تدبرِ قرآن۔۔ سورہ الرحمٰن ۔۔۔ حصہ دوم

سورہ الرحمٰن
تفسیر و تدبر
نعمان علی خان
حصہ دوم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الرَّحْمَنُ....... خَلَقَ الْإِنْسَانَ
یہ رحمان ہے اس نے انسان کو پیدا کیا. یہ آیت اس جگہ غیر معمولی ترتیب سے رکھی گئی ہے. ہم اللہ سے جس ترتیب کی توقع کر رہے تھے وہ یہ تھی. "کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور پھر اسے قرآن سکھایا."
یہ موجودہ ترتیب بھلا کس طرح کی ہے؟

یہاں پر دو باتیں ہیں.. "حیات" اور "مقصد حیات".. جہاں تک اللہ کا تعلق ہے تو اللہ کے نزدیک آپ کی *زندگی* سے، آپ کا *مقصد زندگی* زیادہ اہم ہے. اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ کی *تخلیق* سے آپ کی *وجہء تخلیق* زیادہ اہم ہے۔ 

اللہ تعالٰی یہاں اس دستاویز کا ذکر کر رہے ہیں. جس سے آپ کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ انسان کا پہلے ایک *مقصد*اور پھر *وجود* (ہستی) ہے. اللہ تعالٰی نے پہلے مقصد کا ذکر کیا ہے. دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تخلیق کیا جاتا اور وہ قرآن کو نہ جانتا ہوتا تو اس شخص کی زندگی بے مقصد ہوتی اور وہ ایک بے معنی زندگی گزارتا..
سورۃ یٰسین میں اللہ تعالٰی ان لوگوں کے متعلق بات کرتے ہیں، جنہوں نے اللہ کی تنبیہات سے فائدہ اٹھایا. ایسے لوگ زندگی گزار رہے پیں جبکہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی وارننگ کو نہیں لیا وہ چلتے پھرتے مردہ ہیں۔
■ لفظ 'انسان' بشر کے لیے استعمال ہوتا ہے. لسانی اعتبار سے اس کی بنیادیں دو لفظوں سے ملتی ہیں. ایک خیال یہ ہے کہ شاید یہ لفظ 'نسیا' سے نکلا ہو. جس کا مطلب ہے بھولنا. ویسے انسان ایسی ہی مخلوق ہے جو بھلکڑ اور لا پروا ہے. دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنی تخلیق کے وقت تو اللہ کو جانتے تھے. مگر جب سے اس زمین پر آئے تو اللہ تعالٰی کو بھول گئے. اب ایسا شخص جو بھلکڑ ہو، اس کے لیے بار بار کی یاد دہانی بہت ضروری ہے. قرآن مجید اس سلسلے میں بہت ہی برمحل ہے. کیوں کہ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید کو ایک مسلسل یاد دہانی(ذکر) کروانے والی کتاب کے طور پر بیان کیا ہے۔ جب آپ کہیں بھی لاپرواہی برتتے ہیں تو یہ یاد دہانی کرواتا ہے. قرآن ایک تاکید ہے اور انسان بھولنے والا.. ان دونوں کے درمیان ایک مربوط تعلق ہے.

■ *انسان* کے ماخذ کے طور پر دوسرا لفظ *اناسا* یا *انیسا* ہے. جس کا مطلب دیکھنا ہے. کچھ علماء نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بشر کو شاید اسی لیے انسان کہا جاتا ہے کہ وہ دیکھا جا سکتا ہے جنوں کے برعکس. کیوں کہ جن آنکھ سے دیکھے نہیں جاسکتے. وہ نادیدہ مخلوق ہے.
لفظ انسان کا ماخذ *اُنس* بھی ہو سکتا ہے جس کا مطلب ہمدردی/ محبت /رحم ہے. ابن فارس رحمہ اللہ دلیل دیتے ہیں کہ بشر کو اس لئے انسان کہا جاتا ہے کہ یہ دوسروں پر نرمی، شفقت اور رحم ظاہر کرتا ہے، اس کے ساتھ ہی یہ خود بھی رحمت کا طلبگار ہے.
جانور اپنے طور پر اپنی زندگی گزارتے ہیں. لیکن اگر کبھی انسان ان پر شفقت اور پیار لُٹاتے ہیں، تو جانور بھی جواباً ایسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں. جبکہ وحشی جانور محبت اور شفقت ظاہر کرنے سے قاصر ہیں. 

■ ایک دفعہ پھر قرآن مجید کی طرف آجائیے. اللہ نے انسان کو ان تمام وسائل سے نوازا ہے جن کو بُروئے کار لا کر وہ دوسری مخلوقات سے شفقت و محبت کا رویہ اپناتا ہے. اور انہی کے ذریعے وہ محبت وشفقت کی بہترین قسم سے آشنا ہوتا ہے، یعنی وہ اللہ کی محبت اور محبت کے اصل مفہوم کو بھی پا لیتا ہے.
تنہائی کے شکار لوگ، جن کا کوئی ساتھی، کوئی رفیق نہیں ہوتا، خود کشی تک پہنچ جاتے ہیں. کیوں کہ قید تنہائی ایک بد ترین تشدد ہے.
آپ چونکہ حامل قرآن ہیں. اس لئے اگر آپ اکیلے ہوں تو بھی، درحقیقت آپ تنہا نہیں، کیونکہ آپ کے پاس اللہ کے الفاظ ہیں. ان کی موجودگی میں آپ کبھی بھی تنہا نہیں ہو سکتے۔

الرَّحْمَنُ........ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ
یہ ہے الرحمن. اس نے اس کو سکھایا، مفصل، شستہ، صاف بولنا. 

یہاں اُس کون ہے؟ انسان۔۔۔۔
اس جگہ اللہ 'بیان' کی بات کرتے ہیں، تو کس کے لئے بات ہو رہی ہے؟ اس نے کس کو بولنا سکھایا ہے ؟
جب قرآنی تعلیمات کا ذکر کیا جاتا ہے تو یہ انسان اور جنوں دونوں کیلئے ہیں. مگر جب"بیان" کی بات ہے تو یہ صرف انسان کے لیے ہی مخصوص ہے. اللہ تعالٰی ہمیں یہاں انسان کی عظمت سے رُوشناس کروا رہے ہیں. اللہ تعالٰی نے بے شمار چیزیں پیدا کیں. مثلاً ستارے، سورج، چاند، جانور، دنیائیں، وہ سب کچھ جو ہم جانتے ہیں اور وہ بھی جو ہم نہیں جانتے. اللہ نے انسان کو بھی پیدا کیا اور پھر انسان کو قوت گویائی (بیان کی صلاحیت) سے نوازا. اللہ نے صرف انسان کو بولنا سکھایا. دوسرے لفظوں میں قوت گویائی اللہ کی طرف سے بہت بڑا تحفہ ہے، جس کے ذریعے اللہ نے ہمیں دوسروں پر فوقیت اور عزت دی ہے. اس کے ساتھ ساتھ قوت گویائی اللہ کی رحمت کا عظیم الشان مظاہرہ بھی ہے. 

عربی گرامر کے حوالے سے دیکھیں تو یہ ایک مضمون ہے. *الرحمان* اس کی بہت سے تشریحات ہیں.
آپ میں اور ایک چھوٹے بچے میں کیا فرق ہے؟ جب بچہ دوسروں سے کمیونیکیٹ کی کوشش کرتا ہے تو وہ روتا ہے چلاتا ہے. ہم نہیں جان رہے ہوتے کہ وہ کیوں رو رہا ہے. ہمیں بس اندازہ ہی لگانا ہوتا ہے. اسی طرح جب ایک کتا بھونکتا ہے تو ہمیں اس کے بھونکنے کی وجہ نہیں معلوم ہوتی.
مگر جب ایک انسان کو کمیونیکیشن کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس کے پاس بولنے کا ذریعہ ہے. وہ اپنا نقطہ نظر باآسانی دوسروں پر واضح کر سکتا ہے.
ہاں یہ اور بات ہے کہ سب کی صلاحیت یکساں درجے کی نہیں ہے. 

الرَّحْمَنُ (1) عَلَّمَ الْقُرْآنَ (2) خَلَقَ الْإِنْسَانَ (3) عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (4)
آیات 2 اور 4 دونوں میں اللہ تعالٰی نے فعل *عَلَّمَ* استعمال کیا ہے. 

اللہ نے قرآن سکھایا اور انسان کو بولنا سکھایا. 

جس طرح آپ قرآن پاک کی تکریم کرتے ہیں اسی طرح آپکو اپنی گفتگو اور منہ سے نکلنے والے ہر لفظ کو بھی عزت دینی ہے. ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں، جہاں بد زبانی، فضول گوئی اتنی عام ہے جیسے سانس لینے کیلئے آکسیجن گیس. اللہ تعالٰی نے ہمیں بولنے کی صلاحیت عطاء کی ہے. ہمیں چاہیے کہ ہم اس صلاحیت کو اعلی مقاصد کے لیے استعمال کریں. 

■ اب آپ ذرا ان چاروں آیات کو اکٹھا پڑھیں. اللہ تعالٰی کی رحمت کا عظیم مظاہرہ تو یہی ہے ناں کہ اس نے آپکو بولنے کی صلاحیت دی. یہ رحمت آپکی تخلیق سے بڑھ کر ہے. اور اس سے بھی بڑھ کر رحمت یہ ہے کہ اس نے آپکو قرآن سکھایا. انسانی زندگی اور قوت گویائی کا بہترین مصرف یہی ہے کہ قرآن سیکھا اور سکھایا جائے.
اس کام کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ایک بہترین انتخاب تھے. اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو تخلیق کیا، بولنے کی صلاحیت دی اور قرآن سکھایا.
اللہ فرماتے ہیں کہ اُس نے انسان کو فرق کرنا سکھایا. کن باتوں میں فرق؟ محفوظ اور خطرناک، سچ اور جھوٹ، اچھی اور بری چیزوں میں فرق ...اللہ نے انسان کو فیصلہ کرنے کی صلاحیت دی ہے.
سورۃ القمر میں اللہ تعالٰی، انسان کو حشرات سے تشبیہہ دیتے ہیں. قرآن پاک کے بعض دوسرے مقامات پر کافروں کی غفلت کو مویشی جانوروں سے تشبیہہ دی گئی ہے. بھلا انسان کو جانور سے کیوں تشبیہہ دی گئی ہے ؟؟؟ آخر کیوں؟؟ اس لئے کہ، جانور اپنی زندگی میں افزائش نسل کرتے ہیں،خوراک کھاتے ہیں، فضلہ خارج کرتے ہیں اور مر جاتے ہیں. بہت سے انسان بھی تو ایسی ہی زندگی جیتے ہیں، کھانا پینا، سونا، بچے پیدا کرنا، اور مر جانا.
انسان کی تخلیق کا مقصد تو بہت اعلٰی تھا. اللہ تعالٰی نے ہمیں سیڑھی مہیا کی کہ ہم اندھیرے سے روشنی کی طرف بلند ہو جائیں..
یہ ہماری باہمی رابطہ کی صلاحیت ہی ہے جس کے باعث ہم ایک دوسرے کی بات سمجھتے ہیں. یہ سورت انسانیت کو چیلنج کر رہی ہے.
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس پہلے سے ہی ایسی چیزیں موجود ہیں جو ہمیں سچ کی تلاش کے لیے چاہئیں.

الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ (5)
سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں. 

سورج اور چاند انتہائی درست اعداد و شمار کے پابند ہیں. چاند تو بہت ہی منظم ہے. ہمارے تمام کیلنڈر چاند یا سورج کی گردش پر ہی منحصر ہیں. اللہ نے ان کو نظام الاوقات کا پابند کیا ہوا ہے. سورج اور چاند کی عظمت انسان سے کم ہے. اگر وہ ایک مقررہ پیمانے پر عمل پیرا ہو کر منظم ہو سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟
اس نکتہ نظر سے قرآن پاک نظم و ضبط اور اصلاح کیلئے ایک دعوت ہے. یہ ایک تحریک ہے. نماز کے اوقات سورج کی گردش سے مقرر کیے جاتے ہیں. ان کی دوسری اہم اور بنیادی ذمہ داری حج اور رمضان کا تعین ہے. ہم ایک منظم امت ہیں. اگر ہم صرف سورج اور چاند پر ہی غور و فکر کر لیں تو اپنے وقت کے بہتر قدردان ہو سکتے ہیں. اگلی بار جب آپ غروب آفتاب کا منظر دیکھیں تو ذرا اپنے وقت کا مصرف بھی سوچئے گا. 

■ لفظ *حسبان* کا مطلب تباہی بھی ہے. *سورۃ الکہف*میں دو باغ والوں کے درمیان ایک مکالمہ ہے. ایک دوسرے سے کہتا ہے کہ اس کو اپنے طور اطوار بدلنے چاہیے. اگر وہ نہیں بدلے گا تو اللہ تعالٰی آسمان سے اس کے باغ پر تباہی نازل فرمائے گا(40). ہماری ہر چیز یہاں تک کہ زندگی اور موت بھی کیلنڈر کی پیروی کرتی ہے. سورج اور چاند تباہی کے دہانے پر ہیں. گویا کہ گرینیڈ کی پن نکال دی گئی ہے. اور اللہ تعالٰی ہمیں اسی کی مناسبت سے بذریعہ قرآن پیغام دے رہے ہیں. اسی مناسبت سے ہمیں سمجھا رہے ہیں. خدا را اپنے حواس سے بہترین کام لیجیے. اب بہت زیادہ وقت نہیں رہ گیا. 

وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ (6)
ستارے/جھاڑیاں اور درخت، یہ تمام اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں. 

*نجم* کا ایک مطلب جھاڑی بھی ہے، یعنی ایسا پودہ جس کا مضبوط تنا، اور گھنی شاخیں نہ ہوں.
اور *نجم* کا دوسرا مطلب ستارہ ہے. یہ دراصل عربی زبان میں بات چیت کا انداز ہے. کہ استعارے سے کام لیا جاتا ہے.
ستارے اور درخت مکمل طور پر اللہ تعالٰی کی اطاعت میں ہیں. نماز کے دوران سجدہ، تابعداری کا بہترین اظہار ہے. یعنی آپ تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ کے سامنے کوئی عزت اور فخر و غرور نہیں. آپ اللہ کے سامنے اپنا سر، زمین پر رکھنے کے لیے رضامند ہیں. بہت سی تہذیبوں اور روایتوں میں سر کو فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے، اور اسی پر تاج رکھا جاتا ہے. سجدے کے عمل میں آپ اپنا فخر و غرور ترک کر دیتے ہیں اور سر کو اللہ کے سامنے زمین پر رکھ دیتے ہیں. 

نفسیات کہتی ہے کہ جب آپ کسی پریشانی یا تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں تو آپ کا سر عاجزی سے جھکا ہوتا ہے. اور جس انسان کے اندر فخر و غرور ہو تو اس کا سر تنا ہوا ہوتا ہے. 

اس آیت کے متعلق کچھ علماء نے یہ قیاس آرائی کی ہے کہ شاید اللہ تعالٰی گھاس کے پتوں کی بات کر رہے ہیں. جو ہوا چلنے پر جھک جاتے ہیں اور اسی طرح جب درختوں پر پھل آتے ہیں تو شاخیں نیچی ہو جاتی ہیں. اور جب ستارے آسمان پر نمودار ہوتے ہیں اور سفر کرتے ہیں تو یہ سب سجدہ کرتے ہوئے ہی محسوس ہوتے ہیں. اس سے پتا چلتا ہے علما نے قرآن پر کتنا تدبر کیا. 

وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ (7)
یہاں تک کہ اس نے آسمان کو بلند کیا ترازو قائم کیا . وہ کتنا رحیم ہے جس نے آسمان کو بلند کیا. 

کیا آپ نے کبھی آسمان کے متعلق سوچا کہ اس کو کیسے بلند کیا گیا؟؟؟
آج کل کے مادی دور میں ہم سائنس سے بہت متاثر ہیں. اور دین کی مضبوطی، درستگی، اور جواز کو سائنسی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں. 

مسئلہ سارا دلیل کا ہے:مثال کے طور اگر تو قرآن ایسی بات کرتا ہے جو سائنسی اعتبار سے درست ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب سچی ہے لیکن اگر یہ کوئی ایسی بات کرتی ہے جو سائنسی اعتبار سے غلط ہے تو پھر یہ کتاب ٹھیک نہیں ہو سکتی.
یعنی سارے کا سارا مسئلہ ہی اس دلیل کے ساتھ ہے. یاد رہے کہ قرآن سائنس کی کوئی درسی کتاب نہیں ہے. اور نہ ہی یہ آپ کے ساتھ سائنسی اصطلاحات میں بات کر رہی ہے. اللہ تعالٰی ہم سے اس درجہ پر آ کر بات کر رہے ہیں جو ہمارا نکتہ نظر ہے اور جسے ہم قابلِ تحسین سمجھتے ہیں. ہمارا مشاہدہ ہے کہ آسمان بلند ہے. اللہ بھی سائنسی زبان میں بات نہیں کر رہے. بلکہ سادہ انداز میں فرماتے ہیں کہ کہ نظر اٹھا کر آسمان کو دیکھو تو سہی. اگر تم اس پر غور کرنا شروع کرو گے تو یہ گہرے سے گہرا ہوتا جائے گا.. 

أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ (8)
کہ ترازو (میزان) میں حد سے تجاوز نہ کرو. 

میزان کیا ہے؟ پیمانہ، ترازو، سکیل. کچھ لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے زمین، سورج، چاند، ستاروں، سیاروں کو کیسے ٹھہرایا ہوا ہے؟ اور اس کائنات میں کیسے ان سب کا توازن قائم کیا ہوا ہے؟
دوسرے الفاظ میں یہ مادی کائنات *المیزان * کا ایک حصہ ہے. میزان کے معنی بیلنس، سکیل، توازن کے ہی ہیں.
اللہ رب العزت نے آسمان کا توازن کہکشاؤں اور ستاروں سے قائم کیا ہوا ہے.
المیزان کا ایک اور مفہوم بھی ہے کہ اللہ رب العزت نے اس کائنات میں توازن رکھا ہے. یہ انسانوں کے لیے اشارہ ہے:
_ آسمان کو دیکھو یہ کتنا ہم آہنگ ہے!!
_ اور کیا زمین پر بھی کہیں کوئی بے ترتیبی نظر آتی ہے؟؟؟
_سورج اپنے وقت مقرر پر طلوع و غروب ہوتا ہے. 

انسان تو بدنظمی کا شکار ہو سکتا ہے، لیکن کائنات کی تربیت و تنظیم اسی طرح قائم رہتی ہے. ہمارے گردو پیش ساری کائنات، زندگی میں ایک مسلسل توازن اور ترتیب کی یاد دہانی ہے.
اور میزان عدل کی علامت ہے. جیسے ہی اگلا حصہ آتا ہے ہم عدل کے متعلق اور جانیں گے. 

أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ (8)
کہ ترازو میں حد سے تجاوز نہ کرو. 

اللہ خطاکاروں کی ایک قسم کے متعلق بات کر رہے ہیں جسے عدل سے کوئی سروکار نہیں، جو مکمل طور پر سرکش/ باغی ہے. ایسا شخص کوئی اخلاقی پیمانہ نہیں رکھتا. جبکہ اللہ اپنے متعلق فرما رہے ہیں کہ وہ اس کائنات میں ایک توازن رکھتے ہیں.
بعض اسکالرز کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی ایسے عمل میں مشغول ہیں جس سے کسی دوسرے کو نقصان پہنچے. خواہ یہ ضرر کسی بھی صورت میں آپکو فائدہ دے رہا ہے یا محض اگلے بندے کے نقصان تک ہی محدود ہے، تب بھی آپ نہ صرف توازن کو بگاڑ رہے ہیں بلکہ آپ ناانصافی میں بھی ملوث ہیں. یہ محض ایک قسم ہے۔
یہ وہی شخص ہے جو اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کے ارد گرد کی دنیا میں، جس میں وہ رہتا ہے، وہ کیا کر رہا ہے؟؟ دراصل یہ ویسا ہی کردار ہے جو سوچنا تک گوارا نہیں کرتا کہ اس کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے؟؟؟
اگلی آیت میں ایک اور خطاکار کا ذکر ہے. 

وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ (9)
اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو۔ اور تول کم مت کرو

صرف ہم ہی وہ واحد کمیونٹی نہیں جو عدل کی بات کرتی ہو، کچھ اور معاشرے بھی عدل کے قیام کا دعوٰی کرتے ہیں. لیکن پھر وہی لوگ نظام عدلیہ کے ساتھ کھیلتے ہیں. یہاں ہمارا مقصد عدالت اور نظام عدلیہ سے متعلق بحث نہیں ہے. ہماری اپنی زندگی میں بھی نظام انصاف کی بہت اہمیت ہے. کئ دفعہ بچے والدین کے جائز حقوق پورے نہیں کرتے. اور کئ دفعہ والدین کا رویہ سنگدلانہ ہوتا ہے. اور اپنے بچوں کو ان کے جائز حقوق نہیں دیتے، اکثر اوقات میاں بیوی کے درمیان کدورت ہو جاتی ہے، کبھی سگے بہن بھائیوں کے درمیان جائیداد کے معاملات پر ظلم و زیادتی کی شکایات ہوتی ہیں. آدمی بہت سی چیزوں کے درمیان پھنسا ہوا ہے. مثلاً بیوی بچے، والدین، معاشرہ، ملازمت، اور آدمی کی اپنی ذات. آدمی کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان سب میں توازن کیسے برقرار رکھنا ہے؟ ایسا توازن کہ کسی کے ساتھ بھی زیادتی یا نا انصافی نہ ہو. اپنے والدین سے آپکی محبت، اپنے بچوں پر آپکی سختی کو جسٹیفائی نہیں کرتی.
آپ اپنی بیوی سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں. لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ اپنی والدہ کا خیال نہ کریں.
آپ مختلف سمتوں میں کھینچے چلے جاتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ آپ کو اس الزام کا بھی سامنا ہے کہ آپ کا رویہ غیر منصفانہ ہے. ٹھیک ہے آپ ہر ایک کو خوش نہیں رکھ سکتے، لیکن کوشش تو کرنی ہے ناں.
آسان ترین فارمولا یہی ہے کہ کوئی ایک شخص بھی کسی دوسرے کو نقصان نہ پہنچائے. عام طور پر آدمی کے پاس نجی زندگی کیلئے کم وقت ہوتا ہے. اُس کا زیادہ وقت اپنے کام پر گزرتا ہے. اسی طرح کے "غیر متوازن حالات" مستقبل میں آپ کے سامنے بھوت بن کر آ کھڑے ہوتے ہیں.
ایسے سخت والدین بھی پائے جاتے ہیں جو اپنے آپ کو اپنے بچوں کی زندگی کا مالک سمجھتے ہیں اور ان کی شادی شدہ زندگی تک میں مداخلت کرتے ہیں. جب رشتوں میں توازن بگڑ جاتا ہے تو خاندان انتشار کا شکار ہو جاتا ہے.
آئیے اب معاشرے میں بڑی سطح کے توازن کو سوچئے. کاروباری سطح پر اور خاندانی سطح پر انصاف کو دیکھئیے. اللہ کے ساتھ اپنے معاملات کا ذرا عادلانہ جائزہ لیجئے. کہ کیا ہم واقعی وہی کر رہے ہیں جو اللہ ہم سے چاہتا ہے؟؟؟ 

وَالْأَرْضَ وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ (10)
اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی

یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ یہ زمین اس نے تمام مخلوقات کے لیے آراستہ کی ہے.
اللہ نے اس زمین کو تمام مخلوقات کے لیے بچھایا ہے. جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ نے مختلف جانداروں کے لیے مختلف رہائش گاہیں بنائی ہیں. یہ بہت حیران کن ہے کہ کیسے اللہ نے زمین کو بچھایا اور پھر کس طرح زمین کے اوپر اور سمندر کے اندر مختلف جانداروں کو آباد کیا.

فِيهَا فَاكِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الْأَكْمَامِ (11) 
اس میں میوے اور کھجور کے درخت ہیں جن کے خوشوں پر غلاف ہوتے ہیں

نخل کھجور کا درخت ہے.
■ ایک کھیت کا مالک، کسان کس طرح گائے کو چارہ کھلاتا ہے؟ وہ گائے کو چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتا ہے. یا پھر زمین پر بھوسہ ڈال دیتا ہے..
ہمارا مالک اللہ تعالٰی ہے. وہ ہمیں کس طرح خوراک مہیا کرتا ہے؟ اللہ تعالٰی خوراک کو زمین پر نہیں پھینک دیتا. بلکہ اس نے ہمیں خوبصورت کھجور کے درخت دئیے ہیں. آپ جانتے ہیں ناں کہ مہنگے ترین گھروں کے سامنے کھجور کے درخت ہوتے ہیں. (یعنی یہ سٹیٹس سمبل ہیں). اللہ تعالٰی نے پھل کو خوبصورت بنایا ہے اور پھر اس کو چھلکے میں لپیٹ دیا ہے. اس کا چھلکا بذات خود بہت مفید ہے.
فوڈ انڈسٹری میں خوراک کی پیکنگ پر خوب بحث چلتی رہتی ہے. زیادہ تر پیکنگ پلاسٹک کے میٹریل سے ہوتی ہے. جب ان کو پھینکا جاتا ہے تو یہ زمین کو زہر آلود کرتا ہے. بعض اوقات زہریلے مادے خوراک کے اندر جذب ہو جاتے ہیں. اب لوگ دوبارہ قدرتی غذاء کی طرف آرہے ہیں. جو اللہ کی طرف سے پیک شدہ ہے. اگر آپ اللہ کی پیک کردہ غذاء کی قدرتی پیکنگ پھینک بھی دیں گے تو یہ خول/چھلکے زمین کو غذائیت فراہم کرتے ہیں. اور مزید نباتات کی پیداوار میں بہت مفید ہیں.
ایک اور بات جو قدرتی پیکنگ کی افادیت کو ظاہر کرتی ہے. وہ حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ میں ہے.
کس چیز نے ان کی نسلوں کو قحط سے بچایا؟؟
اناج کے چھلکے نے.. دانوں کے خول نے.. خوراک 7 سال کیلئے اپنی بالیوں (ڈالیوں) سمیت محفوظ کی گئی تھی. ان چھلکوں کی وجہ سے اس اناج کی کوئی ایکسپائری ڈیٹ نہ تھی.
گزشتہ سورت میں کہا گیا ہے کہ
*کیوں نہیں تم دیکھتے ان تباہ شدہ قوموں کو اور اپنے طریقے نہیں بدلتے؟*
اب اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ *کیوں نہیں تم دیکھتے کہ کس طرح ہم تمہیں خوراک پہنچا رہے ہیں؟

وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ (12)
دانے کے ساتھ اس کی بالی ہے اور پھول ہیں حیران کن خوشبو والے. 

الحب دانے کو کہتے ہیں لیکن اس میں ہر طرح کی نباتاتی زندگی آتی ہے. جو دیکھنے میں خوبصورت، سونگھنے میں مسحور کن ہے. اللہ تعالٰی نے ان کو ہمارے لئے خوبصورت بنایا ہے. 

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (13)
تو (اے گروہ جن وانس) تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے.؟

جاری ہے ۔۔۔

نعمان علی خان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں