عمرِ مختصر کیا ہے


ذندگی کی وسعت میں
عمرِ مختصر کیا ہے
دورِ امتحاں!
جس کا
ایک ایک پل کرے
ایک دن گزرتا ہے
ایک ایک دن کرکے 
سال بیت جاتا ہے
وہ ابھی جو گزرا ہے
ایک ایک پل کرکے
ایک ایک دن کرکے
سال وہ بھی بیتا ہے
یہ ابھی جو آیا ہے
ایک ایک پل کرکے
ایک ایک دن کرکے
سال یہ بھی بیتے گا
ہاں مگر وہ جیتے گا
جو کسی بھی لمحے کو
رائیگاں نہ جانے دے
بئ نشاں نہ جانے دے
جو کوئی بھی دن اپنا
جا اس امتحاں میں ہو
خود ہی ممتحن اپنا

شاعر: اجمل سراج

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں