پڑھنے اور سیکھنے کا فرق


جب خود سے قران کو سمجھنے کی کوشش کی تھی تو سورہ مطففین کا ترجمہ کچھ یوں سمجھا تھا:

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ * الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُواْ عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ * وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ۔

تباہی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلیئے۔ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب لوگوں کو ناپ یا تول کر دیتے ہیں تو کمی کردیتے ہیں۔
سورہ مطففین آیۃ 1 تا 3۔

اور یہ سورت یہ سمجھ کر چھوڑ دی تھی کہ یہ تو تاجر حضرات کے لیے ہے، ہمارے لیے اس میں احکامات نہیں ہیں۔
حضرت جی کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے ایک دفعہ اسی سورت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:
لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ سورت صرف تاجر حضرات کے لیے ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔

بلکہ یہ سورت ہر اس شخص کے لیے ہے جو لوگوں سے تو پوری امیدیں رکھے لیکن ان کی امیدوں پر پورا نہ اترے۔

لوگوں سے لیتا ہے تو پورا لیتا ہے ان کو دیتا ہے تو گھٹا کر دیتا ہے

یعنی لوگوں کے جو حقوق اس پر ہیں ان کو تو پورا وصول کرتا ہے، لیکن اس پر جو لوگوں کے حقوق ہیں انہیں پورا پورا ادا نہیں کرتا۔

پڑوسی کی عورتیں تو دیکھتا ہے۔ لیکن چاہتا ہے پڑوسی اس کی عورتوں کو نہ دیکھے۔

رشتہ دار تو اس کا خیال رکھیں۔ ہر خوشی غمی میں شریک ہوں لیکن یہ رشتہ داروں کی خوشی غمی میں شریک نہ ہو تو کوئی مسئلہ نہیں۔

اولاد سے تو خدمت کی امید رکھے لیکن اولاد کے حقوق ادا نہ کرے۔

شوهر بیوی سے خدمت کی امید رکھے لیکن بیوی کے جو حقوق لازمہ ہیں ان میں کوتاہی کرتا ہو۔ بیوی شوهر سے هر طرح کا حق لینا چاهتی هو لیکن اپنا فرض نه پهچانتی هو .
 
اور سب سے بڑی بات

اللہ سے تو پورے پورے انعام کی امید رکھے اور شکوے کرے لیکن اس کی ویسی عبادت اور شُکر نہ کرے جو اسکا حق ہے۔

اس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ قران پڑھنے اور سیکھنے میں کیا فرق ہے۔

منقول

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں