مسلمان کی بنیادی اخلاقی قدر: احسان
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
12 جمادی اولی 1440 بمطابق 18 جنوری 2019
امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 12 جمادی اولی 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "مسلمان کی بنیادی اخلاقی قدر: احسان" ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ اسلام کی خوبی ہے کہ اسلام میں احسان کو بنیادی اخلاقی قدر قرار دیا گیا ہے، اور ہر چیز کے ساتھ احسان برتنے کی تلقین اور تاکید کی گئی ہے، چنانچہ احادیث میں پڑوسی، مہمان اور ہمہ قسم کے حیوانات سے بھی احسان کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پھر محسنین کے لئے قرآن مجید میں خصوصی اجر و ثواب ہے کہ محسنین کو اللہ تعالی کی معیت، نصرت اور محبت حاصل ہوتی ہے۔ خلقت پر احسان کرنے سے نعمتیں ملتی ہیں اور زحمتیں ٹلتی ہیں۔ دولت مند افراد پر احسان کرنا مزید ضروری ہو جاتا ہے۔ احسان کے حقدار افراد میں والدین کا سب سے پہلا مقام ہے۔ نیز احسان یہ ہے کہ آپ کسی کا کوئی بھی بھلا کر دیں یہ احسان میں شمار ہوتا ہے۔ آخر میں انہوں نے سب کے لئے جامع دعا کروائی۔
⟲منتخب اقتباس⟳
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، وہ فضل و احسان فرمانے والا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ بادشاہ اور بدلہ دینے والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ قرآنی اخلاق کا مرقع ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام متقی و مومن صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرما۔
اسلامی بھائیو!
دین اسلام کے قطعی اصولوں میں موجود عظیم خوبیوں میں یہ بھی شامل ہے کہ لوگوں کو تمام تر صورتوں اور شکلوں میں احسان کرنے کی ترغیب دی جائے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى}
بے شک اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قریبی رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے۔[النحل: 90] ایسے ہی ایک اور مقام پر فرمایا:
{وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا}
اور لوگوں کو اچھی بات کہو۔[البقرة: 83]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ: (اللہ تعالی اور آخرت پر ایمان رکھنے والے کو چاہیے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرے۔ اللہ تعالی اور آخرت پر ایمان رکھنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔) متفق علیہ
بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عظیم اخلاقی قدر کی تاکیدی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: (قراراللہ تعالی نے احسان ہر چیز پر لازمی دے دیا ہے) مسلم، اس حدیث کے تحت شارحین کا کہنا ہے کہ: (مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کے ساتھ احسان کرنا ضروری ہے، تو احسان کا دائرہ عام اور ہر چیز کو شامل ہے)
مسلم اقوام!
حصول ِ رحمت کی کنجی یہ ہے کہ خالق کائنات کی بندگی میں عمدگی ہو اور خلقت کی بھلائی کا جذبہ ہو، اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ}
بیشک اللہ کی رحمت محسنین کے قریب ہے۔[الأعراف: 56]
مسلمان کی کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے معاملات میں عملی اور زبانی ہر طرح سے احسان کرتا رہے، اس کی بدولت وہ عظیم فوائد ، اور اچھا پھل پاتا ہے؛ چنانچہ محسن شخص کو اللہ تعالی کی خصوصی معیت حاصل ہوتی ہے، اور اس معیت کا تقاضا ہے کہ محسن شخص کو اللہ تعالی کی جانب سے تحفظ اور حمایت حاصل ہو، اللہ تعالی کی توفیق اور رہنمائی ملے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ}
بیشک اللہ تعالی ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی ہیں اور جو محسنین ہیں۔ [النحل: 128]
احسان کرنے سے دلوں میں مسرت اور سینوں میں وسعت پیدا ہوتی ہے، نعمتیں ملتی ہیں اور زحمتیں ٹلتی ہیں۔ جس کسی معاشرے میں احسان عام ہو تو اس کی جڑیں بہت مضبوط ہو جاتی ہیں اور سماجی بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے، ایسا معاشرہ تہذیب اور ترقی یافتہ بن جاتا ہے، وہ معاشرہ قلبی میل کچیل اور کدورتوں سے پاک ہو جاتا ہے، ایسا معاشرہ فتنوں کی آگ سے محفوظ نیز لڑائی جھگڑوں کے اسباب سے دور بھی ہو جاتا ہے؛ اسی لیے اللہ تعالی کی طرف سے لوگوں کو تعلیمات دی گئیں کہ وہ اپنی زندگی بھر کے لین دین اور تعاملات میں احسان پیدا کریں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ}
آپ برائی کو احسن ترین طریقے سے ٹال دیں، تو [آپ دیکھیں گے کہ] آپ اور جس آدمی کے درمیان عداوت ہے، وہ بھی آپ کا گہرا دوست بن جائے گا۔ [فصلت: 34]
مسلم اقوام!
جود و سخا کے ذریعے احسان ایسے لوگوں کے لئے مزید ضروری ہے جو منصب اور اختیارات کے مالک ہیں، جن کے پاس دولت اور ثروت موجود ہے۔ اس لیے جسے اللہ تعالی نے نوازا ہے اسے چاہیے کہ وہ مہربانی اور نوازش کرتا رہے۔
احسان اپنے اندر انتہائی اعلی مفہوم رکھتا ہے، اے مسلمان! اس اعلی مفہوم کا تقاضا ہے کہ تم دوسروں سے بہترین کردار اور گفتار کے ساتھ تعامل کرو۔
یہ احسان کا ہی حصہ ہے کہ آپ کسی کے ساتھ نیکی کر دیں، یا کسی کی مالی معاونت کر دیں، یا کسی کا بھلا کر دیں، یا اچھے بول بول دیں، خندہ پیشانی سے ملیں، کشادہ دلی سے ملاقات کریں ، ہشاش بشاش چہرے سے ملیں اور سلام عام کریں۔
احسان: نہ تھمنے والی عنایت، مہمان کی ضیافت، سچی اشک شوئی، اور حاجت روائی کا نام ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا}
وہ خود کھانے کی چاہت کے باوجود مسکین، یتیم اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔[الإنسان: 8] ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ}
اور اپنے آپ پر [دوسروں کو] ترجیح دیتے ہیں، خواہ انہیں سخت حاجت ہو [الحشر: 9]
اللہ کے بندو!
احسان یہ ہے کہ: آپ مسلمانوں کو خوش کریں، کسی کا بھلا کریں، غریب کو نوازیں، مظلوم کی مدد کریں، مصیبت زدہ کو بچائیں، آفت زدہ کی اعانت کریں، بیمار کی تیمار داری کریں، بھوکے افراد کو کھلائیں، اسی طرح ہر ایسا کام احسان ہے جو لوگوں کو مسرت، فرحت، خوشی اور تازگی سے معمور کر دے۔
امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مومن کی دنیاوی مشکلات میں سے کوئی ایک مشکل دور کرنے والے سے اللہ تعالی قیامت کی مشکلات میں سے ایک مشکل دور کر دے گا۔ کسی تنگ دست پر آسانی کرنے والے پر اللہ تعالی دنیا و آخرت میں آسانی فرما دیتا ہے۔ مسلمان کی پردہ پوشی کرنے والے کی اللہ تعالی دنیا اور آخرت میں بھی پردہ پوشی فرماتا ہے، اللہ تعالی اس وقت تک بندے کی معاونت فرماتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔)
اسلام میں احسان کا تصور محض انسانوں تک ہی محصور نہیں ہے، بلکہ ہر حیوان بھی احسان کے سائے تلے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (ایک شخص جا رہا تھا کہ اس کو سخت پیاس لگی تو وہ ایک کنویں میں اترا اور وہاں سے اس نے پانی پی لیا۔ جب وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپتے ہوئے گیلی مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اسے بھی شدتِ پیاس سے اتنی ہی اذیت ہے جتنی مجھے تھی۔ وہ دوبارہ کنویں میں اترا اور اپنا موزہ پانی سے بھر کر اسے منہ میں لے کر اوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلا دیا۔ اللہ تعالی نے اس کی قدرکرتے ہوئے اس کو معاف کر دیا۔) صحابہ نے [تعجب سے] پوچھا: "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہمیں جانوروں کی خدمت کرنے میں بھی اجر ملے گا؟" آپ نے فرمایا: (ہر زندہ جگر رکھنے والے جاندار کی خدمت میں اجر ہے۔) بخاری ، مسلم
یا اللہ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی بھلائی سے نواز اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! مسلمانوں پر ایسی رحمت نازل فرما کہ ان کے حالات ہی بدل جائیں ، یا ذالجلال والا کرام!
یا اللہ! ہمارے نبی جناب محمد ﷺ پر دردو و سلام نازل فرما، نیز آپ کی آل اور صحابہ کرام پر بھی درود و سلام نازل فرما۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں