تدبرِ قرآن
سورہ الرحمٰن
(نعمان علی خان)
حصہ آخر
اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ڈاکٹر اسرار احمد نے اس سورت پہ درس دیتے ہوئے فرمایا، "آج مسلمان مرد اور عورت ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں یہ سب بہت عام ہے اور اگر وہ خود کو اس چیز سے، ان ترغیبات سے محفوظ رکھتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہوگی کہ وہ اللہ کی رضا کے طالب ہیں۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
۰پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے؟
كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ
۰گویا وہ ہیں یاقوت اور مرجان (۵۸)
جنت میں آپ کے زوج نہ صرف شرم و حیا کے پیکر ہوں گے بلکہ ان کی وہاں قدر بھی ہوگی۔ آج کے زمانے میں لوگ اپنی بیوی/خاوند کی قدر نہیں کرتے مگر جنت میں ایسا نہ ہوگا۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
۰پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے؟
هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ
۰نہیں ہے جزاء عمدہ نیکی کی مگر یہ کہ بدلہ ہے اعلی درجہ کا۔ (۶۰)
کیوں آپ کو کسی چھوٹی سی نیکی کے لیے بہترین اجر دیا جائے گا؟
یہ آیت ہم سب کے لیے ایک پکار ہے، یاد دہانی ہے کہ ہمیں اپنے عمل کو بہترین بنانا چاہیے۔ اللہ نے کہا تھا "جو کوئی اپنے پروردگار کے آگے کھڑا ہونے سے ڈرے گا"
اور اب یہاں اللہ نے ہمیں اس سے بڑا مقصد عطا کیا ہے کہ اپنی نیکیوں، اپنے اعمال کو بہترین درجے کا بنایا جائے۔
اب یہاں سے ہم ایک دوسری جنت کے متعلق بات کریں گے۔ دو جنات کے درمیان موازنہ یاد رکھیے گا۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے.؟
وَمِن دُونِهِمَا جَنَّتَانِ
اور ان کے علاوہ دو جنتیں اور ہیں (۶۲)
سورہ الواقعہ میں جس گروہ کا پہلے ذکر ہوا وہ "السابقون" ہیں۔ اور دوسرا گروہ دائیں ہاتھ والے لوگوں کا ہے۔
دائیں ہاتھ والے لوگ پاس ہوں گے، اور السابقون وہ جنہیں +A ملے گا۔ جیسے دو گروہ ہیں ویسے ہی دو جنتیں ہیں۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے؟
مُدْهَامَّتَانِ
دونوں گہری سبز رنگ کی شاداب (۶۴)
ہریالی اتنی سرسبز ہے کہ مشکل سے ہی کوئی روشنی وہاں داخل ہوتی ہے۔ دوسری جنت کی تفصیل کا ذکر بھی وہاں کی ہریالی سے شروع ہوا مگر وہ پہلی جنت سے زیادہ سرسبز ہے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے.؟
فِيهِمَا عَيْنَانِ نَضَّاخَتَانِ
ان دونوں میں ہیں دو چشمے ابلتے ہوئے (۶۶)
جو فعل پچھلی آیات میں ہوا تھا وہ "بہنا" تھا اور یہاں "اُبلنا" ہے۔ اس سین میں زیادہ شدت ہے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے؟
فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ
ان دونوں میں ہیں پھل اور کھجوریں اور انار۔ (۶۸)
پچھلی آیات میں ہر طرح کے پھل کا ذکر تھا۔ یہاں، اللہ نے پہلے پھلوں کا ذکر کیا، جو کہ ایک جنرل فارم ہے اس میں ہر طرح کا پھل آجاتا ہے۔ پھر اللہ نے دو مخصوص قسم کے پھلوں کا ذکر کیا: کھجور اور انار۔ یہ ایک خاص طریقہ ہے بات کرنے کا جس میں پہلے پوری چیز کا ذکر ہوا اور پھر ان میں سے دو خاص اشیاء کا۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے.؟
فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ
۰ان میں ہونگی نیک سیرت اور خوبصورت عورتیں(70)
عربی میں لفظ "خیر" باطنی خوبصورتی کے لیے استعمال ہوتا ہے، ظاہری نہیں۔ جنت میں موجود عورتیں اس خصوصیت کی حامل ہوں گی، یہاں اللہ تعالی ان کی سیرت کا ذکر کر رہے ہیں۔ پچھلی آیات میں، ان کی شرم و حیا کا ذکر تھا۔ شرم بھی خیر ہی کا حصہ ہے مگر اس آیت کی وسعت زیادہ ہے اور یہ ان عورتوں میں موجود ہر طرح کے خیر کو بیان کرتی ہے۔
"حسان" باطنی اور ظاہری دونوں خوبصورتی کے لیے ہے استعمال ہوا ہے۔ جنت میں آپ کی بیویاں ہر لحاظ سے پرفیکٹ ہوں گی، اور یہ چیز دنیا میں ممکن نہیں ہے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے.؟
حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ
گہری آنکھوں والی حوریں جو محفوظ ہیں خیموں میں (72)
یہاں پر اسم کا استعمال ہوا ہے، جو ان عورتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جن کی آنکھیں انتہائی خوبصورت ہوں گی۔
اگلی سورت میں اللہ تعالی لوگوں کے دو گروہ کے متعلق بیان کرتے ہیں: السابقون اور دائیں ہاتھ والے لوگ۔ جب اللہ نے السابقون کا ذکر کیا تو ان کے لیے لفظ "حور" کا استعمال کیا۔
اصلاحی نے فرمایا: یہاں پر جس طرح کی زبان استعمال ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوسری جنت عربوں کی پسند کے لیے کافی عجیب ہے۔ کھجور اور انار ان کے پسندیدہ پھل ہیں اور اس آیت میں خیموں کا بھی ذکر ہے۔
السابقون سب سے قریب ہوں گے، اور ان میں سے اکثریت رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھیوں کی ہوگی۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے؟
لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ
نہ چھوا ہوگا جنکو کسی انسان نے ان سے پہلے اور نہ کسی جن نے(74)
وہ پاکیزگی جس کا ذکر جنت کے پہلے لیول کے لیے ہوا تھا اس کا ذکر اب اس آیت میں بھی ہورہا ہے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے؟
مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ
تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے مسندوں پر سبز رنگ کے اور خوبصورت نفیس (76)
جنت کے لوگ سبز رنگ کی مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ آپ نے اپنے سی۔ای۔او کے آفس میں ہاتھ سے کڑھائی کیے ہوئے دلکش قالین دیکھے ہوں گے۔
ایسی دلکش اور خوبصورت سجاوٹ کا شوقین ہر انسان ہے۔ اور اللہ اسی لیے ہمیں یہ سب عطا کرے گا۔
"عبقار" عربوں کے کہنے کا طریقہ تھا کہ یہ تو تم جنوں کی وادی سے لائے ہوگے۔ یعنی، یہ چیز بہت دور سے لائے ہو۔ ایسے ہی غیر ملکی، اجنبی چیزوں کو عبقری کہا جاتا ہے۔ جب کسی کے پاس ایسا فرنیچر ہو جو آپ کے لیے اجنبی ہو، پہلے ویسا نہ دیکھا ہو، دلکش ہو، وہ دور سے ہوتا ہے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے.؟
اس آیت کو بار بار دہرایا گیا ہے، اس میں سے ہمیں جو ایک سبق حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جب ہم جنت کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے دین کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں، تو ہمیں کچھ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آپ کو بعض چیزوں، آسائشوں کی قربانی دینا پڑتی ہے اپنے دین پہ ثابت قدم رہنے کے لیے۔ اور اس سب کے بدلے میں جو آپ کو حاصل ہوگا وہ ان سب چیزوں سے بڑھ کر ہے جنہیں آپ نے قربان کیا ہوگا، اس لیے ہمیں کسی طرح کی شکایت نہیں کرنی چاہیے۔ آپ کو اس بات کا احساس کہ آپ کچھ کھوتے جارہے ہیں تب ہوتا ہے جب آپ سے کوئی چیز چھینی جا رہی ہو، لیکن دین پر ثابت قدم رہ کر تو ہمیں بہت کچھ حاصل ہورہا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے آپ سے چھینا جارہا ہے تو آپ میں شکر کی کمی ہے۔ جب آپ دین کو ترک کردیتے ہیں تو آپ دین کے ساتھ ناشکری کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا آپ واقعی یقین رکھتے ہیں کہ آپ کو جنت میں گھر ملے گا؟ اگر یقین ہے، تو آپ کا شکایت کرنا نہیں بنتا۔
رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کسی آنکھ نے اسے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا، اور کسی دل نے ویسا گمان بھی نہ کیا ہوگا۔ یہ جنت کی تفصیل ہے۔ یہ تو بس کچھ دنیاوی چیزیں ہیں جن سے ہم محبت کرتے ہیں۔ ان سب چیزوں کے جنتی ورژن کا تصور کریں زرا؟ اس دنیا میں موجود ہر چیز میں کوئی نہ کوئی خامی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں جو اس نے ہمارے لیے تیار کر رکھی ہے وہ بہترین اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ اس دنیا میں کوئی شے ایسی نہیں جو ہمیشہ رہے۔
تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ
بابرکت ہے نام تیرے رب کا جو صاحب عظمت ہے اور احسان کرنے والا ہے۔ (78)
سوال پیدا ہوتا ہے، کونسا نام؟ اللہ نے اس نام کے متعلق بتایا کہ وہ صاحب عظمت اور احسان کرنے والا ہے۔ اللہ نے اس سورت کا آغاز "الرحمن" سے کیا۔ اللہ ہمیں یاد کروا رہے ہیں کہ ہم یہ مت بھولیں کہ سورت کا آغاز کیسے ہوا تھا۔
سورہ القمر کے اختتام پر اللہ ایسے لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جو جنت میں اللہ کی کمپنی میں بیٹھیں ہوں گے۔ اللہ اپنی سلطنت اور طاقت کا ذکر کرتے ہیں ان لوگوں کے متعلق فرماتے ہوئے۔ جب آپ اللہ کے نزدیک بیٹھے ہونگے تو وہ اللہ کی رحمت ہی ہوگی، مگر اللہ اپنی رحمت کا سورہ الرحمن میں بتاتے ہیں کہ وہ یہ ہے کہ اس نے قرآن سکھایا ہے۔
ہم اس سے کیا سیکھتے ہیں؟
قرآن کا پڑھنا پروموٹ کریں، اپنے خاندان والوں کے ساتھ پڑھیں۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر اس کا مطالعہ کریں اور اسے سمجھیں۔ اس سورت نے ہمیں کیا کرنے کو کہا ہے؟ شکرگزار بنیں۔ ناشکری نہ کریں۔
ہمیں ناشکری سے کیوں بچنا چاہیے؟ تاکہ ہم اللہ کے اس نام الرحمن کا فائدہ حاصل کرسکیں۔
نعمان علی خان
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ڈاکٹر اسرار احمد نے اس سورت پہ درس دیتے ہوئے فرمایا، "آج مسلمان مرد اور عورت ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں یہ سب بہت عام ہے اور اگر وہ خود کو اس چیز سے، ان ترغیبات سے محفوظ رکھتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہوگی کہ وہ اللہ کی رضا کے طالب ہیں۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
۰پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے؟
كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ
۰گویا وہ ہیں یاقوت اور مرجان (۵۸)
جنت میں آپ کے زوج نہ صرف شرم و حیا کے پیکر ہوں گے بلکہ ان کی وہاں قدر بھی ہوگی۔ آج کے زمانے میں لوگ اپنی بیوی/خاوند کی قدر نہیں کرتے مگر جنت میں ایسا نہ ہوگا۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
۰پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے؟
هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ
۰نہیں ہے جزاء عمدہ نیکی کی مگر یہ کہ بدلہ ہے اعلی درجہ کا۔ (۶۰)
کیوں آپ کو کسی چھوٹی سی نیکی کے لیے بہترین اجر دیا جائے گا؟
یہ آیت ہم سب کے لیے ایک پکار ہے، یاد دہانی ہے کہ ہمیں اپنے عمل کو بہترین بنانا چاہیے۔ اللہ نے کہا تھا "جو کوئی اپنے پروردگار کے آگے کھڑا ہونے سے ڈرے گا"
اور اب یہاں اللہ نے ہمیں اس سے بڑا مقصد عطا کیا ہے کہ اپنی نیکیوں، اپنے اعمال کو بہترین درجے کا بنایا جائے۔
اب یہاں سے ہم ایک دوسری جنت کے متعلق بات کریں گے۔ دو جنات کے درمیان موازنہ یاد رکھیے گا۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے.؟
وَمِن دُونِهِمَا جَنَّتَانِ
اور ان کے علاوہ دو جنتیں اور ہیں (۶۲)
سورہ الواقعہ میں جس گروہ کا پہلے ذکر ہوا وہ "السابقون" ہیں۔ اور دوسرا گروہ دائیں ہاتھ والے لوگوں کا ہے۔
دائیں ہاتھ والے لوگ پاس ہوں گے، اور السابقون وہ جنہیں +A ملے گا۔ جیسے دو گروہ ہیں ویسے ہی دو جنتیں ہیں۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے؟
مُدْهَامَّتَانِ
دونوں گہری سبز رنگ کی شاداب (۶۴)
ہریالی اتنی سرسبز ہے کہ مشکل سے ہی کوئی روشنی وہاں داخل ہوتی ہے۔ دوسری جنت کی تفصیل کا ذکر بھی وہاں کی ہریالی سے شروع ہوا مگر وہ پہلی جنت سے زیادہ سرسبز ہے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے.؟
فِيهِمَا عَيْنَانِ نَضَّاخَتَانِ
ان دونوں میں ہیں دو چشمے ابلتے ہوئے (۶۶)
جو فعل پچھلی آیات میں ہوا تھا وہ "بہنا" تھا اور یہاں "اُبلنا" ہے۔ اس سین میں زیادہ شدت ہے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے؟
فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ
ان دونوں میں ہیں پھل اور کھجوریں اور انار۔ (۶۸)
پچھلی آیات میں ہر طرح کے پھل کا ذکر تھا۔ یہاں، اللہ نے پہلے پھلوں کا ذکر کیا، جو کہ ایک جنرل فارم ہے اس میں ہر طرح کا پھل آجاتا ہے۔ پھر اللہ نے دو مخصوص قسم کے پھلوں کا ذکر کیا: کھجور اور انار۔ یہ ایک خاص طریقہ ہے بات کرنے کا جس میں پہلے پوری چیز کا ذکر ہوا اور پھر ان میں سے دو خاص اشیاء کا۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے.؟
فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ
۰ان میں ہونگی نیک سیرت اور خوبصورت عورتیں(70)
عربی میں لفظ "خیر" باطنی خوبصورتی کے لیے استعمال ہوتا ہے، ظاہری نہیں۔ جنت میں موجود عورتیں اس خصوصیت کی حامل ہوں گی، یہاں اللہ تعالی ان کی سیرت کا ذکر کر رہے ہیں۔ پچھلی آیات میں، ان کی شرم و حیا کا ذکر تھا۔ شرم بھی خیر ہی کا حصہ ہے مگر اس آیت کی وسعت زیادہ ہے اور یہ ان عورتوں میں موجود ہر طرح کے خیر کو بیان کرتی ہے۔
"حسان" باطنی اور ظاہری دونوں خوبصورتی کے لیے ہے استعمال ہوا ہے۔ جنت میں آپ کی بیویاں ہر لحاظ سے پرفیکٹ ہوں گی، اور یہ چیز دنیا میں ممکن نہیں ہے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے.؟
حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ
گہری آنکھوں والی حوریں جو محفوظ ہیں خیموں میں (72)
یہاں پر اسم کا استعمال ہوا ہے، جو ان عورتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جن کی آنکھیں انتہائی خوبصورت ہوں گی۔
اگلی سورت میں اللہ تعالی لوگوں کے دو گروہ کے متعلق بیان کرتے ہیں: السابقون اور دائیں ہاتھ والے لوگ۔ جب اللہ نے السابقون کا ذکر کیا تو ان کے لیے لفظ "حور" کا استعمال کیا۔
اصلاحی نے فرمایا: یہاں پر جس طرح کی زبان استعمال ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوسری جنت عربوں کی پسند کے لیے کافی عجیب ہے۔ کھجور اور انار ان کے پسندیدہ پھل ہیں اور اس آیت میں خیموں کا بھی ذکر ہے۔
السابقون سب سے قریب ہوں گے، اور ان میں سے اکثریت رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھیوں کی ہوگی۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے؟
لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ
نہ چھوا ہوگا جنکو کسی انسان نے ان سے پہلے اور نہ کسی جن نے(74)
وہ پاکیزگی جس کا ذکر جنت کے پہلے لیول کے لیے ہوا تھا اس کا ذکر اب اس آیت میں بھی ہورہا ہے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے؟
مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ
تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے مسندوں پر سبز رنگ کے اور خوبصورت نفیس (76)
جنت کے لوگ سبز رنگ کی مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ آپ نے اپنے سی۔ای۔او کے آفس میں ہاتھ سے کڑھائی کیے ہوئے دلکش قالین دیکھے ہوں گے۔
ایسی دلکش اور خوبصورت سجاوٹ کا شوقین ہر انسان ہے۔ اور اللہ اسی لیے ہمیں یہ سب عطا کرے گا۔
"عبقار" عربوں کے کہنے کا طریقہ تھا کہ یہ تو تم جنوں کی وادی سے لائے ہوگے۔ یعنی، یہ چیز بہت دور سے لائے ہو۔ ایسے ہی غیر ملکی، اجنبی چیزوں کو عبقری کہا جاتا ہے۔ جب کسی کے پاس ایسا فرنیچر ہو جو آپ کے لیے اجنبی ہو، پہلے ویسا نہ دیکھا ہو، دلکش ہو، وہ دور سے ہوتا ہے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پھر کیا کیا رعایتیں، معجزے، عجوبے، قوتیں، احسانات، تحفے، اور رحمتیں ہیں کہ جن کا تم دونوں انکار کرو گے اور جھٹلاؤ گے.؟
اس آیت کو بار بار دہرایا گیا ہے، اس میں سے ہمیں جو ایک سبق حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جب ہم جنت کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے دین کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں، تو ہمیں کچھ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آپ کو بعض چیزوں، آسائشوں کی قربانی دینا پڑتی ہے اپنے دین پہ ثابت قدم رہنے کے لیے۔ اور اس سب کے بدلے میں جو آپ کو حاصل ہوگا وہ ان سب چیزوں سے بڑھ کر ہے جنہیں آپ نے قربان کیا ہوگا، اس لیے ہمیں کسی طرح کی شکایت نہیں کرنی چاہیے۔ آپ کو اس بات کا احساس کہ آپ کچھ کھوتے جارہے ہیں تب ہوتا ہے جب آپ سے کوئی چیز چھینی جا رہی ہو، لیکن دین پر ثابت قدم رہ کر تو ہمیں بہت کچھ حاصل ہورہا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے آپ سے چھینا جارہا ہے تو آپ میں شکر کی کمی ہے۔ جب آپ دین کو ترک کردیتے ہیں تو آپ دین کے ساتھ ناشکری کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا آپ واقعی یقین رکھتے ہیں کہ آپ کو جنت میں گھر ملے گا؟ اگر یقین ہے، تو آپ کا شکایت کرنا نہیں بنتا۔
رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کسی آنکھ نے اسے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا، اور کسی دل نے ویسا گمان بھی نہ کیا ہوگا۔ یہ جنت کی تفصیل ہے۔ یہ تو بس کچھ دنیاوی چیزیں ہیں جن سے ہم محبت کرتے ہیں۔ ان سب چیزوں کے جنتی ورژن کا تصور کریں زرا؟ اس دنیا میں موجود ہر چیز میں کوئی نہ کوئی خامی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں جو اس نے ہمارے لیے تیار کر رکھی ہے وہ بہترین اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ اس دنیا میں کوئی شے ایسی نہیں جو ہمیشہ رہے۔
تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ
بابرکت ہے نام تیرے رب کا جو صاحب عظمت ہے اور احسان کرنے والا ہے۔ (78)
سوال پیدا ہوتا ہے، کونسا نام؟ اللہ نے اس نام کے متعلق بتایا کہ وہ صاحب عظمت اور احسان کرنے والا ہے۔ اللہ نے اس سورت کا آغاز "الرحمن" سے کیا۔ اللہ ہمیں یاد کروا رہے ہیں کہ ہم یہ مت بھولیں کہ سورت کا آغاز کیسے ہوا تھا۔
سورہ القمر کے اختتام پر اللہ ایسے لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جو جنت میں اللہ کی کمپنی میں بیٹھیں ہوں گے۔ اللہ اپنی سلطنت اور طاقت کا ذکر کرتے ہیں ان لوگوں کے متعلق فرماتے ہوئے۔ جب آپ اللہ کے نزدیک بیٹھے ہونگے تو وہ اللہ کی رحمت ہی ہوگی، مگر اللہ اپنی رحمت کا سورہ الرحمن میں بتاتے ہیں کہ وہ یہ ہے کہ اس نے قرآن سکھایا ہے۔
ہم اس سے کیا سیکھتے ہیں؟
قرآن کا پڑھنا پروموٹ کریں، اپنے خاندان والوں کے ساتھ پڑھیں۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر اس کا مطالعہ کریں اور اسے سمجھیں۔ اس سورت نے ہمیں کیا کرنے کو کہا ہے؟ شکرگزار بنیں۔ ناشکری نہ کریں۔
ہمیں ناشکری سے کیوں بچنا چاہیے؟ تاکہ ہم اللہ کے اس نام الرحمن کا فائدہ حاصل کرسکیں۔
نعمان علی خان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں