اس محبت کے بدلے میں کیا نذر دوں


سوچا تھا کچھ اپنے الفاظ میں اپنے عزیز دوستوں کا شکریہ ادا کروں مگر ہمیشہ کی طرح الفاظ گم ہو گئے اور ساحر لدھیانوی کی یہ نظم مجھے اپنے حسبِ حال لگی تو سب کی نذر


آپ کیا جانیں مجھ کو سمجھتے ہیں کیا
میں تو کچھ بھی نہیں
اس قدر پیار ،اتنی بڑی بھیڑ کا میں، میں رکھوں گا کہاں؟
اس قدر پیار رکھنے کے قابل، نہیں میرا دل ،میری جاں
مجھ کو اتنی محبت نہ دو دوستو
سوچ لو دوستو!

پیار اک شخص کا بھی اگر مل سکے
تو بڑی چیز ہے زندگی کے لیے
آدمی کو مگر یہ بھی ملتا نہیں، یہ بھی ملتا نہیں
مجھ کو اتنی محبت ملی آپ سے
یہ میرا حق نہیں میری تقدیر ہے
میں زمانے کی نظروں میں کچھ بھی نہ تھا
میری آنکھوں میں اب تک وہ تصویر ہے
اس محبت کے بدلے میں کیا نذر دوں
میں تو کچھ بھی نہیں

عزتیں، شہرتیں، چاہتیں، الفتیں
کوئی بھی چیز دنیا میں رہتی نہیں
آج میں ہوں جہاں کل کوئی اور تھا
یہ بھی اک دور ہے، وہ بھی اک دور تھا
آج اتنی محبت نہ دو دوستو
کہ میرے کل کی خاطر نہ کچھ بھی رہے
آج کا پیار تھوڑا بچا کر رکھو
میرے کل کے لیے
کل جو گمنام ہے، کل جو سنسان ہے
کل جو انجان ہے، کل جو ویران ہے

ساحر لدھیانوی
 
دعاؤں کی طلبگار :)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں