کامیابی کا تین نکاتی نبوی نسخہ
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
05 جمادی الاولی 1440 بمطابق 11 جنوری 2019
امام و خطیب: ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 05 جمادی الاولی 1440 کا خطبہ جمعہ " کامیابی کا تین نکاتی نبوی نسخہ" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ زندگی میں کامیابی ہر انسان کی اولین چاہت ہے اور اسی کے لئے کوشش بھی کرتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی حدیث میں کامیابی کے تین نکات بتلا دئیے ہیں کہ 1) صرف مفید سرگرمیوں اور کاموں پر توجہ دو، 2) اللہ سے مدد طلب کرتے رہو 3) اور سستی مت دکھاؤ، پھر اپنے خطبے میں تین نکات کی تفصیلات اور وضاحت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ حدیث سستی ، کاہلی سے ہٹ کر ملک و قوم کے لئے کچھ مثبت کر دکھانے کی ترغیب دلاتی ہے، یہ حدیث ہماری کامیابی کے لئے مشعل راہ اور سرِ راہ ہے، ان پر عمل کرنے سے کامیابی ہماری قدم بوسی کرے گی اور اگر ان میں سے کسی ایک میں بھی کمی ہوئی تو اسی مقدار میں ناکامی ہمارے حصے میں آئے گی، پھر آخر میں انہوں نے سب کے لئے جامع دعا کروائی ۔
↺ منتخب اقتباس ↻
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ اس نے تمہاری شرح صدر فرمائی، تمہیں تمہارے لیے مفید امور بتلائے، اگر آپ اس کا شکر ادا کرو گے تو وہ قدر دان ذات آپ کی تکریم بھی کرے گی اور تمہیں مزید بھی نوازے گی، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہ سمیع اور بصیر ہے وہ تمہیں دیکھ بھی رہا ہے اور تمہاری باتیں سنتا بھی ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اگر آپ ان کی اقتدا کریں گے تو عظمت والی ذات آپ کو بھی عظمت عطا کرے گی۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے اگر آپ ان کی راہ کے راہی بن گئے تو قوت والی ذات تمہیں قوت عطا کرے گی اور تمہیں کبھی رسوا نہیں ہونے دے گی۔
زندگی میں کامیابی ہر انسان کا ہدف ہے، خوشحالی انسان کا مقصود اور مراد ہے، انہی دونوں چیزوں کے لئے دل و جان کد وکاوش میں لگے رہتے ہیں؛ لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے دنیاوی اور اخروی کامیابی اور خوشحالی کے لئے تین نکاتی راہ عمل وضع فرمایا، اس حدیث میں عظیم فوائد اور ڈھیروں خیر و بھلائیاں ہیں، آپ کا وہ فرمان یہ ہے: (اپنے لیے مفید چیز پر مکمل توجہ دو، اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور سستی مت دکھاؤ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : (اپنے لیے مفید چیز پر مکمل توجہ دو)کا مطلب یہ ہے کہ بلند اہداف ، اعلی اخلاقیات اور افضل ترین عبادات کے لئے بھر پور کوشش کریں۔ اپنی زندگی کا ایک ہدف مقرر کریں، عمر بھر کا کوئی مقصد بنائیں، آگے بڑھنے کے لئے بلند مقام مقرر کریں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ}
بھلا اپنے منہ کے بل اوندھا چلنے والا زیادہ ہدایت یافتہ ہے، یا وہ جو سیدھا ہو کر صراط مستقیم پر چلے؟![الملك: 22]
(اپنے لیے مفید چیز پر مکمل توجہ دو)کیونکہ زندگی بہت مختصر ہے، جوانی کا پیچھا بڑھاپا کر رہا ہے، صحت کو بیماری کے خدشات لاحق ہے، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : "مجھے اس دن سے بڑھ کر کسی چیز پر ندامت نہیں ہوتی کہ جس دن کا سورج غروب ہو جانے سے میری عمر تو کم ہو جائے لیکن میرا عمل نہ بڑھے" اسی کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ وَأَنَّى لَهُ الذِّكْرَى (23) يَقُولُ يَالَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي}
اس دن انسان کو سمجھ آئے گی مگر اس وقت اس کے سمجھنے کا کیا فائدہ؟ [23] وہ کہے گا کہ کاش میں نے اس زندگی کے لیے کوئی پیشگی تیاری کی ہوتی۔[الفجر: 23، 24]
مفید چیزوں پر مکمل توجہ دینے والا شخص ہمیشہ اچھے کاموں اور حسن کارکردگی میں مگن رہتا ہے، وہ ہمیشہ ایسے عمل کرتا ہے جن کا اجر بھی بہترین ہو اور اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین بھی ہوں؛ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اعلی اور افضل ترین اعمال کے متعلق پوچھا کرتے تھے، جیسے کہ :
ایک شخص نے کہا: "اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہارا دل اللہ عزوجل کا مطیع ہو اور تمام مسلمان تمہاری زبان اور ہاتھ سے سلامت رہیں)
اس آدمی نے کہا: "تو اسلام کا کون سا عمل افضل ترین ہے؟"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایمان)
اس نے کہا: "تو ایمان کیا ہے؟"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اللہ تعالی پر، اللہ کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر یقین رکھو)
اس نے کہا: "ایمان کا کون سا عمل افضل ترین ہے؟"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہجرت)
اس نے کہا: "ہجرت کیا ہے؟"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم گناہوں کو ترک کر دو)۔
سمجھ دار مسلمان جو مفید چیزوں پر توجہ دینا چاہتا ہے وہ اپنے آپ سے آغاز کرتا ہے، اپنی اصلاح کرتا ہے، غیر متعلقہ امور اس کے لئے کبھی بھی مفید ثابت نہیں ہوتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لا یعنی باتوں سے دور رہے) ابن ماجہ، لہذا جو شخص لا یعنی باتوں کو چھوڑ کر مفید کاموں میں توجہ دے تو اس سے اس کی دینداری میں حسن پیدا ہو گا، ترجیحی کاموں کے لئے وقت نکالے گا، اپنے کردار سے بلندی کے زینے چڑھتا جائے گا، اس کا دل، اخلاق اور زبان صاف ہو جائے گی، بلکہ وہ اپنی کڑی نگرانی کرے گا، اپنے چال چلن پر پہرہ دے گا، اپنے ساتھ مکمل سچائی اور انصاف والا تعامل کرے گا، اسی لیے سیدنا شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو فرمایا تھا:
{وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ}
میں نہیں چاہتا کہ جس بات سے میں تمہیں منع کرتا ہوں خود اسی کو کرنے لگوں۔ میں تو جہاں تک ہوسکے اصلاح ہی چاہتا ہوں۔ اور مجھے اللہ تعالی سے ہی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ میں اسی پر بھروسا کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ [هود: 88]
مفید امور پر توجہ کے لئے آرزوؤں اور من پسند امور سے نمٹنے کے لئے سختی کرنی پڑتی ہے؛ کیونکہ ہر پسندیدہ چیز مفید نہیں ہوتی اور ہر ناپسندیدہ چیز نقصان دہ نہیں ہوتی، اس لیے عقلمند انسان زیادہ لیکن دیر سے ملنے والے فائدے کو تھوڑے فوری فائدے پر ترجیح دیتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ(20) وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ}
ہر گز نہیں، بلکہ تم جلد وصول ہونے والی چیز کو پسند کرتے ہو [20] اور تاخیر سے ملنے والی چیز کو چھوڑ دیتے ہو۔ [القيامة: 20، 21]
مفید چیزوں پر توجہ دینے کی وجہ سے لازم آتا ہے کہ مفید افراد کی صحبت اختیار کریں؛ کیونکہ ہر کوئی راہِ یار کا راہی ہوتا ہے۔ بلید ساتھیوں اور تاروں پر کمندیں ڈالنے والے یاروں میں بہت فرق ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (انسان اپنے دوست کے دین پر چلتا ہے، اس لیے تم دیکھ لو کہ کس کو اپنا دوست بنا رہے ہو ) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: (نیک اور برے دوست کی مثال کستوری بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے ؛ کستوری بیچنے والا خوشبو میں سے تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا ( کم از کم ) تم اس کی عمدہ خو شبو سے محظوظ ہوتے رہو گے اور بھٹی دھونکنے والا تمہارے کپڑے جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بد بو آتی رہے گی۔) بخاری، مسلم
اگر مسلمان کے سامنے متعدد مفید امور آ جائیں تو پھر مسلمان تردد کرنے کی بجائے سرگرمِ عمل ہو جائے؛ کیونکہ ہر کسی کو اسی کام کی توفیق ملے گی جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے، ایسی صورت میں شرعی رہنمائی یہ ہے کہ ہر انسان وہ کام کرے جس کی اس میں استطاعت ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ}
جس قدر استطاعت ہو تقوی الہی اپناؤ۔ [التغابن: 16]
مزید برآں انسان جتنی مرضی مفید امور کے لئے توجہ کر لے لیکن اس کے اہداف اور مقاصد اسی وقت پورے ہوں گے جب اللہ تعالی کی مدد، توفیق، اور اعانت شامل حال ہو گی، اسی لیے فرمایا: (اپنے لیے مفید چیز پر مکمل توجہ دو اور اللہ سے مدد طلب کرتے رہو) تو اللہ سبحانہ و تعالی ہی وہ ذات ہے جس کی بارگاہ میں تمام تر مخلوقات اختیاری اور مجبوری ہر حالت میں گڑگڑاتی ہیں، تو ہر ایک جاندار مخلوق تنگی ،فراخی، خوشی اور غمی میں اسی سے مدد طلب کرتی ہے، ہر انسان کو اللہ تعالی کی مدد کی دائمی ضرورت ہے، انسان اپنی ہر حالت میں اور دینی یا دنیاوی ہر ضرورت میں اسی کا محتاج ہے۔
اس لیے اللہ تعالی سے مدد طلبی، اور رضائے الہی کے لئے اللہ سے معاونت کی دعا؛ مفید ترین دعاؤں میں شامل ہے، مومنوں کی زبانیں اللہ تعالی سے یہی سب سے زیادہ مانگتی ہیں؛ چنانچہ کسی بھی نماز کی کوئی بھی رکعت اس دعا کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی؛
{إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ}
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔[الفاتحۃ: 5]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ: (معاذ! میں تمہیں تاکیدی وصیت کرتا ہوں ہر نماز کے بعد یہ دعا کرنا کبھی بھی مت چھوڑنا: "اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبادَتِكَ" [یا اللہ! تیرے ذکر، شکر اور بہترین انداز میں تیری عبادت پر میری مدد فرما]) ابو داود
(اپنے لیے مفید چیز پر مکمل توجہ دو، اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور سستی مت دکھاؤ) یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : (سستی مت دکھاؤ) میدان عمل میں جد و جہد اور کد و کاوش کو مہمیز دینے والا پیغام ہے، یہ پیغام زمین کی تعمیر و ترقی کی راہ میں مشکلات سے ٹکرانے اور چیلنجز سے نمٹنے کی ترغیب دیتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{هُوَ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا}
اللہ نے تمہیں زمین سے پیدا کر کے تم سے اس کی آبادکاری کا مطالبہ کیا ہے۔[هود: 61]
حدیث میں : (سستی مت دکھاؤ) اس لیے فرمایا کہ کاہل آدمی اپنے آپ کو سستی کا قیدی بنا لیتا ہے، اپنے پاؤں میں وہموں کی بیڑیاں ڈال لیتا ہے، اپنی سوچ اور خیالات آرزوؤں کے سپرد کر دیتا ہے۔
اظہار ناتوانی شیطانی عمل کا آغاز ہے۔ یہ کہنا کہ "کاش ایسے ایسے ہوتا" یا کہنا کہ: "کاش میں یوں کر لیتا" یہ خرابی کی کنجی ہے۔ اس طرح کہنے سے دل میں پریشانی، دکھ، بزدلی، بخیلی ، قرضوں کا بوجھ اور لوگوں کا دبدبہ بڑھتا ہے، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں شامل تھا: ( "اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ"
[یا اللہ ! میں پریشانی، دکھ، عاجزی ، سستی ، بخیلی ، بزدلی ، قرضوں کے بوجھ اور لوگوں کے دبدبے سے تیری پناہ مانگتا ہوں]) بخاری
سست اور کاہل لوگوں کے ساتھ بیٹھنے والے کی معاشرے میں کوئی قدر و قیمت نہیں، نہ ہی ملکی ترقی میں ان کا کوئی کردار ہوتا ہے، پوری قوم میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے والا انسان؛ انسانیت سے خارج ہو جاتا ہے۔ سستی کی عادت بنانے والا اور ہمیشہ آرام کرنے والا در حقیقت آرام گنوا دیتا ہے۔
یہ بہت عظیم حدیث ہے، اس حدیث میں انتہائی اختصار کے ساتھ کامیابی کے اقدامات یکجا بیان ہوئے ہیں، لہذا مفید امور پر مکمل توجہ دیتے ہوئے جد و جہد کرنے والا اور اسباب اپنانے والا شخص کامیابی اور تکمیل کے لئے اللہ تعالی دعائیں بھی کرے تو کامرانی اس کی قدم بوسی کرتی ہے، اور اگر ان تینوں امور میں سے کوئی ایک بھی چوک جائے تو اتنی ہی خیر و بھلائی بھی چوک جاتی ہے۔ (اپنے لیے مفید چیز پر مکمل توجہ دو، اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور سستی مت دکھاؤ)
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے قول و فعل کی توفیق مانگتے ہیں، یا اللہ! ہم تجھ سے جہنم کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔
یا اللہ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی بھلائی مانگتے ہیں چاہے کوئی جلدی ملنے والی یا دیر سے، یا اللہ ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی برائی سے پناہ مانگتے ہیں چاہے وہ جلد آنے والی ہے یا دیر سے ۔
یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے۔ یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے۔ اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، نیز ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر میں اضافے کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم پر تیری برکتوں، رحمتوں ، فضل اور رزق کے دروازے کھول دے۔
{رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ}
ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے [الأعراف: 23]
{رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ} [الحشر: 10]
اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے، اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے[الحشر: 10]
{رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرة: 201]
ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201]
{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]
تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے بخوبی واقف ہے۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں