رہے ہیں، اللہ پاک ہدایت عطا فرما دیں اور نماز کی ہی خواہش کے لیئے اس پر اور ہم سب پر رحم کر دے اللھم آمین۔

اب اسی آیت کے دوسرے حصے میں اللہ پاک فرماتے ہیں " نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو" سورۃ النسآ 43۔ 

کیا ہم واقعی جانتے ہیں ہم کیا پڑھ رہے ہیں؟ شراب چرس ہیروئین، گردہ، کوکین، یا دیگر نشہ آور اشیا کی بات نہیں۔ ایک نشہ نفس کا بھی ہوتا ہے ۔۔ "میں" کا بھی اپنا ہی نشہ ہوتا ہے جو انسان کو اللہ کے حضور، یہاں تک کے اللہ کے ہونے کے احساس سے، اس کے حکم اسکی حد کے احساس سے غافل کر دیتا ہے، سو یہاں نفس کا نشہ اسکی غفلت کی بات ہے۔ عالم غفلت میں نماز پڑھنا، جیسے بس ہاتھ کے اشارے ادا کرنا اور زبان سے ایک رٹی رٹائی یادداشت دوہرانا۔۔ جس نماز میں دھیان نہیں اس نماز میں ایمان کیسے بڑھے گا۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی سخت امر درپیش ہوتا وہ نماز اور صبر کے ذریعے اللہ پاک کی مدد لیتے، نماز کی طرف متوجہ ہوتے، اور ایسا ہی کرنے کی وہ اہنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی تلقین کرتے۔ وہ خالص نماز تھی سچی نماز۔ یہ وہ نماز تھی جس میں وہ جانتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں کسے کہہ رہے ہیں کیوں کہہ رہے ہیں، نماز تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا تحفہ تھا امت کے لیے ان کے گناہوں کو مٹانے کا سبب، رب سے معراج کا ذریعہ، ہماری پریشانیوں کی آسانی، ہماری روح جسم و دل کی کثافت کی لطافت، نماز ایک عملی دعا ایک عملی شکر ہے، ہمارے نفوس پر ظلم اس کی ناشکری و جلد بازی نے اس کرم کو کو ہم پر ایک بوچھ بنا دیا ہے جس کو ہم ادا کر کے جان چھڑانا اور خود کو نمازی کہلوانا چاہتے ہیں استغفراللہ!

ایاک نعبد وایاک نستعین پڑھتے احساس ہوتا ہے؟ ہم کیا پڑھ رہے ہیں؟ ہم کہہ رہے ہیں اللہ ہم تیرے ہیں، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ مگر کیا واقعی ہم جانتے ہیں ہم یہ کہہ رہے ہیں؟ ہم اقرارِ محبت کر رہے ہیں، عہد وفا دوہرا رہے ہیں؟ اور جو کہہ رہے ہیں ہم یہ روح کی کس سچائی اور گہرائی سے کہہ رہے ہیں؟
منافقت یہی ہوتی ہے کہنا کچھ کرنا کچھ، اور ہم تو نادانی میں اپنے نفس کے جالوں میں ایسے غافل ہیں کہ یہ تک نہیں جانتے ہم کیا کر رہے ہیں استغفراللہ!

کیا ہمیں یاد ہے کہ جو کل ہم نے نماز پڑھی اس میں کون سی سوچ تھی جو مسلسل ہمیں گھیرے میں لیئے ہوئے تھی؟ یا آج سے ایک ہفتے پہلے یا ایک ماہ پہلے یا ایک سال پہلے نماز پڑھتے ہوئے کون سی سوچ تھی۔۔ یقینا نہیں۔۔! ہاں مگر وہ نماز کہیں اللہ کے پاس درج ہے، ہماری روح کی لطافت یا کثافت کی پیمائش میں اسکا اثر محفوظ ہے! کہ اس کی جیسی بھی سہی، خاصیت نے ہماری روح پر اثر کیا!

تو زندگی کے معاملات، مسائل، ان سے متعلقہ سوچیں عام طور پر ہمارے ذہن میں چلتے رہتے ہیں، مگر اگر سوچا جائے تو جب ہم اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ اٹھاتے ہیں تو اسکا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے، میں جس کے حضور اپنی نیت اپنے عمل اپنی سوچ، اپنی زبان سے، دل جسم جان روح سے حاضر ہوں، وہ سب سے بڑا ہے میری سوچ سے، میری بات سے، میرے مسلے سے، یا کسی بھی شے سے وہ اکبر ہے!

نماز متقی کی قربانی ہے، اور قربانی میں اللہ کا قرب ہے، کیا ہم اپنی نمازوں میں اللہ کا قرب محسوس کرتے ہیں؟ نماز دل جسم روح ، نیت و عمل کی ہم آہنگی ہے، مگر اکثر ہم نماز کو فقط رٹے رٹائے انداز میں پڑھتے ہیں ۔۔ الحمدللہ اللہ کے حضور حاضر ہونے کا احساس تو بہت بڑی عطا ہے، اگر آغاز میں ہمیں نماز کے مفہوم و مطالب کی ہی صحیح آگاہی ہو جائے تو ان شاء اللہ اللہ کے فضل سے کوئی سوچ ہم پر غلبہ نہ پا سکے۔ ہم عموما غفلت کے عالم، نفس کو تسلی دینے کے لیے، نماز سر سے اتارنے کے لیے نماز پڑھتے ہیں، تو پھر کیسے نماز کے نام پر ہمارا یہ عمل ہمیں بے حیائی سے روکے، کیسے ہم غیبت اور دیگر گناہ سے محفوظ اللہ کی پناہ میں آ جائیں، کیسے ہمارا دل پریشانیوں میں آسانیوں کا رمز پائے؟ کیسے ہماری نماز ہماری رب سے معراج کا سبب بنے، کیسے ہمارا دل سکون پائے؟ کیسے نماز ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے کہ سچی نماز اللہ کا حکم ہے، اور حکم پناہِ محبت ہوتی ہے!

اللہ پاک ہم پر رازِ نمازِ محبت آشکار کر دے، ہمیں اپنی ذاتِ رحیمی کے لیئے نماز ادا کرنے، ہمیں اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے، نماز قائم کرنے کی توفیق عطا فرما دے اللھم آمین!



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں