تدبرِ قرآن- سورہ بقرۃ (استاد نعمان علی خان) حصہ- 20

تدبرِ قرآن
سورہ بقرۃ (استاد نعمان علی خان) 
حصہ- 20

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ

ان کی مثال اس ایک شخص کی سی ہے جس نے تاریکی میں آگ روشن کی، اور جب اس آگ کی روشنی چار سو پھیل گئی تو اللہ نے ان سب کی روشنی اچک لی  اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا تو وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے .
تو جب آگ کی روشنی ہر طرف پھیل گئی اور یہ آگ کہاں اور کس وقت جلائی گئی؟
ایک صحرا میں رات کے اندھیرے میں.
دن کے وقت آپ کو صحرا میں آگ جلانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، دن کے وقت صحرا ویسے ہی ابل رہا ہوتا ہے، تو یہ سیاہ تاریک رات میں گھپ اندھیرے کی منظر کشی ہے. اب اللہ تعالٰی فوراً ہی آگے منظر بیان کرتے ہیں کہ  ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ کہ اللہ تعالٰی نے ان سب کی روشنی اچک لی.
 یہ نہایت عجیب بات ہے، حتی کہ آپ اگر اس کا اردو یا انگریزی ترجمہ بھی پڑھیں تو آپ کو نہایت عجیب لگے گا "ان کی مثال اس ایک شخص کی سی ہے جس نے تاریکی میں آگ روشن کی، اور جب اس آگ کی روشنی چار سو پھیل گئی تو اللہ نے ان سب کی روشنی اچک لی"  پہلے تو یوں لگا جیسے ایک شخص کی بات کی گئی ہو لیکن بعد میں منظر واضح ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ ایک شخص صحرا میں، تاریکی میں بھٹکتے ہوئے روشنی کا متلاشی تھا، لیکن درحقیقت جب روشنی پھیلی تو پتہ چلا کہ بہت سے لوگ روشنی کی، نور کی تلاش میں تھے اور اندھیروں میں بھٹک رہے تھے. 

صحرا میں رات کی تاریکی میں راستہ تلاش کرنے کا ایک ہی آسان طریقہ ہے کہ کسی نے آپ کے لیے روشنی جلا رکھی ہو. تو آگے کہا گیا کہ جو دوسرے لوگ اندھیرے میں بھٹک رہے تھے، اللہ تعالٰی نے ان سے ان کی روشنی چھین لی، وہ اس روشنی کو، دیکھ ہی نہ پائے. غور کریں تو یہاں یہ نہیں کہا گیا ذَهَبَ اللَّهُ بِضوئِهِمْ، بلکہ کہا گیا ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ
یعنی وہ روشنی سے، نور سے اس قدر دور ہو گئے کہ روشنی تو دور کی بات بلکہ روشنی کی کوئی ذرہ برابر رمق بھی نہ دیکھ سکتے. مثلاً جب روشنی پھیلے تو آسمان کا رنگ کچھ نارنجی سا ہو جاتا ہے، یا جب آگ جلائی جائے تو دھواں ہی آسمان پر پھیل جاتا ہے مگر وہ ان میں سے کچھ بھی نہ دیکھ سکے، اللہ تعالٰی نے ان کے دیکھنے کی صلاحیت ہی سلب کر لی. یہاں کچھ سوالات ذہن و دل میں اٹھتے ہیں لیکن ان کے جوابات ابھی میں آپ کو نہیں دینا چاہتا. ابھی میں فقط اتنا چاہتا ہوں کہ منظر آپ کے ذہن میں واضح ہو جائے.
    تو اللہ تعالٰی نے فیصلہ کیا کہ ایک اللہ کے بندے نے صحرا کی تاریکی میں آگ جلا کر جو روشنی پھیلائی، اس سے کچھ لوگ قطعاً فائدہ نہیں اٹھا پائیں گے. اور یہ آگ، جس کی روشنی و حدت بڑھتی جا رہی ہے اور چار سو محسوس کی جا سکتی ہے اور جس کی ان لوگوں کو ضرورت بھی ہے، پھر بھی وہ لوگ اس آگ سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں کیونکہ اللہ تعالٰی نے ان کی روشنی  چھین لی. ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ ،تو ان لوگوں کو توفیق بھی نہ ہوئی، اس روشنی کی طرف چلنے کی.
 تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی ان بیچارے لوگوں کے ساتھ ایسا کیوں کریں گے؟ یہ اللہ تعالٰی کا ان کے لیے فیصلہ ہے (ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ) ، عربی کے طلباء کے لیے یہ غور طلب ہے، کہا جا سکتا تھا أذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ، ذَهَبَ اور أذَهَبَ دونوں کے ترجمہ میں ایک ہی معنی ہیں مگر عربی لغت میں اگر أذَهَبَ کا  استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ روشنی واپس بھی مل سکتی ہے بالکل  اسی طرح جیسے اللہ تعالٰی ہر دن کی روشنی کو رات میں تبدیل کر دیتے ہیں لیکن اگلی ہی صبح دوبارہ روشنی پھیل جاتی ہے ، مگر جب "ذَهَبَ" کہا جائے جیسے  ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِم ْ  تو مطلب ہوا کہ روشنی کبھی بھی واپس نہیں مل سکتی اللہ تعالٰی نے ان کی روشنی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سلب کر لی، دوسرے لفظوں میں وہ روشنی کے قریب بھی نہیں جا سکتے.

وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَات
اور انہیں اندھیروں کے بیچ چھوڑ دیا.

یہاں "ظلمات " کا لفظ استعمال ہوا ہے، یعنی اندھیروں میں ہی نہیں بلکہ اندھیروں کی تہہ در تہہ میں، گھپ اندھیروں میں، صحرا میں جتنا بھی آگے بڑھتے جائیں، تاریکی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے، تو وہ نہ صرف اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں بلکہ وہ گھپ اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں.

وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ
اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا تو وہ کچھ نہیں دیکھتے.

یہ آیت غور طلب ہے اور اس میں بھی ذہن میں سوال اٹھتے ہیں جن کے جوابات ابھی نہیں بلکہ ان شاء اللہ آگے چل کر آپ کو دیے جائیں گے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ کے دل میں یہ سوال پیدا ضرور ہوں.  تو وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے کے لیے عربی میں "یرون" کا لفظ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اللہ تعالٰی نے "یبصرون" کا استعمال کیا. پہلے ہی ان لوگوں کے ساتھ کیا کم برا ہو رہا تھا جو اللہ نے ان کی بصارت بھی چھین لی. اندھیرا ہے، اور وہ صحرا میں گم ہیں، بھٹک رہے ہیں، انہیں روشنی نظر ہی نہیں آ رہی، اور اب اللہ نے ان کی بینائی بھی چھین لی؟ وہ تو پہلے ہی قابل رحم حالت میں ہیں.
اب اگر کوئی نابینا ہو، تو وہ اپنی آواز کے سہارے مدد کے لیے چلائے گا، کہ کوئی ہے؟ یا اگر کوئی ذرا سی بھی آہٹ ہو گی، پتوں کی سرسراہٹ کی یا کسی بھی چیز کی تو وہ پکاریں گے کہ کیا کوئی ہے وہاں پہ ؟ مدد، کوئی مدد کرے.  نابینا لوگوں کی حس سماعت بڑھ جاتی ہے. حتی کہ جب اندھیرا ہو اور تمام روشنیاں گل کر دی جائیں، اور آپ بستر پر لیٹے ہوں تو اچانک سے آپ کو سب آوازیں سنائی دینے لگ جاتی ہیں، جھینگوں کا شور، گھڑی کی ٹک ٹک، تو جب اندھیرا ہو جائے تو ایک عام انسان کے بھی کان تیز ہو جاتے ہیں اور جب روشنی ہو تو چاہے اماں بیس دفعہ بلائیں، تب کان کام نہیں کرتے. تو وہ لوگ جو اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں ان کی حس سماعت بڑھ جانی چاہیے. لیکن اللہ تعالٰی فرماتے ہیں

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ
بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں تو وہ کچھ نہیں سمجھتے.

اللہ تعالٰی نے یہ نہیں کہا کہ اللہ نے انہیں بہرا بنا دیا، اللہ تعالٰی نے کہا وہ ہیں ہی بہرے، اور آگے کہا بُكْمٌ یعنی گونگے ہیں، یہ دو معنوں میں ہے کہ یا تو وہ بول نہیں سکتے یا یہ کہ وہ اس قدر دور ہیں کہ اگر وہ بولیں بھی تو کوئی انہیں سن نہیں سکتا، اگر آپ کے کانوں تک ایک عرصہ تک کوئی آواز نہ پہنچے تو آپ کو یوں لگے گا کہ کان ناکارہ ہو گئے. یعنی وہ ہدایت سے اس قدر دور ہیں کہ ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا. اور پھر وہ عُمْيٌ ہیں، اندھے ہیں، یہ اندھا پن ایک اور مسئلہ ہے، پہلا مسئلہ یہ تھا کہ اس قدر اندھیرا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دے رہا، کچھ نظر نہیں آ رہا اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اندھے بھی ہیں. اگر ساری روشنیاں گل کر دی جائیں، اندھیری سیاہ رات ہو، آسمان پر بادل چھائے ہوں گھپ اندھیرا ہو تو یہ بھی ایک طرح کا اندھا پن ہے، تو پہلے تو اللہ نے باہر کی روشنی صلب کر لی لیکن اب کہا گیا کہ بینائی بھی چھن گئی ان سے، ان کے دیکھنے، سننے اور بولنے کی صلاحیت ہی ختم ہو چکی ہے.

آگے کہا گیا

فھم لا یرجعون
اور وہ لوٹ کر نہیں آنے والے. 

سوال یہ ہے کہ کہاں لوٹ کر نہیں آنے والے؟
ان کی روشنی کی طرف۔۔ جس کی طرف انہیں جانا چاہیے تھا. غور طلب بات ہے کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا "ان کی روشنی". یعنی روشنی ان کی بہتری کے لیے تھی. اگر یہ روشنی ان کے لیے نہ ہوتی تو کہا جاتا "ذھب اللہ بنور". لیکن اللہ تعالٰی نے کہا "بنورھم ". تو اب اس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم ان آیات پر تدبر کریں گے اور یقین جانیے یہاں جو بھی اللہ تعالٰی نے ان آیات میں فرمایا ہے وہ نہایت زبردست و دلچسپ ہے کہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی مجھے اس قدر فصیح البیان بنائے کہ میں آپ کو یہ سب کچھ ایسے ہی بیان کر سکوں جیسا کہ ان کا حق ہے. اور ان آیات کے ساتھ انصاف کر سکوں. آمین.

  رسول صلی اللہ علیہ والہ و السلام کا فرمان ہے " انما مثل کمثلکم رجل استوقد نارا" کہ ہماری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے(تاریکی میں)آگ روشن کرنے کی کوشش کی. اسی سے ملتی جلتی بات اللہ تعالٰی نے اس  آیت میں بھی کہی ہے بس انداز مختلف ہے . اس آیت اور حدیث میں ایک تعلق ہے.
کون ہے وہ آدمی جو آگ روشن کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟
رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام۔۔۔۔۔۔۔
اب بنی اسرائیل کی تاریخ دیکھیں تو ایک نبی کی رحلت کے بعد فوراً ہی اگلے نبی مبعوث کر دیے گئے، بنی اسرائیل کے ہاں لگاتار انبیائے کرام مبعوث ہوئے، حضرت داؤد علیہ السلام کے فوراً بعد حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت ذکریا علیہ السلام کے بعد حضرت یحی علیہ السلام، یکے بعد دیگرے یہاں تک کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو نبوت ملی. اور یہ رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام کی ولادت سے چھ سو سال قبل ہوا تھا کہ بنی اسرائیل کے ہاں آخری نبی مبعوث ہوئے جو کہ عیسٰی علیہ السلام تھے تو انہوں نے عیسٰی علیہ السلام کو ماننے سے انکار کر دیا. اور اللہ تعالٰی نے عیسٰی علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھا لیا. یہ سب 600 برس قبل ہوا.  بنی اسرائیل عادی تھے کہ ان کی ہر نسل میں انبیاء مبعوث ہوئے. لیکن اب صدیاں گزر گئیں اور کوئی نبی نہیں آیا ان کے پاس. اور بنی اسرائیل اس انتظار میں تھے کہ ایک آخری نبی آئیں گے، وہ جانتے تھے کہ انقطاع الوحی کی ایک خاص مدت کے بعد ایک نبی آئے گا جو آخری نبی ہو گا. ایسا ہو گا کہ اللہ تعالٰی کچھ عرصہ بعد آخری نبی کو مبعوث کریں گے. تو عرب دنیا کے اہل یہود، شدت سے آخری نبی کا انتظار کر رہے تھے. اور یہود مدینہ میں آباد تھے، بہت سے لوگ یہ بات نہیں جانتے مگر کچھ مؤرخین کی رائے ہے کہ یہود مدینہ، ہجرت کر کے آئے تھے، صرف اس لیے کیونکہ اپنی کتب کے باعث انہیں یقین تھا کہ آخری نبی مدینہ میں آئیں گے. تو وہ بہت عرصہ پہلے مدینہ آ کے آباد ہو گئے تھے. اور وہ نسل در نسل خط منتقل کرتے تھے رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام کے لیے کہ یا رسول اللہ! ہم یہاں آپ کے لیے آباد ہوئے، کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ آخری نبی یہاں آئیں گے. اور وہ مرنے سے پہلے یہ خطوط اپنے بچوں کو منتقل کر کے جاتے تھے. یہ عرب یہود کا وطیرہ تھا کہ وہ آخری نبی کے ظہور کا انتظار مدینہ میں کر رہے تھے. اور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہا. اسی دوران مکہ مکرمہ میں ایک بچے احمد بن عبداللہ کی ولادت ہوئی، اور چالیس سال تک خود اسے بھی نہیں معلوم تھا کہ اسے نبوت دی جائے گی. وحی کا اتنا عرصہ نازل نہ ہونا گھپ اندھیرے کی ہی مانند تھا. وحی نور یا روشنی کی ہی مانند ہے. "فامنو باللہ ورسوله والنور الذی انزلنا" اللہ تعالٰی پر اور اسکے رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام پر اور اس نور پر ایمان لاؤ جو تم پر نازل ہوا. اللہ تعالٰی وحی کو روشنی کہتے ہیں اور آپ روشنی کے بغیر راستہ نہیں دیکھ سکتے. تو آیت یا وحی کو ھدی یا رہنمائی بھی کہا جاتا ہے، ھدی اور نور ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں. تو ایک عرصہ دراز تک دنیا گھپ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے کیونکہ کوئی وحی ہی نازل نہیں ہوئی. اور اہل عرب کے لیے تو یہ رات اور بھی طویل ہے کیونکہ وہاں جو آخری نبی گزرے تھے وہ اسماعیل علیہ السلام تھے اور یہ ہزاروں سال پہلے ہوا تھا. اللہ تعالٰی نے اولاد اسماعیل کے ساتھ ایک خاص معاملہ کیا، اللہ تعالٰی نے انہیں خاص قسم کے اندھیرے میں رکھا. اس وقت کی عالمی طاقتوں میں، رومن ایمپائر اور ایرانی بادشاہت موجود  تھیں، جنہوں نے سڑکیں بنائیں ، قلعے تعمیر کیے، ان کی گلیاں قمقموں سے روشن تھیں. اور اہل عرب کے پاس صحرا کے سوا کچھ نہ تھا. اور وہ خانہ بدوش تھے، خیمہ لگاتے، آگ جلاتے کچھ دن رہتے اور پھر اپنا خیمہ اٹھا کر آگے چل دیتے. ان کے ہاں کوئی ترقی و تمدن نہ تھا، وہ باقی دنیا کی نسبت پس ماندہ تھے اور اسی اندھیرے میں رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام پیدا ہوئے. اور جس رات یہ قرآن آپ صل اللہ علیہ والہ و السلام پر نازل ہوا تو پوری دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا. اس اکیلی رات نے دنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دی. یہ نہایت زبردست بات ہے کہ دنیا کا پانچواں حصہ بالواسطہ اسلام سے متاثر ہوا اور باقی بلاواسطہ. یہ اللہ کی وحی، رومن ایمپائر میں یا ایران میں کسی پر نازل نہیں ہوئی، نہ ہی یہ یونان کی شاندار فلسفیانہ تاریخ کے باوجود کسی پر نازل ہوئیں. اللہ تعالٰی نے دنیا کے ایک تاریک ترین حصے کو منور کرنے کا فیصلہ کیا جہاں ترقی، تہذیب و تمدن کا نام و نشان تک نہ تھا. اہل عرب کے پاس نہ تو بڑی بڑی عمارتیں تھیں اور نہ ہی وہ کوئی شاندار فلسفیانہ یا ادبی تاریخ رکھتے تھے. لیکن ایک چیز ان کے پاس ایسی تھی جس پر انہیں فخر تھا. انہیں اپنے صحرا پر یا خانہ بدوش ہونے پر غرور نہیں تھا اور ان کے پاس اس وقت تیل کے کنوئیں بھی نہ تھے. انہیں اپنی زبان پر فخر و غرور تھا. یہ  زبان ان کے لیے عزتِ نفس تھی کہ ٹھیک ہے ہمارے پاس بڑی بڑی عمارتیں نہیں لیکن ہمارے پاس بڑے بڑے شاعر ہیں. تم لوگ ہماری طرح گفتگو ہی نہیں کر سکتے. ادب، لسانیت یہ ہماری چیزیں ہیں. تو ان کے ہاں شعراء کو اچھی شاعری کرنے پر نہایت انعام و کرم سے نوازا جاتا تھا. قبائل  میں صرف اس لیے جنگ چھڑ جاتی تھی کہ ایک قبیلے کے کسی شاعر نے دوسرے قبیلے کی ہجو میں کچھ اشعار کہہ ڈالے. اور ایسی جنگیں نسلوں تک چلتی تھیں. خانہ کعبہ جو کہ عبادت کو مرکز تھا وہ مشاعروں کے لیے بھی اجتماع گاہ تھا. اور نہایت اعلی پائے کی شاعری کو لکھ کر خانہ کعبہ کی دیوار پر آویزاں کیا جاتا تھا.

-نعمان علی خان

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں